فوجی اڈوں پر حملے، پراکسیز کی کارروائی یا آبنائے ہرمز کی بندش: تہران امریکی حملوں کا جواب کیسے دے سکتا ہے؟

اس وقت ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جو سب سے اہم سوالات ہیں وہ یہ کہ کیا انھیں امریکی مفادات کے خلاف انتقامی کارروائی کے ذریعے تنازع کو بڑھاوا دینا چاہیے یا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مذاکرات کی پیشکش مان لینی چاہیے، جس کا عملی طور پر مطلب یہ ہے کہ ایران کے اندر تمام جوہری افزودگی ترک کر دی جائے؟
Iran
Getty Images

اسرائیل اور ایران جنگ کے دوسرے ہفتے میں امریکہ کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے نے تہران کے لیے ایک نیا مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔

امریکہ نے ایران کے زیرزمین فردو جوہری مرکز کے خلاف 30 ہزار پاؤنڈ وزنی خصوصی بموں کے استعمال کے ساتھ نطنز اور اصفہان جوہری تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا اور بعد میں یہ دعویٰ کیا کہ ان مراکز کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کیا جا چکا ہے۔

ایران کی جانب سے ان حملوں کو اقوامِ متحدہ چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایران امریکی حملے کا بھرپور جواب دے گا جس کے وقت اور نوعیت کا فیصلہ ایرانی افواج کریں گی۔

ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر تہران نے جوابی کارروائی کی تو ’مزید طاقت‘ سے حملہ کیا جا سکتا ہے۔

ایران کی سکیورٹی اور انٹیلیجنس اسٹیبلشمنٹ کے اندر اعلیٰ ترین سطح پر اس حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے کہ امریکہ کے حملوں کا جواب کیسے دیا جائے۔

اس وقت ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جو سب سے اہم سوالات ہیں وہ یہ کہ کیا انھیں امریکی مفادات کے خلاف انتقامی کارروائی کے ذریعے تنازع کو بڑھاوا دینا چاہیے یا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مذاکرات کی پیشکش مان لینی چاہیے، جس کا عملی طور پر مطلب یہ ہے کہ ایران کے اندر تمام جوہری افزودگی ترک کر دی جائے؟

یہ اندرونی بحث ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب بہت سے سینیئر ایرانی کمانڈر چوکنے رہ کر سوچ رہے ہوں گے کہ آیا وہ اسرائیل کے فضائی حملے کا اگلا نشانہ بننے والے ہیں یا کمرے میں موجود کوئی شخص پہلے ہی اسرائیل کی غیر ملکی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ مل کر انھیں دھوکہ دے چکا ہے۔

امریکی فوجی اڈے
BBC
عراق، بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت، اردن سمیت شام میں بھی امریکی فوجی اڈے موجود ہیں اور یہ تمام ہی ایرانی بیلسٹک میزائلوں کی رینج میں ہیں۔

امریکی اڈوں پر حملہ

ایران نے خبردار کیا تھا کہ امریکی حملے کی صورت میں خطے میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ پاسداران انقلاب نے امریکی حملوں کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ کو ’اپنی کارروائی پر افسوس ہو گا۔‘

یاد رہے کہ عراق، بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت، اردن سمیت شام میں بھی امریکی فوجی اڈے موجود ہیں اور یہ تمام ہی ایرانی بیلسٹک میزائلوں کی رینج میں ہیں۔

ایک اہم اڈہ قطر میں موجود العدید فضائی اڈہ ہے جبکہ بحرین میں بحری اڈے پر امریکی بحریہ کا پانچواں فلیٹ موجود ہے۔

سنہ 2020 میں ایران نے عراق میں الاسد فضائی اڈے کو اس وقت نشانہ بنایا تھا، جب ٹرمپ نے پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم تہران کی جانب سے حملے سے قبل امریکہ کو خبردار کر دیا گیا تھا اور اس حملے میں ہلاکتیں نہیں ہوئی تھیں جسے ایک علامتی ردعمل کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس بار بھی تہران کی جانب سے ایسی ہی حکمت عملی اپنائی جائے۔

تاہم موجودہ تناؤ کی صورت حال میں ایران کی جانب سے غیر عسکری امریکی اہداف، جیسا کہ خطے میں امریکی سفارت خانوں، کو بھی ہدف بنایا جا سکتا ہے۔

