جب تیل سے مالا مال دبئی، ابوظہبی اور عمان پاکستان یا انڈیا کا حصہ بنتے بنتے رہ گئے

عدن سے لے کر کویت تک، عرب ریاستوں کا ایک ایسا ہلال تھا جو دہلی سے انڈین پولیٹیکل سروس کے تحت چلایا جاتا تھا، ہندوستانی سپاہیوں کے ذریعے امن و امان قائم رکھا جاتا تھا اور جو براہ راست انڈیا کے وائسرائے کو جواب دہ تھا۔

یہ سنہ 1956 کی سردیوں کی بات ہے جبمعروف میگزین دی ٹائمز کے نمائندے ڈیوڈ ہولڈن بحرین کے جزیرے پر اترے۔ اُس وقت اس جزیرے کا انتظام برطانیہ کے پاس تھا۔

جغرافیہ پڑھانے سے متعلق اپنے مختصر کریئر کے بعد ہولڈن خطۂ عرب میں اپنی تعیناتی کے منتظر تھے لیکن اُنھیں یہ امید نہیں تھی کہ وہ ملکہ وکٹوریہ کو ملکۂ ہند بنائے جانے کی یاد میں منعقدہ مقامی تقریب میں شرکت کریں گے۔

وہ خلیجی ممالک میں جہاں بھی گئے انھیں برٹش انڈیا کے نمایاں آثار ملے۔ اب چاہے وہ دبئی ہو، ابوظہبی یا عُمان۔

ہولڈن نے لکھا: ’(برطانوی) راج کی یہاں ایک غیر مرئی سی حکمرانی نظر آتی ہے۔۔۔ ایک عجیب و غریب قسم کی حکمرانی جو زمان و مکان کی قید سے آزاد لگتی ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’تمام خادم ’بیئرر‘ کہلاتے ہیں، چاہے کپڑے دھونے والا دھوبی ہو یا پھر پہرہ دینے والا چوکیدار۔ اور اتوار کے دن مہمانوں کی قدیم مگر خوشگوار اینگلو انڈین روایات کے مطابق خوشبو دار اور عظیم الشان سالن سے ضیافت ہوتی ہے۔‘

عُمان کے سلطان کی زبان عربی کے مقابلے میں اردو میں زیادہ رواں ہے کیونکہ انھوں نے انڈین ریاست راجستھان سے تعلیم حاصل کی ہے جبکہ قریبی ریاست قعیطی (موجودہ مشرقی یمن) کے سپاہی اب بھی (نظام) حیدرآباد کی فوجی وردیوں میں مارچ کرتے نظر آتے ہیں جو کہ اس وقت تک ختم ہو چکی تھی اور ریاست انڈیا میں ضم کر لی گئی تھی۔

عدن کے گورنر کے الفاظ میں کہا جائے تو ’یہاں آ کر ایسا تاثر ملتا تھا جیسے ساری گھڑیاں ستر برس پہلے کسی مقام پر رک گئی ہوں، راج اپنے عروج پر ہو، ملکۂ وکٹوریہ تخت پر براجمان ہوں اور کپلنگ خطرناک سچائی بیان کرنے والے شخص تصور کیے جاتے ہوں، (یعنی) جنوبی عرب کے ساحلی خطے کا بذریعہ حیدرآباد دہلی سے اس قدر ربط نظر آتا تھا۔‘

خلیج کا ایک تہائی حصہ ہندوستان میں برٹش راج کے ماتحت تھا

اگرچہ آج یہ تاریخ کافی حد تک فراموش کر دی گئی ہے لیکن 20ویں صدی کے آغاز میں تقریباً ایک تہائی عرب جزیرہ نما کو برٹش انڈین ایمپائر کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔

عدن سے لے کر کویت تک، عرب ریاستوں کا ایک ایسا ہلال تھا جو دہلی سے انڈین پولیٹیکل سروس کے تحت چلایا جاتا تھا، ہندوستانی سپاہیوں کے ذریعے امن و امان قائم رکھا جاتا تھا جو براہ راست انڈیا کے وائسرائے کو جواب دہ تھا۔

