اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے خلاف درخواست مسترد: ’تبادلے کو نئی تقرری تصور نہیں کیا جا سکتا‘

جمعرات کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے یہ مختصر فیصلہ تین دو کے تناسب سےسنایا ہے اور عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے۔ عدالت نے اپنے مختصر حکم نامے میں کہا ہے کہ ججز کے تبادلے کو نئی تقرری تصور نہیں کیا جا سکتا۔
SC
Getty Images

پاکستان کی سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کی جانب سے دائر کی گئیں درخواستوں سمیت 11 درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔

جمعرات کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے یہ مختصر فیصلہ تین دو کے تناسب سےسنایا ہے اور عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے۔ عدالت نے اپنے مختصر حکم نامے میں کہا ہے کہ ججز کے تبادلے کو نئی تقرری تصور نہیں کیا جا سکتا۔

یاد رہے کہ صدر آصف علی زرداری نے تین ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے تھے ان میں سے لاہور ہائی کورٹ سے سردار سرفراز ڈوگر، سندھ ہائی کورٹ سے جسٹس خادم حسین سومرو اور بلوچستان ہائی کورٹ سے جسٹس محمد آصف شامل ہیں۔

صدر مملکت نے آئین کی شق 200 کے سب سیکشن ایک کے تحت ان تینوں ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹراسفر کیا ہے۔حکومت کی جانب سے ان ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کرنے سے متعلق سمری صدر مملکت کو بھیجی گئی تھی جس پر مشاورت کے بعد ان ججوں کو ملک کی تینوں ہائی کورٹس سے تبدیل کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے فرائض سرانجام دینے کے لیے کہا گیا ہے۔

جس کے بعد عدالت عالیہ کے پانچ ججز نے سنیارٹی کے معاملے پر رواں سال 20 فروری کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ یہ درخواست دائر کرنے والوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل تھے۔ ان ججوں نے سینئر وکلا منیراے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کے توسط سے آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت دائر 49 صفحات پر مشتمل درخواست میں استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ قرار دے کہ صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات حاصل نہیں ہیں۔

درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔

سپریم کورٹ میں اپنے فیصلے میں کیا کہا؟

SC
Getty Images

جمعرات کو جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ان درخواستوں کی 19 سماعتوں کے بعد مختصر فیصلہ سنایا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر جسٹس شاہد بلال اور جسٹس صلاح الدین نے ججوں کے تبادلے کے معاملے کو آئینی و قانونی قرار دیا جبکہ پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس نعیم افغاناور جسٹس شکیل احمد نے اس سے اختلاف کیا ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

تاہم سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ آرٹیکل 200 کے تحت صدر کو ججز کی منتقلی کا اختیار حاصل ہے اور ججز کی منتقلی نئی تقرری نہیں سمجھی جا سکتی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ صدر مملکت ججز کی سنیارٹی اور مستقل یا عارضی منتقلی کی وضاحت کریں اور سنیارٹی سے متعلق جلد فیصلہ کریں۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر بطور قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اپنا کام جاری رکھیں گے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ صدر کا ججز کے تبادلے کا آرٹیکل 200 کے تحت اختیار کسی قانون سے مشروط نہیں ہے اور آرٹیکل 200 میں ججز کے تبادلے کا پورا میکنیزم دیا گیا ہے۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جج اگر رضامندی نہ دے تو تبادلے کا عمل وہیں ختم ہو جاتا ہے اور جج کی رضا مندی کے بعد چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کا آئین میں کہا گیا ہے۔

عدالت میں اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ججز کے ٹرانسفر سے عدلیہ کی آزادی متنازع نہیں ہوتی۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلوں کے خلاف درخواست گزاروں میں سابق وزیر اعظم عمران خان بھی شامل ہیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار ، جسٹس ثمن رفعت آغا اور جسٹس سردار اسحاق بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔

بینچ میں شامل ججوں کے اختلافی نوٹ میں کیا کہا؟

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ میں شامل دو اقلیتی ارکان جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اپنے اختلافی نوٹ میں صدارتی نوٹیفکیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے درخواستیں منظور کرنے کی سفارش کی۔

ججز کے اختلافی نوٹ کے مطابق تبادلہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تقرری کے دائرے میں آتا ہے، اور ججز کے تبادلے کا یہ طریقہ کار آئین کی روح کے خلاف ہے۔

