پاکستان کی سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 12 جولائی 2024 کے اس اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فروری 2024 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دی جائیں۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 12 جولائی 2024 کے اس اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فروری 2024 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دی جائیں۔
جمعے کو جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 12 رکنی بینچ نے نظرثانی کی ان اپیلوں پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے یہ اپلیں منظور کرلی ہیں اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ہے۔
عدالت اعظمیٰ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ مخصوص نشستیں نہ پاکستان تحریک انصاف کو مل سکتی ہیں اور نہ ہی سنی اتحاد کونسل کو۔
عدالت نے یہ فیصلہ سات پانچ کی اکثریت سے دیتے ہوئے یہ اپلیں منظور کی اور اس عدالتی فیصلے کے بعد قومی اسمبلی کی 77 مخصوص نشستیں بحال کر دی گئی ہیں۔
جسٹس امین الدین، جسٹس نعیم اختر، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس شاہد بلال، جسٹس عامر فاروق، جسٹس ہاشم کاکڑ اور جسٹس باقر نجفی نے تمام اپیلیں منظور کرنے کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اظہر حسن رضوی نے اپنے فیصلے میں جزوی طور پر یہ اپیلیں منظور کی ہیں جس میں الیکشن کمیشن سے کہا گیا ہے کہ وہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کا دوبارہ جائزہ لے۔
واضح رہے کہ نظرثانی کی ان اپیلوں کی 17 سماعتیں ہوئیں اور جسٹس صلاح الدین نے ان اپیلوں کی سماعت کے آخری روز سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان کی جانب سے اعتراض اٹھائے جانے کے بعد ان اپیلوں کی سماعت سے معذوری ظاہر کی تھی۔
یاد رہے کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے13 رکنی بینچ نے اپیلوں کی سماعت کی تھی اور 12 جولائی 2024 کو اس کا فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ سمیت آٹھ ججز نےاکثریتی فیصلہ دیا تھا کہ یہ مخصوص نشتیں پاکستان تحریک انصاف کو دی جائیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف نہ تو پشاور ہائی کورٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ میں درخواست گزار تھی۔سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کندہ تھی۔
خیال رہے کہ انٹراپارٹی الیکشن نہ کرنے کی وجہ سے فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کا انتخابی نشان چھین لیا گیا تھا اور اس جماعت کے حامی امیدواروں نے آزاد حیثیت میں حصہ لیا تھا جس کی بنا پر الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں حاصل کی جانے والی نشستوں کو سامنے رکھتے ہوئے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشتیں آلاٹ کر دی تھیں۔
الیکشن کمیشن سمیت مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی ان خواتین نے سپریم کورٹ کے12 جولائی 2024 کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
نظرثانی کی اپیلوں کی سماعت چھ مئی سے سپریم کورٹ کے 13 رکنی آئینی بینچ نے کی تھی اور اس بینچ میں ان آٹھ ججز میں سے صرف چار ججوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی شامل ہیں، جنھوں نے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کے حق میں فیصلہ دیا تھا تاہم یہ دونوں جج صاحباننظرثانی کی ان اپیلوں کی پہلی سماعت کے بعد ہی ان درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ وہ اس بارے میں پہلے ہی فیصلہ دے چکے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کا حصہ تھے تاہم نظرثانی کے اس فیصلے میں انھوں نے اپنے گذشتہ فیصلے پر نظرثانی کی ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان کا موقف تھا کہ نظرثانی کی اپیلوں کو صرف وہی جج صاحبان سن سکتے ہیں جنھوں نے پہلے اس مقدمے کو سنا ہو لہذا موجودہ ججز نظرثانی کی ان اپیلوں کو نہیں سن سکتے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن ان خواتین کا بطور رکن قومی اور صوبائی اسمبلی دوبارہ نوٹفیکیشن جاری کرے گا جنھیں 12 جولائی کے آٹھ رکنی ججز کےاکثریتی فیصلے کی روشنی میں ڈی نوٹیفائی کردیا گیا تھا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا میں سینٹ کے انتخابات منعقد ہونے کا امکان ہے جو نظرثانی کی ان اپیلوں کی وجہ سے التوا کا شکار ہیں۔

