اس بارے میں سوالات اب بھی موجود ہیں ایران کی افزودہ یورینیئم کتنی تعداد میں اور کہاں موجود ہے کیونکہ یہ کسی بھی جوہری ہتھیار کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایران میں ایک ایسی تنصیب بھی موجود ہے جس کے بارے کسی کو علم نہیں اور وہ ان حملوں میں محفوظ رہی۔
امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر سنیچر کی رات حملہ کیا لیکن منگل کی صبح تک صدر ٹرمپ واشنگٹن سے ایک اور بین الاقوامی دورے کے لیے روانہ ہو چکے تھےایئر فورس ون پر نیدرلینڈز میں نیٹو سمٹ میں جانے والے صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک ایسا پیغام شیئر کیا جو ایک غیرمتوقع شخص کی جانب سے تھا۔
یہ نیٹو سکیورٹی اتحاد کے سربراہ مارک رٹا کی طرف سے تھا جنھوں نے اس پیغام میں امریکی بمبار طیاروں کے ایران کی تنصیبات پر حملے میں کامیابی پر امریکی صدر کی تعریف کی تھی۔
صدر نے رٹا کا یہ پیغام اپنے ٹرتھ سوشل اکاؤنٹ پر شیئر کیا جس میں لکھا تھا کہ ’ایران پر فیصلہ کن کارروائی کرنے پر آپ کا شکریہ اور مبارکباد۔ یہ یقیناً غیر معمولی اور ایسا اقدام تھا جو اس سے پہلے کسی نے کرنے کی ہمت نہیں کی۔‘
ٹرمپ کے ماضی میں نیٹو کے ساتھ اختلافات رہے ہیں کیونکہ انھوں نے اس اتحاد کے مشترکہ دفاعی معاہدے پر سوالات اٹھائے اور خاص طور پر ساتھی ممالک کی جانب سے اس اتحاد میں مالی معاونت کے حوالے سے۔
رٹا نے ٹرمپ کو بھیجے گئے پیغام میں اس موضوع پر بھی بات کی اور کہا کہ آپ ’ایک اور بڑی فتح کی جانب بڑھ رہے ہیں‘ جہاں اتحاد کے ممبران کی جانب سے ٹرمپ کے اس مطالبے سے اتفاق کیا گیا کہ وہ دفاع پر اپنے جی ڈی پی کا پانچ فیصد خرچ کریں گے۔
انھوں نے لکھا کہ ’یہ آپ کی فتح ہو گی۔‘
نیٹو کے سربراہ کی جانب سے ٹرمپ کو بھیجے گئے پیغاماتیہ پرجوش الفاظ اور صدر کی انھیں دنیا کے ساتھ شیئر کرنے کی بیتابی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں اور اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ سفارتی صورتحال کس حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔
گذشتہ ہفتے کینیڈا میں منعقدہ جی سیون سمٹ سے وہ ایک دن پہلے واپس آ گئے تھے کیونکہ اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع اپنے عروج پر تھا اور اس بات کے قوی امکانات تھے کہ امریکہ بھی اس لڑائی کا حصہ بن سکتا ہے۔
امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر سنیچر کی رات حملہ کیا لیکن منگل کی صبح تک صدر ٹرمپ واشنگٹن سے ایک اور بین الاقوامی دورے کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔ اس مرتبہ لڑائی کرنے والوں کے مابین ایک کمزور جنگ بندی معاہدہ ہو چکا تھا۔
نیٹو کے سربراہ کا ٹرمپ کو پیغام جس کی تصدیق نیٹو کے پریس آفس نے بی بی سی کو کی، دراصل وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس حملے کے حوالے سے بتائی گئی معلومات کو افسانوی انداز میں بتانے کی کوشش تھی۔
یعنی ٹرمپ کے فوجی حملوں نے ایرانی جوہری ہتھیاروں کا خطرہ ختم کر دیا۔ ان کی کارروائی نے جنگ بندی کی بنیاد رکھی اور '12 روزہ جنگ' کا خاتمہ کر دیا۔
ٹرمپ کی شمولیت اور ان کا دباؤ، منگل کی صبح ایران اور اسرائیل دونوں کے خلاف انتہائی غصے میں دیا گئے بیانات اور وائٹ ہاؤس کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو کو ایئر فورس ون سے کی گئی ’غیر معمولی طور پر براہ راست فون کال‘ کے باعث جنگ بندی ممکن ہو سکی۔

گذشتہ ہفتے امریکی اتحادی خاصے پریشان تھے تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ یورپ کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ ان کی تعریفیں سمیٹ سکیں۔
تاہم صورتحال اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
