ٹرمپ کی جانب سے ’سرخ لکیر عبور کرنے کے بعد‘ ایران کا اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے؟

امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی نئی نہیں لیکن عشروں سے دونوں ممالک نے دانستہ طور پر براہِ راست فوجی تصادم کی خطرناک سرخ لکیر کو عبور کرنے سے گریز کیا لیکن جو صدر امن کا علمبردار بننے کا وعدہ لے کر آئے وائٹ ہاؤس میں آئے انھوں نے تہران کی جوہری تنصیبات پر براہ راست حملے کر کے اس سرخ لکیر کو عبور کر لیا۔
ایک خاتون نے ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کی تصویر اٹھا رکھی ہے
BBC
ایک خاتون نے ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کی تصویر اٹھا رکھی ہے

امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی نئی نہیں لیکن عشروں سے دونوں ممالک نے دانستہ طور پر براہِ راست فوجی تصادم کی خطرناک سرخ لکیر کو عبور کرنے سے گریز کیا۔

ایک کے بعد ایک امریکی صدر نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنی فوجی طاقت کے استعمال سے اس لیے گریز کیا کہ کہیں امریکہ مشرقِ وسطیٰ کی ممکنہ طور پر سب سے خطرناک جنگ میں نہ پھنس جائے۔

لیکن جو صدر امن کا علمبردار بننے کا وعدہ لے کر آئے وائٹ ہاؤس میں آئے انھوں نے تہران کی جوہری تنصیبات پر براہ راست حملے کر کے اس سرخ لکیر کو عبور کر لیا ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو ان کے دوسرے دورِ صدارت کا سب سے نتیجہ خیز اقدام قرار دیا جا رہا ہے اور جو اُن تمام پرانی روایات کو توڑنے کی ان کی شہرت کے عین مطابق ہے۔

یہ ایک ایسا لمحہ ہے جو اس سے قبل نہیں دیکھا گیا اور اس نے دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔

ایران کا اگلا قدم اس سے بھی زیادہ تاریخی ثابت ہو سکتا ہے۔ 86 سالہ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای، جو اب اطلاعات کے مطابق ایک بنکر میں پناہ لیے ہوئے ہیں، نے تقریباً چار دہائیوں تک احتیاط کے ساتھ ایک طویل جنگی حکمتِ عملی کے تحت اپنے سب سے بڑے دشمن کے خلاف کھیل کھیلا تاکہ اپنے سب سے قیمتی اثاثے ’اسلامی جمہوریہ‘ کا تحفظ کر سکیں۔

اگر وہ امریکی حملے پر کم ردعمل دیتے ہیں تو انھیں شرمندگی کا سامنا ہو گا اور اگر زیادہ سخت ردعمل دیتے ہیں تو سب کچھ کھونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

چیٹم ہاؤس تھنک ٹینک کی مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ پروگرام کی ڈائریکٹر صنم وکیل کہتی ہیں کہ ’خامنہ ای کے اگلے اقدامات صرف ان کی بقا ہی نہیں بلکہ ان کے تاریخی مقام کا تعین بھی کریں گے۔‘

’ان کے لیے یہ زہر کا پیالہ شاید اس سے بھی زیادہ زہریلا ہے جو خمینی نے سنہ 1988 میں ایران عراق جنگ میں سیز فائر قبول کرتے وقت پیا تھا۔‘

امریکی صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے کے بعد قوم سے خطاب کیا
Getty Images
امریکی صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے کے بعد قوم سے خطاب کیا

’ایران یہ جنگ نہیں چاہتا‘

گذشتہ دس دن میں اسرائیلی حملوں نے ایران کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور فوجی سازوسامان کو اتنا نقصان پہنچایا ہے جو آٹھ سالہ ایران عراق جنگ میں بھی نہیں ہوا تھا۔ خیال رہے کہ ایران عراق جنگ کے ایرانی معاشرے پر آج بھی گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔

اسرائیلی حملوں میں ایران کے اعلیٰ سکیورٹی افسران اور نامور جوہری سائنسدان مارے گئے ہیں۔ اب امریکہ کی براہِ راست شمولیت نے کشیدگی کی سطح کو مزید بڑھا دیا۔

ایران کے 1979 کے انقلاب کے بعد وجود میں آنے والی تنظیمپاسدارن انقلاب (آئی آر جی سی) نے امریکہ کو انتقام کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اس کا انجام ’دیر پا پچھتاوا‘ ہو گا۔

لیکن ان لفظی جنگ کے پیچھے سخت توازن قائم کرنے کی کوشش ہے تاکہ تباہ کن غلطیوں سے بچا جا سکے۔

