’شکریہ۔۔۔ مگر اڑیسہ جانا ضروری ہے‘: مودی کا ٹرمپ کو ’شائستہ انکار‘ اور انڈیا میں عاصم منیر کی واشنگٹن میں موجودگی کے چرچے

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے مشرقی ساحلی ریاست اڑیسہ (اوڈیشہ) میں گذشتہ شام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی جانے والی دعوت پر’شائستگی‘ سے انکار کر دیا ہے۔

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے مشرقی ساحلی ریاست اڑیسہ (اوڈیشہ) میں گذشتہ شام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی جانے والی دعوت پر’شائستگی‘ سے انکار کر دیا تھا۔

دراصل صدر ٹرمپ کی اس مبینہ دعوت کے بارے میں بات خود وزیر اعظم مودی نے گذشتہ روز ایک تقریب میں کہی۔ اس سے قبل انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے بدھ کو بتایا تھا کہ وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان فون پر تقریبا 35 منٹ تک باتیں ہوئیں جس دوران انھیں مدعو کیا گيا۔

تاحال امریکہ کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

وزیر اعظم مودی ریاست اڑیسہ میں بی جے پی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے موقعے پر جمعہ کو ریاستی دارالحکومت بھونیشور پہنچے تھے جہاں انھوں نے ریاستی حکومت کے ایک پروگرام میں شرکت کی تھی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ’دوستو، ابھی دو دن پہلے میں جی-7 کے سربراہی اجلاس کے لیے کینیڈا میں تھا، امریکی صدر ٹرمپ نے مجھے فون کیا۔

’انھوں نے کہا کہ اب تم کینیڈا آ گئے ہو تو واشنگٹن ہوتے ہوئے جاؤ، ہم اکٹھے کھائیں گے اور بات کریں گے، انھوں نے بڑے احترام سے مجھے مدعو کیا۔

’میں نے امریکی صدر سے کہا: آپ کی دعوت کا شکریہ۔ مہا پربھو (ہندو بھگوان جگن ناتھ جن کو اڑیسہ میں بہت عقیدت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے) کی سرزمین پر جانا میرے لیے بہت ضروری ہے۔ اسی لیے میں نے شائستگی کے ساتھ ان کی دعوت سے انکار کر دیا اور مہا پربھو سے آپ کی محبت اور عقیدت مجھے اس سرزمین پر لے آئی۔‘

وزیر اعظم مودی اور ٹرمپ کی اس سے قبل ملاقات ہوئی تھی اور انھوں نے مستقبل میں ملنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے
Getty Images
وزیر اعظم مودی اور ٹرمپ کی اس سے قبل ملاقات ہوئی تھی اور انھوں نے مستقبل میں ملنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے

سوشل میڈیا پر ان کے اس بیان کے بہت سے مطالب نکالے جا رہے ہیں۔ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے مبینہ طور پر اس لیے اس دعوت سے کنارہ کشی اختیار کی کیونکہ اسی دوران صدر ٹرمپ پاکستانی فوج کے سربراہ عاصم منیر کو لنچ کروا رہے تھے تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے یہ دعوت اس لیے دی تھی تاکہ ’وہ دنیا کو یہ دکھا سکیں کہ انھوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان صلح کرانی ہے‘ جبکہ ایک حلقہ وزیر اعظم مودی کو ان کی خارجہ پالیسی کے لیے تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔

خیال رہے کہ مئی کے اوائل میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک جھڑپ ہوئی تھی جس میں ٹرمپ نے جوہری طاقت کے حامل دونوں ممالک کے درمیان جنگی بندی کرانے کا دعوی کیا تھا۔

انڈیا نے پاکستان میں ’دہشت گردی کے ٹھکانوں‘ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ پاکستان نے انڈیا کے کئی طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا جس کے بعد سے انڈیا میں حزب اختلاف پارلیمان کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے اور وزیر اعظم مودی سے اس معاملے پر وضاحت چاہتی ہے۔

دوسری جانب ایک ہفتہ پہلے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے سے خطے میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے اور سفارت کاری پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہو گئی ہے۔

