صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک بار پھر فیملی پارک کا تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ بنوں کینٹ میں واقع جناح فیملی پارک کو عید کے دن عوام کے کھول دیا گیا تھا جس کے بعد مقامی علمائے کرام اور عمائدین کی جانب سے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔فیملی پارک کے خلاف علمائے کرام کا واضح بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے فیملی پارک کو کھولنے کی مخالفت کر کے اس کی سخت مذمت کی۔ان کا مؤقف ہے کہ ’فیملی پارک میں غیراخلاقی حرکات کی وجہ سے معاشرتی اقدار کو خطرات لاحق ہیں۔‘
علمائے کرام نے مساجد میں فیملی پارک کے خلاف خطبات بھی دیے جن میں شہریوں سے اپیل کی کہ وہ پارک کے خلاف نہ صرف اواز اٹھائیں بلکہ اپنے بچوں کو اس پارک سے دور رکھیں۔
انہوں نے مقامی لوگوں کو بتایا کہ فیملی پارک کے حوالے سے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے مشاورت جاری ہے، بہت جلد اس پارک کے خلاف تحریک شروع کی جائے گی۔
بنوں کے مقامی شہری مدثر شاہ کے مطابق کچھ عرصہ قبل بھی ایک فیملی پارک کے خلاف عوامی احتجاج سامنے آیا جس کے بعد پارک کو بند کر دیا گیا تھا، تاہم اب نیا پارک قائم کر کے دوبارہ سے نیا تنازع کھڑا کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارک میں چند ایک ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے جن کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔ پارک انتظامیہ کی بدانتظامی کی وجہ سے پارک کی مخالفت سامنے آئی۔
’پارک میں صرف خواتین کو اجازت دی جاتی تو مسئلہ اتنا گھمبیر نہ ہوتا، فیملی پارک میں نوجوانوں کے داخلے نے معاملہ بگاڑ دیا جس کے سبب اس کی مخالفت کی جاری ہے۔‘اس معاملے پر ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کے باوجود ان کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔فیملی پارک کی مخالفت کیوں؟اس حوالے سے پشاور کے صحافی فدا عدیل، جن کا بنیادی تعلق بنوں سے ہے، نے اردو نیوز کو بتایا کہ بنوں میں اس سے قبل فیملی پارک بنایا گیا تھا جس میں خواتین اور بچوں کے لیے تفریح کے انتظامات کیے گئے تھے۔ مردوں کو بغیر فیملی کے اس پارک میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔’سال 2023 میں 14 اگست کے دن یہ پارک صرف خواتین کے لیے مختص کیا گیا تھا لیکن لوفر لفنگوں کی ایک بڑی تعداد پارک کے باہر جمع ہو گئی تھی اور سوشل میڈیا پر بھی کچھ ایسی وڈیوز وائرل ہوگئی تھیں جن کو بنوں کی مقامی روایات کے خلاف قرار دیا گیا۔‘انہوں نے بتایا کہ یہ خبر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی کہ کچھ لڑکے برقعہ پہن کر خواتین کے اس پارک میں گھس گئے تھے۔ ان واقعات کے بعد فیملی پارک کے خلاف تحریک تیز ہوئیں جس کے بعد انتظامیہ کو پارک بند کرنا پڑا۔فدا عدیل کا کہنا تھا کہ ’اس بار عیدالاضحیٰ کے دوسرے دن سے پارک کا دوبارہ افتتاح کیا گیا ہے لیکن اب یہ پارک خواتین کے لیے نہیں ہے، اس کے باوجود مقامی علما نے ایک بار پھر اس کے خلاف تحریک شروع کر رکھی ہے۔ اور ان کے ارادوں سے لگتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اس پارک کو بند کر کے ہی چھوڑیں گے۔‘تفریح کے لیے کہاں جائیں؟بنوں کی ایک خاتون سماجی ورکر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’امن و امان کی خراب صورتحال کے پیش نظر شہر میں خوف کی فضا ہے، اور اگر ایسے ماحول میں شہریوں کو تفریح کا موقع ملتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔‘
خاتون سماجی ورکر کے مطابق ’امن و امان کی خراب صورتحال کے پیش نظر بنوں میں خوف کی فضا ہے۔‘ (فائل فوٹو: سکرین فریب)
انہوں نے کہا کہ ایک یا دو واقعات کی وجہ سے فیملی پارک کو بند کرنے کا مطالبہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
’بنوں میں تفریح کے لیے عوامی پارکوں کے علاوہ اور کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے، اگر یہ بھی بند ہو جائے تو پھر شہری کہاں جائیں۔‘خاتون سماجی ورکر کا کہنا تھا کہ پارک کو بند کرنے کے بجائے اس کے انتظامی معاملات کو بہتر کیا جائے تو ناخوشگوار واقعات کی نوبت نہیں آئے گی۔