عراق
AFP
ایک اہم امریکی فوجی اڈہ قطر میں موجود العدید فضائی اڈہ ہے

آبنائے ہرمز کی بندش

یہ ایک ایسی دھمکی ہے جو ایران کی سیاسی اور عسکری قیادت گذشتہ کئی برس سے دیتی آئی ہے جب بھی ایران اور مغربی ممالک کے درمیان کشدگی پیدا ہوئی ہے۔

یہ ایک تنگ اور سٹریٹیجک سمندری گزرگاہ ہے جہاں سے عالمی ایندھن کی رسد کا پانچواں حصہ گزرتا ہے۔

ایران میں سخت گیر عناصر ایک بار پھر آبنائے ہرمز کو بند کر دینے کی بات کر رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ایسا کرنے سے عالمی منڈی میں گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور امریکی معیشت متاثر ہو گی۔

آبنائے ہرمز کو بند کرنے کے لیے بحری مائنز، کروز میزائل، ساحلی دفاعی نظام سمیت پاسداران انقلاب کے پاس بڑی تعداد میں موجود تیز رفتار حملہ آور کشتیاں استعمال کی جا سکتی ہیں۔

تاہم آبنائے ہرمز کی بندش کا ایران کو نقصان بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے تہران اپنے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار چین سے تعلقات کو بھی چوٹ پہنچائے گا جو ایران سے تیل خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

ماضی میں ایران ڈرونز، میزائلوں اور دیگر ذرائع سے بحری کارروائیاں کر چکا ہے تاہم امریکی حملوں کے بعد اس بار جوابی ردعمل میں شدت آ سکتی ہے اور عین ممکن ہے کہ آئل ٹینکروں سمیت بندرگاہوں یا قریبی ممالک، بشمول سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت، میں توانائی کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے اور ایک بڑی سطح پر تیل کی منڈی کو نقصان پہنچایا جائے۔

پراکسی کارڈ

یہ ایک ایسا لمحہ ہے جس میں ایران کے حامی عسکری گروہ اس کے کام آ سکتے ہیں اور ان کی مدد سے امریکی اڈوں یا سپلائی کے راستوں پر حملے کیے جا سکتے ہیں جنھیں براہ راست ایران سے نہیں جوڑا جا سکے گا۔

تاہم ایران کی کئی سال کی فنڈنگ اور اسلحہ فراہمی کے باوجود اس وقت یہ گروہ اس طرح کی کارروائی کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

لبنان میں حزب اللہ اسرائیل کے خلاف جنگ کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہے اور حالیہ تنازع میں صرف ایک سامع کا کردار ادا کر رہی ہے۔ حزب اللہ کو لبنان کی حکومت اور میڈیا کے دباؤ کا بھی سامنا ہے جو چاہتے ہیں کہ حزب اللہ غیر مسلح ہو اور ملک میں تعمیر نو کے ساتھ ساتھ معاشی بحران کا حل نکلے۔

یمن میں حوثی باغی اب تک اسرائیل کے خلاف حملوں میں بڑا اضافہ نہیں کر پائے ہیں۔ لیکن امریکی حملوں سے قبل ان کی جانب سے بحیرۂ احمر میں امریکی جہازوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ مئی میں امریکہ سے معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔

عراق سے اب تک بیانات اور دھمکیاں ہی سامنے آئی ہیں جبکہ شام میں ایرانی حمایت میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد کافی کمی آئی ہے۔

تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ ایران کی حکومت کو توقع ہو گی کہ علاقائی اتحادی گروہ کسی نہ کسی سطح پر اپنی صلاحیت کے اعتبار سے کارروائی کریں گے۔

خطرات

اسرائیل کے خلاف جنگ کے دوران ایرانی حکومت نے اسرائیل کے شہروں اور عسکری اڈوں پر میزائل حملے کیے ہیں اور اب تک ایسی کسی کارروائی سے گریز کیا تھا جس سے امریکی اڈے متاثر ہوں۔

تاہم اگر موجودہ جنگ طویل ہوتی ہے تو ایران کو اسرائیل کی جانب داغے جانے والے میزائلوں کی تعداد میں کمی لانا پڑ سکتی ہے۔ پہلے دن ایران نے ڈیڑھ سو میزائل داغے تھے جبکہ حالیہ دنوں میں یہ تعداد تیس ہو چکی ہے۔

دوسری جانب امریکہ کے خلاف کارروائی سے ایران کو دو محاذوں پر لڑنا ہو گا اور امریکہ کی جوابی کارروائی کا سامنا بھی کرنا ہو گا جو ایرانی حکومت کے مسائل کو بڑھا سکتا ہے۔

ایسے میں ایران کی حکومت یقیناً اپنی بقا کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی امریکہ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرے گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.