بی بی سی ٹرینڈنگ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول ٹیلی گرام، فیس بک اور انسٹاگرام، کے علاوہ ایسی ویب سائٹس کا جائزہ لیا جہاں اس قسم کا اسلحہ تیار کرنے کے مشوری دیے جاتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کا پھیلاؤ کتنا وسیع ہے۔
ایک ماہر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’تھری ڈی پرنٹڈ‘ اسلحہ دنیا بھر میں مجرموں اور شدت پسندوں کا ’پسندیدہ ہتھیار‘ بن سکتا ہے۔
ایسے ہتھیار، جن کا سراغ لگانا مشکل ہوتا ہے، متعدد مجرمانہ مقدمات میں بازیاب ہو چکے ہیں۔ ایک ایسا مقدمہ امریکہ میں برائن تھامپسن کے قتل کا بھی تھا جو یونائیٹڈ ہیلتھ کیئر کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر تھے۔ ان کے قتل میں مبینہ طور پر ایک تھری ڈی ہتھیار کا استعمال ہوا تھا۔
بی بی سی ٹرینڈنگ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول ٹیلی گرام، فیس بک اور انسٹاگرام، کے علاوہ ایسی ویب سائٹس کا جائزہ لیا جہاں اس قسم کا اسلحہ تیار کرنے کے مشوری دیے جاتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کا پھیلاؤ کتنا وسیع ہے۔
تھری ڈی پرنٹڈ اسلحہ بلیو پرنٹ سمیت بنیادی سامان حاصل کرنے کے بعد کسی تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے جوڑا جا سکتا ہے اور یہ اسلحہ قوانین سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران اس ٹیکنالوجی میں تیزی سے جدت آئی ہے اور اب ایسا اسلحہ بھی تیار ہو رہا ہے جو متعدد گولیاں ایک ساتھ چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اس کے پرزے ٹوٹتے نہیں۔
امریکہ میں اسلحہ کے پھیلاؤ پر قابو پانے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’ایوری ٹاؤن‘ کے نک سپلینا کا کہنا ہے کہ ’پرتشدد کارروائیاں کرنے کے خواہش مند افراد کے لیے یہ پسندیدہ ہتھیار بن سکتا ہے کیوں کہ مواد بہتر ہوا ہے، قیمت کم ہو چکی ہے اور ان کو باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘
بی بی سی کی تفتیش کا آغاز انسٹاگرام اور فیس بک پر موجود ایسے ہتھیاروں کے اشتہارات سے ہوا۔ اکتوبر 2024 میں ’ٹیک ٹرانسپرنسی پراجیکٹ‘ نامی تنظیم نے سوشل میڈیا پر میٹا کے اصولوں کے متضاد ایسے سینکڑوں اشتہار دیکھے جن میں ان تھری ڈی ہتھیاروں کی تشہیر کی گئی تھی۔ اس وقت میٹا نے ردعمل دینے سے انکار کیا تھا تاہم بی بی سی ٹرینڈنگ نے چند ماہ بعد دیکھا کہ وہ اشتہار تب بھی موجود تھے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود اشتہاروں میں ممکنہ صارفین کو ٹیلی گرام یا واٹس ایپ رابطہ فراہم کیا گیا تھا۔ ٹیلی گرام پر ہم نے ایسے بہت سے چینل دیکھے جن میں مختلف ہتھیار برائے فروخت تھے جن میں سے کچھ تھری ڈی پرنٹر سے تیار کیے گئے لگ رہے تھے۔ ایک چینل، جس کے فالوورز کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی، نے دعویٰ کیا کہ وہ عالمی سطح پر یہ ہتھیار بھیجتے ہیں۔
بی بی سی نے ایک اکاؤنٹ سے رابطہ کیا جو خود کو ’جیسی‘ کہلاتا تھا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا وہ خلاف قانون تھری ڈی اسلحہ برطانیہ بھجوا سکتے ہیں۔ ایک گھنٹے میں جیسی نے ہمیں ’لبریٹر‘ یا ’گلوک سوئچ‘ دینے کی پیشکش کر دی۔
گلوک سوئچ ایک چھوٹا پستول ہے جسے تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے تیار آلے سے ایک آٹومیٹک ہتھیار میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ لبریٹر 2013 میں کوڈی ولسن نامی شخص نے ڈیزائن کیا تھا۔ یہ دنیا میں وسیع پیمانے پر دستیاب ہونے والا پہلا ہتھیار تھا جو تھری ڈی پرنٹڈ تھا اور ایک وقت میں ایک گولی چلا سکتا تھا۔
جیسی نے دعویٰ کیا کہ وہ برطانوی کسٹمز کی نظر سے بچ کر ہتھیار سمگل کر سکتا ہے اور اس نے 160 پاؤنڈ مالیت کے بٹ کوائن کا معاوضہ طلب کیا تاہم بعد میں اس نے ایک برطانوی اکاؤنٹ میں پیسہ بھجوانے کا کہا جسے ہم تلاش نہیں کر پائے۔