مشرقِ وسطیٰ کونسل برائے عالمی امور کے حمید رضا عزیز کہتے ہیں کہ ’ایران یہ جنگ نہیں چاہتا لیکن امریکہ نے کتنا حقیقی نقصان پہنچایا اس سے قطع نظر ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کے حامی یہ دلیل دے رہے ہیں کہ ایران کی ایک طاقتور اور علاقائی قوت کی حیثیت سے ساکھ کو جو نقصان پہنچا، اس کے مدنظر اس کا جواب دینا ضروری ہو گیا ہے۔‘

تاہم کوئی بھی ردعمل خطرناک ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں تقریباً 20 امریکی اڈوں میں سے کسی ایک پر یا 40,000 سے زائد امریکی فوجیوں پر براہِ راست حملہ ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر امریکی جوابی کارروائی کو دعوت دے گا۔

آبنائے ہرمز کو بند کرنا، جہاں سے عالمی تیل تجارت کا پانچواں حصہ گزرتا ہے، بھی الٹا اثر ڈال سکتا ہے کیونکہ یہ نہ صرف عرب اتحادیوں بلکہ چین کو بھی ناراض کر سکتا ہے، جو ایران سے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ مغربی بحری قوتیں بھی اس اہم مقام کی حفاظت کے لیے مداخلت کر سکتی ہیں تاکہ اقتصادی بحران کو روکا جا سکے۔

اور ایران جسے اپنی ’فارورڈ دفاعی لائن‘ سمجھتا تھا، یعنی خطے میں اس کے حلیف گروہ، انھیں اسرائیل نے گذشتہ 20 ماہ کی جنگ کے دوران یا تو کمزور کر دیا یا مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔

یہ واضح نہیں کہ کیا ایران کے لیے کوئی ایسا قابلِ قبول دائرہ موجود ہے جس کے اندر وہ جوابی کارروائی کر کے اپنی عزت بچا سکے اور امریکہ کو بھڑکائے بغیر دونوں فریق پیچھے ہٹ سکیں۔

یہ پیچیدہ تعلق پہلے بھی ایک بار آزمائش سے گزر چکا ہے۔ پانچ سال قبل جب صدر ٹرمپ نے بغداد میں ڈرون حملے سے پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو قتل کیا تو بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ یہ خطرناک سلسلے کو جنم دے گا مگر ایران نے عراقی حکام کے ذریعے اپنی جوابی کارروائی کی پیشگی اطلاع دے دی تھی اور امریکی اڈوں کے ان حصوں کو نشانہ بنایا جن سے جانی نقصان یا بڑے پیمانے پر تباہی نہ ہو۔

لیکن اس بار معاملہ کہیں زیادہ سنگین ہے۔

22 جون کو ایرانی حملے کے بعد تل ابیب سے دھواں اٹھتا دیکھا جا سکتا ہے
Reuters
22 جون کو ایرانی حملے کے بعد تل ابیب سے دھواں اٹھتا دیکھا جا سکتا ہے

’سفارت کاری کا خون امریکہ نے کیا، ایران نے نہیں‘

صدر ٹرمپ نے ایران پر ’جہنم کا دروازہ کھولنے‘ کے بجائے بار بار یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ ایران کے ساتھ کوئی نہ کوئی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اب وہ پوری طرح اسرائیل کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے ایران کو ’مشرقِ وسطیٰ کا غنڈہ‘ قرار دیا، جو جوہری بم بنانے پر تلا ہوا ہے، حالانکہ پچھلی امریکی انٹیلیجنس رپورٹس اس بات سے متفق نہیں۔

اب انٹیلیجنس ٹیمیں اس بات کا تفصیلی جائزہ لے رہی ہیں کہ پینٹاگون کے مطابق امریکہ کی تاریخ کا ’سب سے بڑا بی ٹو فضائی حملہ‘ کتنا مؤثر رہا۔ ان کے مطابق حملے میں نطنز، اصفہان اور فردو میں ایران کی جوہری تنصیبات کو ’شدید نقصان‘ پہنچا۔

فردو کی زیرِ زمین تنصیب کو صرف ’بنکر شکن‘ بم ہی نشانہ بنا سکتے تھے، کیونکہ یہ ایک پہاڑ کے اندر واقع ہے۔

صدر ٹرمپ اب ایران سے ’امن کی طرف آنے‘ کی اپیل کر رہے ہیں۔

مگر ایران اب امریکہ کی سفارتی راہ کو بھی ایک طرح کی شکست تسلیم کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔ جمعہ کے روز جنیوا میں وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے یورپی ہم منصبوں سے ملاقات کی۔ وہاں بھی انھیں ایک سخت پیغام دیا گیا کہ واشنگٹن یہ توقع رکھتا ہے کہ تہران اپنی جوہری افزودگی کو مکمل طور پر ختم کر دے۔

یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جسے ایران مسترد کرتا ہے کیونکہ اس کے مطابق یورینیئم کی افزودگی اس کی خودمختاری سے جڑا ہے اور یہ اس کے شہری پروگرام کا حصہ ہے۔

اب ایران صدر ٹرمپ کی سفارتی کوششوں، جن میں ان کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف کی قیادت میں پانچ ادوار پر مشتمل بالواسطہ مذاکرات شامل تھے، کو ایک پیچیدہ فریب سمجھتا ہے۔

اسی دوران اسرائیل نے چھٹے دور کے مذاکرات شروع ہونے سے دو دن پہلے ہی ایران کے خلاف اپنی فوجی مہم کا آغاز کر دیا۔ امریکہ نے جنگ میں اس وقت قدم رکھا جب صدر ٹرمپ نے یہ کہا وہ سفارت کاری کو موقع دینے کے لیے دو ہفتے کی مہلت دینا چاہتے ہیں۔

اب ایران کہتا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر واپس نہیں آئے گا جب تک اسرائیلی اور امریکی بمباری جاری ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ عراقچی نے استنبول میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’یہ ایران نہیں بلکہ امریکہ تھا جس نے سفارت کاری سے غداری کی۔ اس موقع پر انھوں نے اسلامی تعاون تنظیم (آو آئی سی) کے 57 رکن ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی۔ اس میں ’اسرائیل کی جارحیت‘ کی مذمت کی گئی اورامریکہ اور ایران کے درمیان پیدا ہونے والی ’خطرناک کشیدگی پر شدید تشویش‘ کا اظہار کیا گيا۔

فردو میں جوہری تنصیب کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصویر
Reuters
فردو میں جوہری تنصیب کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصویر

ایران نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی اس تنبیہ کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جس کے مطابق جوہری تنصیبات کو کسی بھی صورت میں نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے ’خواہ حالات جیسے بھی ہوں۔‘

یورپی رہنما بھی کشیدگی میں فوری کمی اور ایران کے جوہری پروگرام کو میزائلوں کی بجائے ثالثی کے ذریعے محدود کرنے کے حق میں ہیں۔

تاہم وہ یہ بھی دہراتے ہیں کہ ایران کو ایٹم بم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ان کے نزدیک ایران کا 60 فیصد یورینیئم افزودہ کرنا، جو 90 فیصد تک ہتھیاروں کے درجے کے قریب ہے، اس کے عزائم کی ایک خطرناک علامت ہے۔

یورپی کونسل برائے بین الاقوامی امور کی مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ پروگرام کی نائب سربراہ ایلی جیرانمایہ کہتی ہیں کہ ’ایران غالباً اپنی تنصیبات کو پہنچنے والے نقصان کو کم کر کے پیش کرے گا اور اصرار کرے گا کہ اس کا جوہری پروگرام ان بے مثال حملوں کے باوجود باقی ہے۔‘

’جبکہ دوسری جانب امریکہ غالباً اس نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا تاکہ صدر ٹرمپ مزید حملوں میں الجھے بغیر فوجی فتح کا دعویٰ کر سکیں۔‘

امریکی صدر کو اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے دباؤ کا سامنا
Getty Images
امریکی صدر کو اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے دباؤ کا سامنا

صدر ٹرمپ ایک طرف اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، جن کی فوجی طاقت ایران پر مزید حملے جاری رکھے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے، جس کے نتیجے میں ایران کی طرف سے مزید جوابی کارروائیاں بھی متوقع ہیں۔

لیکن دوسری جانب قانون سازوں کی طرف سے صدر کو اندرونِ ملک بھی دباؤ کا سامنا ہے۔ ان قانون سازوں کا یہ کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کانگریس کی منظوری کے بغیر کارروائی کی۔ انھیں اُن حامیوں کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے جو سمجھتے ہیں کہ صدر نے امریکہ کو طویل جنگوں سے دور رکھنے کا اپنا وعدہ توڑ دیا۔

اور یہی لمحہ اب ایران کے سخت گیر فیصلہ سازوں کی توجہ اس بات پر مرکوز کر رہا ہے کہ وہ کس طرح اپنی مدافعت کی صلاحیت (ڈیٹرینس) کو بحال کریں۔

ایلی جیرانمایہ خبردار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہی سب سے بڑی ستم ظریفی ہے۔ اگرچہ ٹرمپ نے ایران کے جوہری خطرے کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن اب انھوں نے ہی ایران کے جوہری ریاست بننے کا امکان کو کہیں زیادہ بڑھا دیا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.