انڈین بحریہ نے گذشتہ بدھ کو روز وشاکھا پٹنمم کے بحری اڈے پرآئی این ایس ارنالا نام کا ایک آبدوز شکن جنگی بحری جہاز سمندر میں اتارا ہے۔ یہ جہاز انڈین بحری حدود کے نزدیک دشمن کی آبدوزوں کا پتہ لگانے اور انھیں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انڈین بحریہ نے گذشتہ بدھ کو روز وشاکھا پٹنمم کے بحری اڈے پرآئی این ایس ارنالا نام کا ایک آبدوز شکن جنگی بحری جہاز سمندر میں اتارا ہے۔
یہ جہاز انڈین بحری حدود کے نزدیک دشمن کی آبدوزوں کا پتہ لگانے اور انھیں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس جہاز کو کولکتہ گارڈن ریچ شپ بلڈرس اینڈ انجینئیرس کمپنی نے پرائویٹ کمپنی لاررسن اینڈ ٹوبرو کے اشتراک سے بنایا ہے۔
یہ آبدوزوں کا پتہ لگانے اور انھیں تباہ کرنے والے ہتھیاروں سے لیس ہے۔ اسے وشاکھا پٹنم بحری اڈے پر چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انل چوہان کی موجودگی میں باضابطہ طور پر بحریہ میں داخل کیا گیا۔
انڈین بحریہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'ایک ایسے وقت میں جب انڈیا بحری ٹیکنالوجی میں وسیع تر خود انحصاری کے لیے کوشاں ہے آئی این ایس ارنالا کا بحریہ میں شامل ہونا انڈین ڈیزائن، انجینئیرنگ اور مینیو فیکچرنگ کی کامیابی کا عکاس ہے۔'
اطلاعات کے مطابقاس طرح کے دو اور اینٹی سب میرین وار فیر شیلو واٹر کرافٹ آبدوز شکن جہاز اس سال کے اواخر میں انڈین بحریہ میں شامل کیے جانے کاامکان ہے۔
اس وقت انڈین نیوی کے عسکری طاقت کیا ہے؟
آئی این ایس ارنالا جہاز تقریبآ 78 میٹر لمبا ہے اور اس کا وزن 1490 ٹن ہے۔ یہ ڈیزل انجن واٹرجٹ کے کمبینیشن سے چلتا ہے۔
انڈین بحریہ نے دسمبر تک اپنے بیڑے میں مزید دس جہاز شامل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
انڈیا نے روس سے ڈھائی ارب ڈالر کے ایک دفاعی سودے کے تحت چار سٹیلتھ فریگیٹ خریدے تھے۔ ایک پہلے ہی بحریہ میں شامل کیا جا چکا ہے۔آئی این ایس تمال نام کا دوسرا فریگیٹ اس ہفتے بحریہ میں شامل کیا جائے گا۔
اس وقت انڈیا میں سرکاری شپ یارڈ، پرائیویٹ سیکٹر اور دونوں کے اشتراک سے الگ الگ قسم کے کم از کم 50 بحری جہاز بنائے جا رہے ہیں۔ بحریہ کا کہنا ہے کہ اس سال کے اوخر تک دس چھوٹے، میڈیم اور بڑے سائز کے جہاز نیوی میں شامل کیے جانے کی تیاری ہے۔
دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے بی بی سی کو بتایا کہ 'اس وقت انڈیا کے بحری بیڑے میں 135 سے 140 جہاز شامل ہیں۔ آئندہ سالوں میں کئی جہاز پرانے ہو جائیں گے اور انھیں ہٹانا پڑے گا۔ انڈیا نے آئندہ دس برس میں بحری جہازوں اور آبدوزوں کے بیڑے کو 175 تک پہنچانے کا ہدف رکھا ہے۔'
نیوی نے انڈیا میں ہی اپنے جہاز بنانے میں خاصی پیش رفت کی ہے۔ اب بیشتر جہاز اور کمپوننٹ انڈیا میں ہی بن رہے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت سے خود انحصاری کے عمل میں نہ صرف تیزی آئی ہے بلکہ بہتر ٹیکنالولوجی کے حصول میں بھی اسے کامیابی ملی ہے۔
انڈیا کے پاس دو طیارہ بردار جہاز ہیں۔ آئی این ایس وکرانت خود انڈیا میں بنایا گیا اور 2022 میں کمیشن کیا گیا تھا۔ دوسرا جہاز آئی این ایس وکرما دتیہ روس سے خریدا گیا تھا جو آٹھ سے دس برس کے اندر پرانا ہونے سبب ہٹانا پڑے گا۔
بحریہ کئی برس سے تیسرے طیارہ بردار جہاز کی مانگ کرتی رہی ہے لیکن ابھی تک اس کی منظوری نہیں ملی ہے۔
جوہری آبدوزوںمیں اضافے پر توجہ
ایئر کرافٹ کیریئر بنانے میں چھ سے دس برس تک لگ جاتے ہیں اور اس کی تیاری پر 60 ہزار کروڑ روپے تک صرف ہوتے ہیں۔
جنگی طریقہ کار کی نوعیت بدل رہی ہے۔ اب ٹیکنالوجی اور نئے ہتھیاروں پر توجہ زیادہ ہے۔ بحریہ اور انڈیا کی وزارت دفا ع کے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے جنگی طریقہ کار میں مستقبل میں انڈین بحریہ میں طیارہ بردار جنگی جہازوں کی کتنی افادیت ہو گی۔
گذشتہ مہینے پاکستان سے چار دن کے فوجی ٹکراؤ کے دوران بحریہ نے آئی این ایس وکرانت کو پاکستان سے ٹکراؤ کی رینج میں سمندر میں مامور کیا تھا۔
نیوی کی سب سے بڑی طاقت اس کی جوہری صلاحیت ہے۔
تجزیہ کار بیدی کہتے ہیں کہ 'انڈیا کے جوہری بموں کی صلاحیت میزائلوں اور جنگی جہازوں کے ذریعے ہے۔ لیکن سب سے اہم جوہری صلاحیت زیر سمندر آبدوزوں میں ہوتی ہے کیو نکہ اس کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ کہاں ہے ۔ اسی لیے انڈیا اپنی جوہری آبدوزیں بھی بڑھا رہا ہےبحریہ میں دو نیوکلیئر آبدوزیں شامل کی جا چکی ہیں اور مزید دو آبدوزیں وشاکھا پٹنم اڈے پر بن رہی ہیں۔'
ایک طرف انڈیا گہرے سمندر میں آپریٹ کرنے کے لیے اپنی بحریہ کو وسعت دے رہا ہے تو دوسری جانب خطے میں چین کی بحریہ کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ چین کی بحری طاقت امریکہ سے بھی زیادہ ہے۔
اس کے بحری بیڑے میں اس وقت چھوٹے بڑے اور میڈیم سائز کے جہازوں اور آبدوزوں کی تعداد تقریباً چھ سو ہے اور وہ زیادہ جدید ٹیکنالوجی کے بنے ہوئے ہیں۔
انڈیا کی نیوی چین کی بحریہ کے مقابلے بہت کمزور دکھائی دیتی ہے لیکن انڈین سمندر میں بحریہ کا تجربہ چین سے کہیں زیادہ ہے۔