سنہ 1889 کے انٹرپریٹیشن ایکٹ کے تحت یہ تمام برطانیہ کے زیرِ تحفظ ریاستیں قانونی طور پر ہندوستان کا حصہ شمار ہوتی تھیں۔

ہندوستان کی نیم خودمختار ریاستوں کی سرکاری فہرست، جو عام طور پر جے پور سے شروع ہوتی ہے حروفِ تہجی کے اعتبار سے ابوظہبی سے شروع کی جاتی تھی اور وائسرائے لارڈ کرزن نے یہاں تک تجویز دی تھی کہ عمان کو بھی ہندوستانی ریاستوں کی طرح سمجھا جائے، جیسا کہ لسبیلہ یا قلات (موجودہ بلوچستان) کو سمجھا جاتا تھا۔

ہندوستانی پاسپورٹ مغرب میں عدن تک کے رہائشیوں کے لیے جاری ہوتے تھے (جو آج کا یمن ہے)۔ عدن کو بمبئی صوبے کا حصہ مانا جاتا تھا، اور یہ ہندوستان کی مغربی بندرگاہ تھی۔ سنہ 1931 میں مہاتما گاندھی نے اپنے دورۂ عدن کے دوران کئی عرب نوجوانوں کو خود کو انڈین قوم پرست کہتے سنا اور دیکھا تھا۔

تاہم اُس وقت بھی نہ تو برطانوی عوام اور نہ ہی انڈین عوام میں سے بہت سے لوگ تاجِ برطانیہ کے خطۂ عرب کے اس پھیلاؤ سے واقف تھے۔

برٹش انڈین ایمپائر کے مکمل نقشے انتہائی رازداری کے ساتھ شائع ہوتے تھے اور انھیں رازداری میں ہی رکھا جاتا تھا اور عرب ریاستوں کو عوامی دستاویزات میں علیحدہ دکھایا جاتا تھا تاکہ عثمانیوں یا بعد میں سعودیوں کو ناراض نہ کیا جائے۔

راز داری

بات کچھ ایسی ہی تھی۔ جیسا کہ رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے ایک لیکچرر نے مذاق میں کہا تھا کہ ’جیسے ایک حاسد شیخ اپنی پسندیدہ بیوی کو پردے میں رکھتا ہے، ایسے ہی برطانوی حکام عرب ریاستوں کو اتنے دبیز پردوں میں چھپاتے کہ مخالف پروپیگنڈہ نگار اگر یہ سمجھیں کہ وہاں کچھ ہولناک ہو رہا ہے تو اُنھیں معاف کیا جا سکے۔‘

لیکن 1920 کی دہائی میں حالات بدلنے لگے۔ ہندوستانی قوم پرستوں نے ہندوستان کو ایک سامراجی اکائی کے بجائے ایک ثقافتی خطہ کے طور پر دیکھنا شروع کیا، جو معروف رزمیہ مہابھارت میں پیش کردہ جغرافیے سے جڑا ہوا تھا۔ ایسے میں لندن نے سرحدوں کی نئی تشکیل کا ایک موقع دیکھا۔

یکم اپریل سنہ 1937 کو پہلی بڑی سامراجی تقسیم عمل میں آئی اور عدن کو ہندوستان سے علیحدہ کر دیا گیا۔

اس موقعے پر بادشاہ جارج ششم کا ایک ٹیلی گرام پڑھ کر سنایا گیا جس میں لکھا تھا کہ ’عدن گذشتہ تقریباً سو برس سے برطانوی ہندوستانی نظامِ حکومت کا حصہ رہا ہے۔ اب اس کا سیاسی رشتہ ہماری ہندوستانی سلطنت سے ختم ہو جائے گا، اور عدن ہماری نوآبادیاتی سلطنت کا حصہ ہو گا۔‘