اختلافی نوٹ میں قرار دیا گیا ہے کہ آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 200 کی شق دو شق ایک کے تابع ہے اور دونوں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ان دونوں شقوں کی تشریح ہم آہنگی کے اصول کے تحت کی جانی چاہیے، جس کے مطابق دونوں شقوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے پڑھا جائے تاکہ کوئی تضاد یا بے معنی نتیجہ نہ نکلے۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ آرٹیکل 200 کی شق ایک اور شق دو کو ایک ساتھ پڑھنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب صدر مملکت اپنی صوابدید کے تحت کسی ہائی کورٹ کے جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرتے ہیں، تو وہ جج اس مدت کے لیے اس ہائی کورٹ میں خدمات انجام دیتا ہے جس کے دوران اسے تنخواہ کے علاوہ اضافی مراعات اور الاؤنسز ملتے ہیں، جو صدر مملکت طے کرتے ہیں۔

اختلافی نوٹ میں زور دیا گیا ہے کہ آرٹیکل 200 کی شق ایک اور شق دو ججز کی مستقل تبدیلی کی اجازت نہیں دیتیں۔ یہ دونوں شقوں سے واضح ہے کہ ججز کی تبدیلی صرف عارضی بنیادوں پر ہو سکتی ہے، نہ کہ مستقل طور پر۔

اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے وفاق کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت کو واضح طور پر بتایا کہ مذکورہ تین ججز کو صدر مملکت نے نوٹیفکیشن کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مستقل طور پر منتقل کیا تھا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ تبادلے کا عمل متعلقہ چیف جسٹسز اور چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ معنی خیز، ہدف پر مبنی، اور اتفاق رائے پر مبنی مشاورت سے عاری تھا۔ تین ججز کی مستقل تبدیلی کا عمل غیر ضروری عجلت میں مکمل کیا گیا، جو اس کی شفافیت پر سوال اٹھتا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ یہ عمل حقائق اور قانون دونوں میں بدنیتی کا شکار تھا، جو اسے آئینی طور پر ناقابل قبول بناتا ہے۔ یہ تبادلہ عوامی مفاد میں نہیں کیا گیا۔ صدر مملکت نے تین ججز کا مستقل تبادلہ کرتے وقت اپنی آزادانہ رائے اور معروضی فیصلے کا استعمال نہیں کیا۔

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام صوبوں کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں متناسب نمائندگی کا مقصد جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے تحت نئے ججز کی تقرری کے ذریعے آسانی سے حاصل کیا جا سکتا تھا۔ ججز کی تقرری رولز کے تحت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ارکان پر لازم ہے کہ وہ علاقائی، صنفی، اور مذہبی تنوع کو یقینی بنائیں۔

ججز کا مستقل تبادلہ آئین کے آرٹیکل دو، آرٹیکل چار، اور آرٹیکل پچیس کی خلاف ورزی ہے اور اس نے عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی، اور مساوات کے اصول کو نقصان پہنچایا۔ تین ججز کی مستقل تبدیلی نے لاہور، سندھ، اور بلوچستان ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ تک ججز کی برادری میں تناؤ پیدا کیا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ موجودہ ججز نے 25 مارچ 2024 کو چیف جسٹس آف پاکستان اور جوڈیشل کمیشن کے دیگر تین اراکین کو خط لکھا تھا، جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت اور ججز کو دھمکانے کی شکایات کی گئی تھیں۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس اور عدالتی سطح پر بحث ہوئی، جس نے تین ججز کی تبدیلی کے عمل کو متحرک کیا۔

اختلافی نوٹ میں دونوں ججز نے وکیل کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ججز کی تقرری یا تبدیلی میں کردار ادا کیا۔ ججز نے قرار دیا کہ آئین کے تحت ایجنسیوں کا ججز کی تقرری یا تبدیلی میں کوئی کردار نہیں۔ وہ ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں اور ایگزیکٹو، عدلیہ، یا آئینی اداروں پر حاوی نہیں ہو سکتی۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر وکیل کا دعویٰ درست بھی مان لیا جائے تو یہ ایک تشویشناک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ صدر مملکت کا نوٹیفکیشن غیر آئینی، غیر قانونی اور باطل ہے۔ تمام آئینی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا موقف

