ایران اسرائیل جنگ کے اثرات: بلوچستان میں مقامی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ

image
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری لڑائی کے اثرات اب ایران سے ملحقہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مہنگائی کی صورت میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ ایران سے متصل سرحدی اضلاع میں نہ صرف ایرانی اشیا ناپید ہو گئی ہیں بلکہ ان کی جگہ لینے والی پاکستانی مصنوعات کی قیمتیں بھی غیرمعمولی طور پر بڑھ گئی ہیں۔

کوئٹہ کے ڈبل روڈ پر واقع بڑیچ مارکیٹ جو ایرانی اشیا کی خرید و فروخت کا سب سے بڑا مرکز سمجھی جاتی ہے، میں اب ایرانی مصنوعات کم کم ہی نظر آتی ہیں۔ دکاندار پاکستانی متبادل اشیا بیچ رہے ہیں مگر ان کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

دکاندار محیب اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ درمیانے درجے کے سیلہ چاول کی 25 کلو بوری جو پہلے 6600 روپے میں دستیاب تھی اب 8800 روپے تک جا پہنچی ہے۔ چینی کی قیمت بھی 10 سے 15 روپے فی کلو بڑھ کر185 سے 190 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح کوئٹہ کے مقامی کمپنی کے 12 کلو کاٹن گھی کی قیمت 4800 سے بڑھ کر 5520 روپے ہو گئی ہے۔

محیب اللہ کا کہنا تھا کہ قیمتیں صرف اس لیے نہیں بڑھ رہیں کہ ایرانی اشیا کی قلت ہو گئی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ اب پاکستانی اشیا کی مانگ ان علاقوں میں بھی بڑھ گئی ہے جہاں پہلے صرف ایرانی مال آتا تھا۔ مانگ بڑھنے سے ظاہر قیمت پر بھی اثر پڑے گا۔

پنجگور سے تعلق رکھنے والے دکاندار شاہد بلوچ کے مطابق قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ایندھن کا بحران بھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’پہلے سرحدی اضلاع میں ایرانی ڈیزل اور پیٹرول پاکستانی کے مقابلے میں 100 سے 150 روپے سستا ہوتا تھا، اس لیے ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی کم تھے۔ اب نہ ایرانی تیل آ رہا ہے اور نہ ہی پاکستانی تیل آسانی سے دستیاب ہے۔ جو پاکستانی تیل ملتا ہے وہ بھی 300 روپے سے کم نہیں جس سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات دگنے ہو گئے ہیں۔‘

شاہد بلوچ کے مطابق ’اس ایندھن بحران کا براہِ راست اثر اشیائے خور و نوش پر پڑا ہے کیونکہ ٹرانسپورٹرز نے کرائے بڑھا دیے ہیں۔ اب جو مال کوئٹہ سے پنجگور یا گوادر آتا ہے اس پر ہر کلو پر اضافی کرایہ پڑتا ہے اور یہ بوجھ آخر میں خریدار پر ہی آتا ہے۔‘

کوئٹہ میں ایرانی اشیا کی خرید و فروخت کی سب سے بڑی بڑیچ مارکیٹ میں اب ایرانی مصنوعات کم کم ہی نظر آتی ہیں۔ (فائل فوٹو: وائٹ سٹار)

اسی طرح کوئٹہ میں ایل پی جی کے کاروبار سے وابستہ علی ظفر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایل پی جی جو زیادہ تر ایران سے آتی ہے اس کی فراہمی شدید متاثر ہوئی ہے، اور فی کلو قیمت میں 100 روپے تک کا اضافہ ہو گیا ہے۔‘

’اس وقت ایل پی جی کی فی کلو قیمت 360 سے 370 روپے ہو چکی ہے جو پہلے 260 سے 270 روپے تھی۔ قلت کی وجہ سے ہوٹل، بیکریاں اور عام گھریلو صارفین متاثر ہورہے ہیں۔‘

بلوچستان کے کئی اضلاع جیسے پنجگور، چاغی، کیچ، واشک اور گوادر وہ علاقے ہیں جہاں بیشتر لوگوں کا انحصار ایران سے آنے والی اشیا پر تھا۔ اور اب کشیدگی کی وجہ سے یہ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

پاکستان نے ان سرحدی اضلاع میں تجارت کے اکثر کراسنگ پوائنٹس بند کر دیے ہیں۔ اگرچہ حکام کا کہنا ہے کہ تجارت مکمل بند نہیں ہوئی تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کراسنگ پوائنٹس سے ایرانی پٹرول، ڈیزل اور دوسری اشیاء کی ترسیل پر پابندی لگائی گئی ہے۔

مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے سرحد تو بند کر دی لیکن ان اشیا کے متبادل انتظامات نہیں کیے جس سے بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ ہم سرحدی اضلاع میں ایندھن، خوراک اور ضروری اشیا کی کمی نہیں ہونے دیں گے۔ (فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان)

آواران، نوشکی ، خضدار، تربت جیسے دوسرے شہروں میں بھی سستے ایرانی پیٹرول کی عدم دستیابی کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ متاثر ہوئی ہے اور سبزیاں اور پھل سمیت دوسری اشیا کی ترسیل مہنگی ہو گئی ہے۔

وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے میڈیا سے گفتگو میں اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سرحدی اضلاع میں ایندھن، خوراک اور ضروری اشیا کی کمی نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت صورتحال پر نظر رکھے ہوئی ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.