اس کے بعد بھی خلیجی ریاستیں مزید ایک دہائی تک ہندوستان میں قائم برطانوی حکومت کے ماتحت رہیں۔

برطانوی حکام کے درمیان کچھ دنوں تک یہ بحث رہی کہ آزادی کے بعد خلیجی ممالک کی نگرانی انڈیا کے سپرد ہو گی یا پھر وہ پاکستان کے زیر تحفظ ہوں گی؟

بہر حال تہران میں برطانوی سفارت خانے کے ایک اہلکار نے لکھا کہ وہ ’دہلی کے تمام حکام کی حیرت انگیز حد تک متفق رائے‘ سے حیران رہ گئے کہ ’خلیج فارس ہندوستانی حکومت کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔‘

بہرحال خلیج کے مقامی برطانوی افسر ولیم ہے نے کہا: ’یہ بالکل نامناسب ہوتا اگر خلیجی عربوں کے معاملات کی ذمہ داری ہندوستانیوں یا پاکستانیوں کو سونپی جاتی۔‘

آج کا دبئی
Getty Images
آج کا دبئی: خطۂ عرب سے ہندوستان کے ساتھ اس کے ماضی کو تقریبا فراموش کر دیا گيا ہے

دبئی سے کویت تک کی ریاستوں کی ہندوستان سے علیحدگی

اس سے پہلے کہ ہندوستان کی تقسیم ہوتی اور انڈیا اور پاکستان کو آزادی ملتی دبئی سے لے کر کویت تک کی خلیجی ریاستوں کو بالآخر یکم اپریل 1947 کو ہندوستان سے علیحدہ کر دیا گیا۔

چند ماہ بعد جب انڈین اور پاکستانی حکام نئی ریاستوں میں سینکڑوں نوابوں کی ریاستوں کو ضم کرنے میں مصروف تھے تو ’خلیج کی عرب ریاستیں اس فہرست سے غائب تھیں۔‘

بہت کم لوگوں نے اس پر توجہ دی اور آزادی کے 75 برس بعد بھی جو کچھ ہوا، اس کی اہمیت نہ انڈیا میں مکمل طور پر سمجھی گئی، نہ ہی خلیج میں۔

اگر یہ یکم اپریل کی معمولی سی انتظامی منتقلی نہ ہوئی ہوتی تو غالب امکان تھا کہ خلیج فارس ریزیڈنسی کی ریاستیں بھی آزادی کے بعد انڈیا یا پاکستان کا حصہ بن جاتیں جیسا کہ برصغیر کی باقی تمام شاہی ریاستیں بنی تھیں۔

جب برطانوی وزیرِ اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے ہندوستان سے انخلا کے ساتھ ساتھ عرب ریاستوں سے بھی انخلا کی تجویز دی، تو یہ تجویز شدومد کے ساتھ مسترد کر دی گئی۔

چنانچہ برطانیہ نے مزید 24 برس تک خلیج میں اپنی موجودگی برقرار رکھی۔ وہاں انڈیا کی آزادی کے بعد ایک نیا راج تھا جو ہندوستان کے وائسرائے کے بجائے وائٹ ہال کو رپورٹ کرتا تھا۔

خلیجی ممالک کے سکالر پال رِچ کے مطابق یہ ’برٹش انڈین ایمپائر کی آخری پناہ گاہ تھی، جیسے گوا پرتگالی ہندوستان کی آخری نشانی تھی، یا پونڈیچیری فرانسیسی ہندوستان کی۔‘

اس خطے کی سرکاری کرنسی اب بھی انڈین روپیہ تھی اور آسان نقل و حمل کا ذریعہ اب بھی ’برٹش انڈیا لائن‘ (سمندری جہاز رانی کی کمپنی) تھی اور خلیج کی 30 عرب ریاستیں اب بھی اُن ’برٹش ریزیڈنٹس‘ کے ذریعے چلائی جاتی تھیں جنھوں نے اپنے کریئر انڈین پولیٹیکل سروس میں بنائے تھے۔