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جن پانچ ججز نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھی اس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کسی بھی ہائی کورٹ کے جج کا کسی دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ مستقل نہیں ہوسکتا۔

ان درخواستوں میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر کسی جج کو دوسری ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا گیا ہے تو اس کو اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے نیا حلف لینا ہوگا۔

ججز کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی ان درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ کے کسی جج کو دوسری ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو جس ہائی کورٹ میں اس جج کو ٹرانسفر کیا گیا ہے وہاں پر کام کرنے والے ججز کی سنیارٹی متاثر نہیں ہو گی۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹیکے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کی جانب سے دائرکی گئی درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کوٹر کے جج جسٹس نعیم اختر افغان نے ججز کے تبادلے کی نوعیت اور سنیارٹی پر سوالات اٹھاتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ سینئر ججز کو چھوڑ کر پندرویں نمبر والے جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا؟

ساتھ ہی سوال کیا کہ آرٹیکل 200کے تحت جج کا تبادلہ مستقل ہوگایا عارضی؟

پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل امجد پرویز نے ججز ٹرانسفر کو مستقل قرار دیتے ہوئے کہا کہ 1955 میں گورنر جنرل کے ایک آرڈر کے ذریعے مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنایا گیا، اور تمام ہائیکورٹس کو یکجا کر کے ایک عدالت قائم کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت ججز کی گذشتہ سروس کو برقرار رکھا گیا اور سنیارٹی تقرری کی تاریخ کے مطابق ترتیب دی گئی۔

انھوں نے کہا کہ 1970 میں ون یونٹ تحلیل ہوا تو ججز کو مختلف ہائیکورٹس میں ٹرانسفر کیا گیا، اور اس موقع پر بھی ان کی سابقہ سروس تسلیم کی گئی۔ اسی طرح 1976 میں سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹس کو الگ کیا گیا تو وہاں بھی ججز کے تبادلے کے وقت ان کی سنیارٹی برقرار رکھی گئی۔

سپریم کورٹ نے یہ آبزوریشن دی کہ موجودہ کیس کی صورتحال مختلف ہے، کیونکہ نہ کوئی نئی عدالتی تشکیل ہوئی ہے، نہ ہی کوئی ہائیکورٹ تحلیل ہوئی ہے اس لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے پر ایسی کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی، لہٰذا ماضی کی مثالوں کا اطلاق موجودہ صورتحال پر ممکن نہیں۔

امجد پرویز نے اس پر مؤقف دیا کہ ان کا نکتہ یہی ہے کہ ماضی میں جب بھی ججز کا تبادلہ ہوا، ان کی گذشتہ سروس کو تسلیم کیا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل دیتے ہوئے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے کیس کا حوالہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس کے لیے اسپیشل کورٹ تشکیل دی گئی تھی، جس کے لیے پانچ ہائیکورٹس کے ججز میں سے تین کو چنا گیا، اور سینئر موسٹ جج کو عدالت کا سربراہ بنایا گیا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ججز کی سنیارٹی ہمیشہ مقدم رکھی گئی۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ جب سنیارٹی کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں تو 14 ججز کو چھوڑ کر 15ویں نمبر پر موجود جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا؟

اس پر امجد پرویز نے کہا کہ اس سمری پر کوئی عام آدمی نہیں بلکہ خود ججز نے رائے دی ہے، اور وہ آئین و قانون سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یٰحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ ان تین ججز کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر آئین کے مطابق ہوئی ہے اور اس ضمن میں ان (چیف جسٹس) سے بھی مشاورت کی گئی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نئی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے لاہور ہائی کورٹ میںججز کی سنیارٹی میں 15 ویں نمبر پر تھے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان ججز کی ٹرانسفر کو چیلنج کیا تھا کیونکہ نیب کے جن کیسز میں انھیں سزا سنائی گئی ہے ان کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہی زیر سماعت ہیں۔

Islamabad High Court
BBC

عدالتی فیصلے پر وکلا کا ردعمل

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی نے عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'اعلٰی عدلیہ میں جو ججز متحرک تھے ان کو سائڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ ملک میں سیاسی عمل ختم کر دیا گیا ہے اور کچھ سیاسی جماعتیں بااختیار حلقوں کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں۔'