عاصم منیر اور ٹرمپ کی ملاقات کو انڈیا میں اہم سمجھا جا رہا ہے
Getty Images
عاصم منیر اور ٹرمپ کی ملاقات کو انڈیا میں اہم سمجھا جا رہا ہے

اس سے قبل وزیر اعظم مودی کو جی-7 کے سربراہی اجلاس میں مدعو کرنے کے لیے کینیڈا کے وزیر اعظم کو حزب اختلاف کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا رہا۔

جب نریندر مودی جی-7 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے کینیڈا گئے تھے تو سائڈ لائنز پر ان کی اور صدر ٹرمپ کی ملاقات متوقع تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے پیش نظر اپنا دورہ مختصر کرنے کا فیصلہ کیا اور ملاقات کے بجائے فون پر پی ایم مودی سے بات کی۔

وکرم مصری نے بتایا کہ اگرچہ وزیر اعظم مودی نے ٹرمپ کی دعوت کو منع کر دیا لیکن انھوں نے صدر ٹرمپ کو کواڈ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جسے انھوں نے قبول کیا۔

بہرحال انڈیا میں حزب اختلاف نے اسے انڈیا کی سفارتکاری کو دھچکا بتایا ہے جبکہ ایک حلقہ انڈیا اور امریکہ کے رشتے میں اسے تناؤ کی علامت کہہ رہا ہے۔

سوشل میڈیا صارف اسے اپنے اپنے نظریے سے دیکھ رہے ہیں۔ ایموک نامی ایک صارف نے لکھا: ’ٹرمپ کے (انڈیا پاکستان کے درمیان) جنگ بندی کے بیانیہ پر کوئی تقریر نہیں، ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف لگانے کے جواب میں کوئی تقریر نہیں، پاکستان پر ٹرمپ کے مؤقف کے جواب میں کوئی تقریر نہیں۔ آج مودی صرف اپنا سینہ چوڑا کے لیے کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے ٹرمپ کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔‘

سابق فوجی اور صحافی پروین ساہنی نے ایکس پر لکھا کہ ’ہمیں ان لوگوں سے اختلاف ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مودی نے کینیڈا سے واپسی پر امریکہ کے دورے کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے ٹرمپ کو ٹھکرا دیا۔‘

انھوں نے چند نکات میں چند باتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس کی واضح وجہ یہ تھی کہ جب عاصم منیر ٹرمپ کے ساتھ لنچ کرنے والے تھے تو ایسے وقت میں وہ واشنگٹن میں نہیں ہونا چاہتے تھے۔

دوسری یہ کہ عاصم منیر پاکستان میں واحد فیصلہ ساز کے طور پر اسرائیل اور ایران کے تنازعے میں ٹرمپ کے لیے مودی کے انڈیا سے زیادہ اہم ہیں کیونکہ پاکستانی سرحد ایران کے ساتھ ملتی ہے اور ایران کی حمایت کرنے والے چار جوہری ممالک میں سے وہ ایک ہے۔ (بقیہ تین کے طور پر انھوں نے چین، روس اور شمالی کوریا کا ذکر کیا ہے۔)

انھوں مزید لکھا کہ ’پاکستان کا امریکہ کے ساتھ طویل مدت سے جاری دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کے تحت تعلقات ہیں جو اسّی کی دہائی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا، پینٹاگون اور جی ایچ کیو پنڈی کے تعلقات پائیدار ہیں۔ (اگر جنگ امریکہ کی شمولیت کے ساتھ بڑھتی ہے) پاکستان جوہری ہتھیاروں کے ساتھ واحد مسلم ملک کے طور پر زیادہ تر عرب اور مسلم ممالک کے قریب ہے جو اسرائیل کے خلاف ایران کا ساتھ دیں گے اور پاکستان کے چین اور ترکی کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’انڈیا نے آپریشن سندور کی وجہ سے دنیا کو دکھایا ہے کہ پاکستان اس کا ہم پلہ فوجی حریف ہے۔ اس سے پاکستان کا پروفائل جنوبی ایشیا سے آگے بڑھ گیا ہے۔ انڈیا کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں اپنے جائزے پر نظرثانی کرے۔‘