کویت
Getty Images
کویت کی ایک پرانی تصویر

برطانیہ کی خطے سے رخصتی

برطانیہ نے بالآخر سنہ 1971 میں اس وقت خلیج سے رخصتی لی جب اس نے سوئز کے مشرق میں اپنی نوآبادیاتی ذمہ داریوں کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

جیسا کہ جولائی میں ڈیوڈ ہولڈن نے لکھا: ’ایسٹ انڈیا کمپنی کے عروج کے بعد پہلی مرتبہ خلیج کے گرد تمام خطے آزادی سے اپنا راستہ خود چن سکیں گے، نہ تو انھیں برطانوی مداخلت کا خطرہ ہو گا اور نہ ہی انھیں برطانوی تحفظ حاصل ہو گا۔

’تاج برطانیہ کی یہ آخری باقیات اب کچھ عرصے سے ایک نمایاں، اور کسی حد تک دلکش، تاریخی باقیات بن چکی تھیں۔۔۔ لیکن ان کا وقت ختم ہو چکا تھا۔‘

برطانوی سامراج کے خاتمے کے بعد جتنے بھی قومی بیانیے سامنے آئے ان میں سب سے نمایاں خلیجی ریاستوں کا کامیابی کے ساتھ برٹش انڈیا سے اپنے رشتے مٹانے کا بیانیہ تھا۔

بحرین سے دبئی تک برطانیہ کے ساتھ تعلقات تو یاد رکھے گئے، لیکن دہلی سے حکومت کا تصور بالکل فراموش کر دیا گیا۔ قدیم خودمختاری کا فسانہ ان بادشاہتوں کو زندہ رکھنے کے لیے اہم ہے۔

تاہم نجی یادداشتیں باقی ہیں، بطور خاص وہ ناقابلِ تصور طبقاتی اُلٹ پھیر جو خلیج نے دیکھی۔

سنہ 2009 میں سکالر پال رِچ نے ایک بوڑھے قطری باشندے کا بیان ریکارڈ کیا کہ اس کو آج بھی اس بات پر غصہ آجاتا تھا جب اسے برطانیہ کے ایک انڈین ملازم نے مالٹے چوری کرنے پر مارا تھا۔ اس نے اس سے قبل مالٹے نہیں دیکھے تھے اور اس وقت اس کی عمر سات یا آٹھ سال تھی۔

قطری بزرگ نے کہا: ’میرے بچپن میں ہندوستانی لوگ مراعات یافتہ لوگ تھے، اور مجھے بے حد خوشی ہے کہ اب حالات پلٹ چکے ہیں اور اب وہ خلیج میں نوکر بن کر آتے ہیں۔'

دبئی جو کبھی برطانوی ہند کی ایک معمولی چوکی تھا اور جسے توپوں کی سلامی بھی نصیب نہ تھی وہ آج نئے مشرق وسطیٰ کا چمکتا ہوا مرکز ہے۔

آج لاکھوں انڈین اور پاکستانی شہری وہاں مقیم ہیں لیکن اُن میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایک ایسا دور بھی تھا جب انڈیا یا پاکستان خلیج کے تیل سے مالامال علاقوں کے مالک بن سکتے تھے جیسے وہ جے پور، حیدرآباد یا بہاولپور کے بنے تھے۔

یہ سب ایک خاموش بیوروکریٹک فیصلہ تھا جو برطانوی سامراج کے زوال کے وقت کیا گیا اور اس نے انڈیا اور پاکستان سے اس علاقے کے تعلق کو کاٹ دیا۔

آج صرف اُس کی بازگشت باقی ہے۔

سیم ڈیلرمپل 'شیٹرڈ لینڈز: فائیو پارٹیشنز اینڈ میکنگ ماڈرن ایشیا' کے مصنف ہیں


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.