پاکستان کی صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش: ایک ’شاندار چال‘ یا خطے کی صورتحال کے تناظر میں ’نامعقول‘ فیصلہ؟

حکومتِ پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026 کے نوبیل امن انعام کے لیے باضابطہ طور پر نامزد کرنے کی سفارش کر دی ہے۔ تاہم جمعے کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طنزیہ انداز میں کہا ہے کہ ’میں کچھ بھی کرلوں مجھے نوبیل نہیں ملے گا۔‘
getty
Getty Images

حکومتِ پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026 کے نوبیل امن انعام کے لیے باضابطہ طور پر نامزد کرنے کی سفارش کر دی ہے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق یہ فیصلہ پاکستان اور انڈیا کے مابین حالیہ لڑائی کے دوران صدر ٹرمپ کی ’فیصلہ کن سفارتی مداخلت اور قائدانہ کردار‘ کے اعتراف میں کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ بدھ کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر وائٹ ہاؤس میں ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا تھا جس کے بعد وائٹ ہاؤس کی ترجمان، اینا کیلی کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے پاکستانی آرمی چیف جنرل منیر کی میزبانی کی جنھوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ روکنے پر صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کی تھی۔

تاہم جمعے کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طنزیہ انداز میں کہا ہے کہ ’میں کچھ بھی کرلوں مجھے نوبیل نہیں ملے گا۔‘

خیال رہے کہ اب تک چار امریکی صدور امن کا نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں۔ اگر ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام ملتا ہے تو وہ اسے حاصل کرنے والے پانچویں امریکی صدر ہوں گے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’انڈیا کی بلا اشتعال اور غیرقانونی جارحیت نہ صرف پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی تھی بلکہ اس کے نتیجے میں کئی بے گناہ شہری ہلاک ہوئے جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل تھے۔ جس کے بعد پاکستان نے اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کیا تھا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’خطے میں کشیدگی کے اس لمحے میں صدر ٹرمپ نے سٹریٹیجک دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد اور نئی دہلی کے ساتھ سفارتی رابطوں کے ذریعے تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال میں کشیدگی کو کم کیا، جنگ بندی کروائی اور دو جوہری ممالک کے درمیان تنازع کو بڑھنے سے روکا جس کے سبب خطے اور اس سے باہر لوگوں کو قیامت خیز نتائج بھگتنا پڑ سکتے تھے۔‘

پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس حوالے سے رائے منقسم ہے۔

لیکن اس سے پہلے، آئیے جانتے ہیں کہ کیا کوئی ملک، رہنما یا اعلیٰ عہدے دار دوسرے ملک کے سربراہ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کر سکتا ہے؟

getty
Getty Images

حکومتی بیان میں مزید کیا کہا گیا ہے؟

پاکستانی حکومت کا مزید کہنا ہے کہ امریکی صدر کی مداخلت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ’امن کے داعی‘ ہیں اور تنازعات کو ’بات چیت کے ذریعے حل‘ کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

حکومتِ پاکستان نے کشمیر کے دیرینہ تنازعے کے حل کے لیے صدر ٹرمپ کی مخلصانہ پیشکش کو بھی سراہا ہے۔ بیان کے مطابق ’جموں و کشمیر کا تنازع جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ ہے اور جب تک اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوتا، خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 2025 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والے بحران کے دوران صدر ٹرمپ کی قیادت اور سفارتی حکمتِ عملی ان کے ماضی کے امن قائم کرنے والے اقدامات کا تسلسل ہے۔ پاکستان کو امید ہے کہ ان کی مخلص کوششیں نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے دیگر حساس خطوں میں بھی امن و استحکام کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔

حکومتی بیان میں مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ بحران، بالخصوص غزہ میں جاری انسانی المیے اور ایران سے متعلق بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں بھی صدر ٹرمپ کی قیادت اور سفارتی کردار کو سراہا گیا۔ پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ صدر ٹرمپ کی کوششیں عالمی استحکام کے لیے مثبت نتائج لائیں گی۔

getty
Getty Images

مجھے نوبیل نہیں ملے گا: ٹرمپ

ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اس بارے میں پوسٹ کیا ہے۔

ٹرمپ نے اپنی کامیابیوں کی فہرست سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ میں نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ مل کر جمہوریہ کانگو اور روانڈا کے درمیان ایک عظیم معاہدہ کیا ہے، مجھے اس کام کے لیے امن کا نوبیل انعام نہیں ملے گا، مجھے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ روکنے پر نوبیل نہیں ملا۔ مجھے مصر اور ایتھوپیا کے درمیان امن برقرار رکھنے کا انعام نہیں ملا، مشرق وسطیٰ میں ابراہیمی معاہدے کرنے پر بھی امن کا نوبیل انعام نہیں ملے گا۔

ٹرمپ کا ردعمل پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ طنزیہ زبان استعمال کر رہے ہیں۔

اپنی پوسٹ کے آخر میں ٹرمپ نے لکھا ’چاہے میں کچھ بھی کروں، روس یوکرین ہو یا اسرائیل ایران، مجھے امن کا نوبیل انعام نہیں ملے گا لیکن لوگ سب کچھ جانتے ہیں، اور یہی میرے لیے سب سے اہم ہے۔‘

کیا کوئی ملک یا رہنما یا اعلیٰ عہدے دار کسی دوسرے ملک کے سربراہ کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کر سکتے ہیں؟

نوبیل انعام کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق، صرف مخصوص اور اہل افراد ہی نوبیل امن انعام کے لیے امیدواروں کو نامزد کرنے کے مجاز ہیں۔ ان میں:

  • قومی حکومتوں اور بین الاقوامی اسمبلیوں کے ارکان (جن میں سربراہانِ مملکت، وزرا اور پارلیمنٹیرین شامل ہیں)
  • بین الاقوامی عدالتوں کے ارکان
  • متعلقہ شعبوں کے یونیورسٹی پروفیسر
  • سابق نوبیل انعام یافتگان
  • نارویجن نوبیل کمیٹی کے ارکان

یعنی کوئی بھی اہل شخص، بشمول سرکاری عہدیدار، کسی بھی امیدوار کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کر سکتا ہے، چاہے وہ امیدوار کسی غیر ملکی ریاست کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی یہ نامزدگی بطور ادارہ نہیں بلکہ صرف ایک اہل شخص (یعنی کوئی وزیر یا ممبر پارلیمنٹ) کی جانب سے ذاتی حیثیت میں جمع کروائی جا سکتی ہے۔

Getty Images
Getty Images

اس سے قبل کن غیرملکی سربراہانِ مملکت کو نامزد کیا جا چکا ہے؟

اس سے قبل بھی کئی غیر ملکی سربارہانِ مملکت کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے۔ مثلاً:

ایڈولف ہٹلر کی نامزدگی (1939)

سوئیڈن کے رکن پارلیمنٹ ایرک گوتفریڈ کرسٹین برانڈٹ نے سنہ 1939 میں ہٹلر کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا اور اسے طنز و مزاح کے طور پر لیا گیا اور بعد میں یہ نامزدگی واپس بھی لے لی گئی۔

ولادیمیر پوتن کی نامزدگی (2014)

روسی صدر ولادیمیر پوتن کو 2014 میں ’انٹرنیشنل اکیڈمی آف سپرِچوئل یونٹی اینڈ کوآپریشن آف پیپلز آف دی ورلڈ‘ نامی تنظیم نے امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا۔ تنظیم کا مؤقف تھا کہ پوتن نے شام پر کیمیائی حملے کے بعد امریکہ کی ممکنہ فوجی کارروائی کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی (2025)

یوکرین کے پارلیمانی رکن اولیکسانڈر میریژکو، جو صدر زیلنسکی کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، نے نومبر 2024 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 2025 کے امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا۔ مقصد یہ پیش کرنا تھا کہ وہ روس یوکرین جنگ میں امن لانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ غیر ملکی سربراہان کو قانونی طور پر نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا جا سکتا ہے بشرطِ یہ نامزدگی ایک اہل شخص کرے۔

getty
Getty Images

کن امریکی صدور کو امن کا نوبیل انعام ملا؟

اب تک چار امریکی صدور امن کا نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں ۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والے آخری امریکی صدر باراک اوباما تھے۔