کانگریس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کو ’انڈین سفارت کاری کے لیے بڑا دھچکہ‘ قرار دیا ہے۔

کانگریس کے رہنما جے رام رمیش نے ایکس پر پوسٹ کیا: ’فیلڈ مارشل عاصم منیر نہ تو کسی ملک کے سربراہ ہیں اور نہ ہی کسی حکومت کے سربراہ، وہ پاکستان کے آرمی چیف ہیں، اس کے باوجود صدر ٹرمپ نے انھیں وائٹ ہاؤس میں لنچ پر مدعو کیا اور ان کی بہت تعریف کی۔

انھوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ وہی شخص ہے جس کے اشتعال انگیز اور قابلِ اعتراض بیانات کی وجہ سے 22 اپریل کو پہلگام میں وحشیانہ دہشت گردانہ حملہ ہوا، جسے اسی فوجی نظام نے انجام دیا جس کے وہ خود سربراہ ہیں۔‘

جے رام رمیش نے لکھا: ’یہ انڈین سفارت کاری (گلے لگنے کی سفارت کاری کے لیے بھی) کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے!‘

انھوں نے مزید کہا: ’10 مئی سے لے کر اب تک صدر ٹرمپ 14 بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انھوں نے جنگ بندی میں ثالثی کی، انھوں نے تجارت کو ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا اور انھوں نے پاکستان اور انڈیا کو ایک ساتھ لا کھڑا کیا۔ پی ایم خاموش رہے۔ اس کی تردید نہیں کی گئی۔

’آج ہمیں بتایا گیا ہے کہ ان کی صدر ٹرمپ کے ساتھ 35 منٹ کی فون کال ہوئی اور انھوں نے بہت سی ایسی باتیں کہیں جنھیں سیکریٹری خارجہ نے پڑھ کر سنایا۔ پارلیمنٹ میں بھی وہ یہ سب کہیں۔ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلائیں۔ کل ایک آل پارٹی میٹنگ بلائیں اور وہی باتیں کہیں جو آپ نے صدر ٹرمپ کو فون پر کہی ہیں۔ وزیراعظم اتنے اہم معاملات پر خاموش کیوں ہیں؟ ان میں بولنے کی ہمت ہونی چاہیے۔‘

وزیر اعظم مودی کے رخ کو درست ٹھہراتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر صحافی علیشان جعفری نے لکھا: ’ٹرمپ نے پاکستان کے عاصم منیر کی موجودگی میں وزیر اعظم مودی کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا تاکہ ’جنگ رکوا دی‘ کا تماشا دیکھا جا سکے۔

’اچھا ہے کہ مودی نے انکار کر دیا، کیونکہ ایک بار جب آپ ٹرمپ کے ساتھ کمرے میں ہوتے ہیں، تو وہ آپ کو سیدھا کر سکتے ہیں اگر آپ متفق نہیں ہیں (زیلینسکلی کی مثال یاد کریں)۔‘

انھوں نے مزید لکھا: ’ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ منیر کے ایران کے بارے میں ان کے موقف سے متفق ہیں۔ افغانستان میں پاک فوج کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے، وہ جانتے ہیں کہ کس طرح امریکی جنگی مہمات کی پشت پناہی کر کے کِک بیکس نکالنی ہیں، ان کے اعمال ہمیشہ ان کے جذباتی بیانات کو جھٹلاتے ہیں۔

’پھر بھی، منیر اپنی زندگی کا اچھا وقت گزار رہے ہیں۔ ایک طرف انھیں چین سے ففتھ جنریشن کے سٹیلتھ جنگی طیارے مل رہے ہیں (یہ انڈیا کے لیے تشویش ہے)، دوسری طرف ٹرمپ ان کی میزبانی کر رہے ہیں۔ اندرونی طور پر، سندور (آپریشن) نے انھیں پاکستان میں صرف مضبوط اور زیادہ مقبول بنایا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.