سپریم کورٹ کے وکیل معیز جعفری کا کہنا تھا کہ '26 ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کی آزادی بڑی حد تک کمپرومائزڈ ہو چکی ہے جبکہ اس ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں جو درخواستیں دائر کی گئی ہیں ان کو بھی ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا جا رہا۔'

انھوں نے کہا کہ درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر نہ کرنا بھی فیصلے کی ایک شکل ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور کو شامل کرکے گزشتہ دس برسوں سے بار ایسوسی ایشنز پر سرمایہ کاری کی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ابوکلا عدلیہ کی آزادی کے لیے شائد سڑکوں پر نہ نکلیں۔'

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اعلی عدلیہ مزید کمزور ہو گئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد بار کونسل اور اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار اسوسی ایشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین ججز کی تعیناتی کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی جس پر لاہور ہائی کورٹ کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ کی بار اسوسی ایشنز نے بھی اس احتجاجی کال کی حمایتکی تھی۔

دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین ججز کی ٹرانسفر کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ بار کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار کی ایگزیکٹیو کمیٹی سے سرکولیشن کے ذریعے ججز کی ٹرانسفر پر رائے لی گئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 200 اس ضمن میں بالکل واضح ہے۔ اس اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ججز کی ٹرانسفر نئی تقرری نہیں ہوتی اور ٹرانسفر ہونے والے ججز کی سنیارٹی برقرار رہے گی۔

ججوں کی کسی دوسری ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شاہ خاور کا کہنا ہے کہ آئین میں ججز کی دوسری عدالت منتقلی کا طریقہ کار موجود ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پہلے جس جج کو منتقل کیا جانا ہو تو اس جج کی رضامندی لی جاتی ہے جس کے بعد جس ہائی کورٹ میں وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے اس کے چیف جسٹس کی اور پھر جس ہائی کورٹ میں اس کو بھیجا جانا ہے اس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ مراحل مکمل ہونے کے بعد جب حکومت کی طرف سے سمری صدر مملکت کو بھجوائی جاتی ہے تو وہ پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت کے بعد اس جج کی ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا۔

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل کیا گیا ہے اس سے پہلے سندھ ہائی کورٹ کے کچھ ججز کو بھی بلوچستان ہائی کورٹ بھیجا گیا تھا۔

SC
EPA

کیا ان ججز کی ٹرانسفر سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی سینیارٹی متاثر ہو گی؟

جن تین ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا گیا ہے ان ججز میں جسٹس سردار سرفراز ڈوگر سب سے سینیئر ہیں۔ جسٹس سردار سرفراز ڈوگر 2015 سے لاہور ہائی کورٹ میں تعینات ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی ٹرانسفر کی وجہ سے صرف ایک جج کی سنیارٹی متاثر ہوئی ہے اور وہ جسٹس محسن اختر کیانی ہیں۔ سردار سرفراز ڈوگر چیف جسٹس کے بعد اب سب سے سینیئر جج بن گئے ہیں اس سے پہلے جسٹس محسن اختر کیانی سب سے سینیئر جج تھے۔

اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کی سنیارٹی مثاثر نہیں ہوئی کیونکہ جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس آصف کی تعیناتی سنہ 2023 میں عمل میں لائی گئی تھی۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز جن میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اوررنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے دیگر ہائی کورٹس سے ججز کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبدیلی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

اس سے پہلے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سات ججز نے اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھا تھا جس میں فوج کے خفیہ اداروں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کا ذکر کیا گیا تھا۔

ان سات ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی شامل تھیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز لانے کی کیا ضرورت تھی؟

حکومت کا مؤقف ہے کہ چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کے لیے ان ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا گیا ہے۔

حکومت کے اس دعوے کے برعکس اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان پانچ ججز نے جو خط لکھا اس میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد اسلام آباد ہائی کورٹ سے کہیں زیادہ ہے اور اس لیے اگر ججز کو ٹرانسفر کرنا ہے تو لاہور ہائی کورٹ میں جج تعینات کیے جائیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ریاست علی آزاد نے الزام عائد کیا ہے کہ 'حکومت اب عدلیہ کو قابو میں لانے پر تلی ہوئی ہے اور ان ججز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں۔'

انھوں نے کہا کہ پیر کے روز وکلا کی ہڑتال کے علاوہ وکلا برادری آئندہ کا لائحہ عمل جلد ہی تیار کرے گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.