بعد میں جب ہم نے اسے بتایا کہ ہمارا تعلق بی بی سی سے ہے تو اس نے اعتراف کیا کہ برطانیہ میں یہ ہتھیار بیچنا غیر قانونی ہے تاہم اسے کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ اس نے کہا کہ ’میرا کاروبار ہے، آن لائن ہتھیار بیچنے کا۔‘
ہم نے جیسی کے دعوے کو آزمانے کا فیصلہ تو نہیں کیا لیکن اگرچہ اس کے لہجے سے یہ تاثر ملا کہ شاید وہ دھوکہ باز ہے، میٹا پر اشتہار سے واضح تھا کہ حقیقت میں ایسا اسلحہ بیچنے والوں کے لیے مواقع موجود ہیں۔
بی بی سی نے اس بارے میں میٹا سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جن اشتہاروں کا ہم نے ذکر کیا ہے انھیں پالیسی کے مطابق بند کر دیا گیا ہے اور ’لائبریری میں اس اشتہار کی موجودگی اس بات ثبوت نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو دکھائی بھی دے رہا ہے۔‘
دوسری جانب ٹیلیگرام کا کہنا تھا کہ جیسی کا اکاوئنٹ بند کر دیا گیا ہے۔ ٹیلیگرام کے ترجمان نے کہا کہ ’ہتھیاروں کی فروخت ممنوعہ ہے اور جب بھی ایسا اشتہار نوٹس میں آتا ہے اسے ہٹا دیا جاتا ہے۔‘
تاہم پریشان کن بات یہ ہے کہ ایسے ہتھیار خریدنے کے خواہشمند خود بھی انھیں تیار کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ مختلف پرزے الگ الگ بنا کر انھیں جوڑ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر راجن بسرا کنگز کالج لندن میں محقق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ کسی کاغذ کو پرنٹ کرنے جیسا آسان تو نہیں لیکن ممکن ضرور ہے۔‘
بی بی سی نے دیکھا ہے کہ مختلف ویب سائٹس پر مشورے موجود ہیں کہ کیسے تھری ڈی پرنٹڈ اسلحہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسی ہی تحریر میتھیو لاروزری کی ہے جو خود فلوریڈا میں وکیل ہیں اور ہتھیار رکھنے کے حق کے حامی ہیں۔ وہ عالمی تھری ڈی پرنٹڈ گن کمیونٹی کے رکن بھی ہیں جس سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کا تعلق امریکہ سے ہے جہاں دوسری آئینی ترمیم اسلحہ رکھنے کا حق دیتی ہے۔
بی بی سی نے جب ان سے سوال کیا کہ وہ ایسی معلومات کیوں عام کر رہے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ’یہ صرف معلومات ہیں۔‘
میانمار میں تھری ڈی اسلحہ عسکری تنازع میں استعمال ہو رہا ہےجب ان سے ان معلومات سے منسلک خطرات کے بارے میں سوال کیا گیا کہ انھیں کسی جرم میں استعمال کیا جا سکتا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’شکر ہے اب تک ایسا نہیں ہوا۔‘ انھوں نے میانمار کی مثال دی اور کہا کہ اس ملک میں تھری ڈی اسلحہ نے ایک مثبت کردار ادا کیا ہے۔
واضح رہے کہ میانمار میں تھری ڈی اسلحہ عسکری تنازع میں استعمال ہو رہا ہے جہاں حکومت کے خلاف باغی اسے بڑے پپیمانے پر استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم بی بی سی برما کے نمائندہ ہنین مو کے مطابق کچھ عرصہ سے ان کے استعمال میں کمی آ رہی ہے اگرچہ کہ ان کی قیمت بہت کم ہے۔
انھوں نے ایک باغی رہنما سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ میانمار کی حکومت نے تھری ڈی اسلحہ میں استعمال ہونے والے خام مال پر سخت کنٹرول بڑھا دیا ہے جبکہ دوسری جانب ان گروہوں کے پاس روایتی اسلحہ اب کثرت سے دستیاب ہے۔
میانمار کی مثال تھری ڈی اسلحہ سے جڑی مشکلات بھی واضح کرتی ہے تاہم عالمی سطح پر ان کا پھیلاؤ حقیقی ہے۔ متعدد ممالک میں تھری ڈی اسلحہ کے بلیو پرنٹ رکھنے کے خلاف قانون سازی پر غور کیا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی ہو رہی ہے کہ تھری ڈی پرنٹر تیار کرنے والوں کو بھی ایسے قوانین کے ضمرے میں لا کر اس طرح کے اسلحہ کے حصول کو ناممکن بنایا جائے۔ لیکن ان اقدامات کا کیا اثر ہو گا، یہ دیکھنا باقی ہے۔