وائٹ ہاؤس انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ امریکی بمباری سے ایرانی جوہری تنصیبات ’مکمل طور پر تباہ‘ ہو چکی ہیں لیکن امریکی فوجی انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے امریکی میڈیا کو بتایا ہے کہ نقصان اتنا بھی شدید نہیں جتنا وائٹ ہاؤس کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
پینٹاگون انٹیلیجنس تجزیے کے مطابق ملک کا جوہری پروگرام صرف چند ماہ پیچھے چلا گیا اور رپورٹ کے بارے میں معلومات رکھنے والے ذرائع نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ایران کی افزودہ یورینیئم کا اس حملے میں خاتمہ نہیں ہوا۔
اس بارے میں سوالات اب بھی موجود ہیں کہ ایران کی افزودہ یورینیئم کتنی تعداد میں اور کہاں موجود ہے کیونکہ یہ کسی بھی جوہری ہتھیار کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایران میں ایک ایسی تنصیب بھی موجود ہے جس کے بارے کسی کو علم نہیں اور وہ ان حملوں میں محفوظ رہی۔
یہ جنگ بندی اس وقت تو جاری ہے لیکن مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والے ایسے معاہدے ماضی میں خاصے کمزور رہے ہیں۔ ایرانی لیڈرشپ دو ہفتوں کے ہلاکت خیز اسرائیلی حملوں کے بعد کمزور ہو چکی ہے اور ملک کا مستقبل غیر یقینی ہے۔
شام کی ہی مثال دیکھ لیں جہاں جب ایک آمرانہ حکومت کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوئی تو کس قسم کے خطرات سامنے آئے۔ ٹرمپ نے ایران کے لیے ’محبت، امن اور ترقی‘ کی بات کی ہے لیکن افراتفری اور خطے میں بحران حقیقت پر مبنی امکانات ہیں۔
ٹرمپ نے دو ہفتوں کی اسرائیل ایران جنگ تو بظاہر رکوا دی لیکن جو جنگیں وہ ختم کراونے کا وعدہ کر کے آئے تھے یعنی غزہ اور یوکرین کی جنگیں، وہ اب بھی جاری ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے لیے یہ خدشات فی الحال ایجنڈا پر نہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو کو ایئر فورس ون سے ٹرمپ کی جانب سے کی گئی ’غیر معمولی طور پر براہ راست فون کال‘ کے باعث جنگ بندی ممکن ہو سکیاس وقت ٹرمپ کے امریکہ میں موجود ناقدین جو ان کے ایران پر حملے کے حوالے سے تنقید کر رہے تھے اب خاموش ہیں۔ ان میں رپبلکن رہنما تھامس میسی شامل ہیں جو ٹرمپ کے ایران میں طاقت کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے قرارداد پیش کرنے والے تھے تاہم اب وہ اسے واپس لے رہے ہیں۔
اس سے ٹرمپ کو وہ سیاسی سپیس ملی، جس کے دوران وہ اس ’کامیابی‘ کا جشن منا سکتے ہیں۔
منگل کو نائب صدر جے ڈی وینس نے ٹرتھ سوشل پر اپنے پیغام میں ٹرمپ کے ’فارن پالیسی ڈاکٹرائن‘ کے بارے میں لکھا جس کے ان کے مطابق تین حصے ہیں۔
امریکی مفاد کی واضح تشریح، جارحانہ انداز میں مذاکرات کر کے اس مفاد کو حاصل کرنے کی کوشش، ضرورت پڑنے پر طاقت کا استعمال۔۔۔
اگر ڈاکٹرائنز کی بات کریں تو، اس سے کچھ زیادہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
صدر کی بین الاقوامی پالیسی اکثر تضادات پر مبنی اور فوری ردِعمل کی طرح محسوس ہوتی ہے جو عسکری حکمت عملی کی طرح زیادہ اور سٹریٹیجک کم ہوتی ہے۔چاہے وہ ٹیرف ختم کرنے یا لگانے کی بات ہو یا اتحادیوں اور مخالفین سے مذاکرات کرنے کی۔
گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ٹرمپ نے پہلے اسرائیل کے ایران پر حملوں سے خود کو علیحدہ کیا اور پھر اس جنگ میں شامل ہو گئے۔ اسی طرح پہلے ایران سے ’غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے‘ کا کہا اور پھر غیر واضح شرائط پر سیز فائر کر لیا اور رجیم چینج کے مفروضے پر بات کی اور پھر اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔
یہ ایک ایسی غیرمعمولی ٹرین کی سواری جیسا ہے جس میں پٹڑی سے اترنے کے امکانات ہر موڑ پر ہی بہت زیادہ ہیں لیکن نتائج نظر آتے ہیں اور اس ہفتے ٹرمپ کے لیے یہ غیر معمولی ہفتہ فتح کے جشن پر ختم ہوا۔