تھیوڈور روزویلٹ: تھیوڈور روزویلٹ امریکہ کے 26ویں صدر تھے۔ 1901 میں صدر میک کینلے کے قتل کے بعد انھیں امریکہ کا صدر بنایا گیا۔ انھیں روس جاپان جنگ کے خاتمے پر 1906 میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔

ووڈرو ولسن: ووڈرو ولسن امریکہ کے 28 ویں صدر تھے جنھوں نے 1913 سے 1921 تک خدمات انجام دیں۔ ولسن کو لیگ آف نیشنز کے قیام میں ان کی کوششوں کے لیے 1919 میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔

جمی کارٹر: جمی کارٹر 1977 سے 1981 تک امریکہ کے 39 ویں صدر تھے۔ کارٹر کو 2002 میں عالمی امن، ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق کے لیے ان کی نمایاں خدمات کے لیے نوبیل امن انعام سے نوازا گیا۔ ان کی وفات گذشتہ سال 100 سال کی عمر میں ہوئی۔

باراک اوباما: امریکہ کے 44 ویں صدر باراک اوباما کو 2009 میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔ یہ اعزاز انھیں بین الاقوامی سفارت کاری اور ملکوں کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے کی کوششوں کے لیے دیا گیا۔

’انتہائی تکلیف دہ، افسوسناک اور مضحکہ خیز‘

پاکستان میں سوشل میڈیا پر کئی افراد حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب خطے میں ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر حملے جاری ہیں۔

صحافی و اینکر پرسن طلعت حسین نے لکھا کہ ’یہ پڑھنا انتہائی تکلیف دہ، افسوسناک اور مضحکہ خیز ہے۔‘

’نہ وقت کا لحاظ کیا گیا، نہ عقل کا استعمال۔۔۔ جو شخص غزہ میں اسرائیل کی تباہ کاریوں کا سرپرست اور ایران پر حملوں کا حمایتی ہے، وہ کسی امن انعام کا امیدوار کیسے ہو سکتا ہے؟ اور اگر چند ماہ بعد وہ دوبارہ مودی کو گلے لگا کر محبت کے نعرے لگانے لگے تو پھر؟

ایمن نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’میں اپنی شہریت بدل کر کسی عام، معمولی ملک میں رہنا چاہتی ہوں، جہاں عام لوگ ہوں اور سب کچھ معمول کے مطابق ہو۔ میں بہت تھک چکی ہوں۔‘

سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے لکھا ’ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ نوبیل امن انعام کی خواہش خود پسند ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی میں شرکت سے روکنے کا سبب بن جائے۔‘

تاہم کچھ افراد نے اسے حکومت کا بہترین فیصلہ قرار دیا۔

شاہ نواز خان نے لکھا ’اب ٹرمپ ایران پر حملے کا حکم دینے سے پہلے دو بار سوچیں گے۔ پاکستان نے واقعی بہت ہوشیاری سے کھیل کھیلا ہے۔ اب وہ نوبیل امن انعام کھونا نہیں چاہیں گے۔‘

منصور نامی صارف نے اسے ’عالمی شطرنج کی بساط پر ایک شاندار چال‘ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ پاکستانی حکومت کا ایک ذہین اور حکمتِ عملی پر مبنی قدم ہے۔ یہ نامزدگی ٹرمپ کی خوبی سے زیادہ پاکستان کے وژن کی عکاس ہے۔

ایک صارف ڈاکٹر کیرن نے لکھا کہ ’اچھی بات یہ ہے کہ ٹرمپ خود کو اس انعام کے لیے نامزد نہیں کر سکتے۔ نوبیل کا امن انعام انھیں ملتا ہے جو امن کو فروغ دیتے ہیں، مسلح کشیدگی کو کم کرتے ہیں اور عالمی برادری میں ہم آہنگی لے کر آتے ہیں نہ کہ وہ جو جنگ کے شعلے بھڑکاتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.