بلوچستان کے سابق نگراں وزیراعلیٰ میر نصیر مینگل کے بیٹے میر عطاء الرحمان مینگل کے قتل کے مقدمے میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل کے بیٹے میر گورگین مینگل اور بھتیجے سردار اسد اللہ مینگل کو نامزد کر دیا گیا ہے۔یہ مقدمہ خضدار کی تحصیل وڈھ کے لیویز تھانہ آڑینجی میں محمد جان مینگل نامی شخص کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں قتل، اقدام قتل اور دیگر دفعات شامل ہیں۔ایف آئی آر کے مطابق 22 جون کو خضدار کی تحصیل وڈھ کے علاقے آڑینجی میں کلاشنکوف سے لیس ملزمان نے میر عطاء الرحمان کو ان کی رہائش گاہ میں فائرنگ کا نشانہ بنایا جس میں وہ ہلاک جبکہ ان کا بیٹا مطیع الرحمان زخمی ہوئے۔ ایف آئی آر میں چار دیگر افراد کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔اس حملے کی ذمہ داری کالعدم مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی تاہم اب سامنے آنے والے مقدمے میں بی این پی کے سربراہ کے بیٹے اور بھتیجے کو براہ راست ملوث قرار دیا گیا ہے۔ مقدمے میں نامزد سردار اختر مینگل کے بھتیجے سردار اسد اللہ مینگل اپنے قبیلے کے سربراہ بھی ہیں۔بلوچستان نیشنل پارٹی نے مقدمے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات سابق رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ کا کہنا ہے کہ مقدمے میں لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں، اس کی کوئی قانونی اور اخلاقی بنیاد نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی ذمہ داری ایک مسلح تنظیم قبول کر چکی ہے اس کے باوجود بی این پی کے سربراہ کے خاندان کو افراد کو بد نیتی کی بنیاد پر نامزد کیا گیا۔ میر عطاء الرحمان مینگل خضدار کی اہم قبائلی و سیاسی شخصیت تھے۔ ان کے والد سابق نگراں وزیراعلیٰ اور پرویز مشرف دور میں وفاقی وزیر رہے۔ وہ جھالاوان عوامی پینل کے سربراہ میر شفیق الرحمان مینگل کے بھائی تھے۔شفیق مینگل ریاست اور حکومت کے حمایتی اور کالعدم بلوچ تنظیموں کے سخت مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ ان پر اور ان کے حامیوں پر اس سے قبل بھی متعدد حملے ہو چکے ہیں۔ کالعدم بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے اپنا پہلا خودکش حملہ 2011 میں کوئٹہ میں ان کے گھر پر کیا تھا جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے تاہم ان کے 13 حامی اس حملے میں مارے گئے۔اختر مینگل اور شفیق مینگل کے خاندانوں کے درمیان کئی دہائیوں سے سیاسی و قبائلی کشیدگی چلی آ رہی ہے۔
مقدمے میں نامزد سردار اختر مینگل کے بھتیجے سردار اسد اللہ مینگل اپنے قبیلے کے سربراہ بھی ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
سنہ 2023 میں دونوں کے حامی دو ماہ تک مورچہ زن رہے اس دوران مسلح جھڑپوں کے نتیجے میں سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس تنازعے کے دوران وڈھ کے تعلیمی ادارے، ہسپتال اور بازار دو ماہ تک بند رہے تھے جبکہ ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
رواں سال فروری میں بھی شفیق مینگل کے ایک حامی کے قتل کا مقدمہ سردار اختر مینگل کے بیٹے گورگین مینگل اور ان کے سینکڑوں حامیوں کے خلاف درج کیا گیا تھا جس پر سردار اختر مینگل نے ایک ہفتے سے زائد عرصے تک تھانے میں دھرنا دے کر احتجاج کیا تھا۔اس سے پہلے سنہ 2005 میں سردار عطا اللہ مینگل کے گھر پر راکٹ حملے کا الزام شفیق مینگل پر عائد کیا گیا تھا۔ اسی طرح 2011ء جب کوئٹہ میں شفیق مینگل کے گھر پر حملہ ہوا تو اس کے مقدمے میں سردار عطا اللہ مینگل اور ان کے بیٹے جاوید مینگل کو بھی نامزد کیا گیا۔دونوں فریق ایک دوسرے پر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