وکیل حامد خان کا بینچ پر اعتراض
قبل ازیں مخصوص نشستوں کے خلاف نظرثانی کی اپیلوں کی سماعت کے دوران جمعے کی صبح اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی جب سُنّی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان کی جانب سے 11 رکنی بینچ میں شامل جسٹس صلاح الدین پنہور کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ جو لوگ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں آئے ہیں وہ خود بینچ سے الگ ہو جائیں۔
جس پر جسٹس صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ’حامد خان کے اس اعتراض کے باعث بہتر سمجھتا ہوں خود کو بینچ سے الگ کر لوں۔‘
اس کے بعد انھوں نے ان اپیلوں کو مزید سماعت سے معذوری ظاہر کردی۔
یاد رہے کہ جمعے کو سپریم کورٹ میں جاری مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی جس کے آغاز پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد لازم ہے، ضروری ہے کہ کسی فریق کا بینچ پر اعتراض نہ ہو۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے جسٹس عائشہ ملک سمیت دو جج پہلے ہی سے نظرثانی کی اپیلوں کی سماعت کرنے والے اس تیرہ رکنی بینچ سے الگ ہوگئے تھے کیونکہ ان کا موقف تھا کہ وہ پہلے ہی اس بارے میں فیصلہ دے چکے ہیں۔
جمعے کو مخصوص نشستوں کی نظر ثانی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس صلاح الدین کے بینچ سے الگ ہونے کے بعد 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا اور پھر جب جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 10 ججز نے دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تو پی ٹی آئی سینیٹر حامد خان نے اس بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان اپیلوں پر 13 رکنی سے کم بینچ سماعت نہیں کرسکتا تاہم عدالت نے ان کا اعتراض مسترد کر دیا۔
سنی اتحاد کونسل کے مرکزی وکیل فیصل صدیقی سمیت کسی بھی وکیل نے جسٹس صلاح الدین پنوار کی موجودگی پر اعتراض نہیں اٹھایا تھا۔
’آپ کی عزت سپریم کورٹ کی وجہ سے ہے‘
نظرثانی اپیلوں کی دوبارہ سماعت کا آغاز ہی جسٹس جمال مندوخِیل اور سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان کے درمیان تلخ جملوں سے ہوا۔
بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کس بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں کہ دس رکنی بینچ یہ کیس نہیں سن سکتا اور اگر ان کے پاس ایسا کوئی قانون ہے تو وہ سامنے لے کر آئیں۔
انھوں نے کہا کہ نظرثانی کی اپیلوں پر عدالتی کارروائی ختم ہونے کو ہے اور اس موقع پر ججز پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہی نہیں ہیں اور عدالت نے انھیں صرف سنئیر وکیل ہونے کی وجہ سے دلائل دینے کا موقع فراہم کیا حالانکہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عزت سے عزت ملتی ہے اور آج آپ کی عزت ہے تو سپریم کورٹ کی وجہ سے ہے۔‘ حامد خان نے اس کے جواب میں جسٹس جمال مندوخیل کو کہا کہ ’آپ غصے میں ہیں کیس نہیں سنیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اس معاملے میں سنی اتحاد کونس کے وکیل دلائل دے چکے تھے، آپ کے پاس بات کرنے کا حق نہیں تھا۔‘
انھوں نے حامد حان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے آپ کو عزت دی۔‘
حامد خان نے اس کے جواب میں کہا کہ ‘آپ کے پاس زبان بندی کا کوئی اختیار نہیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’سنی اتحاد کونسل نے فیصل صدیقی کو وکیل کیا آپ کو نہیں۔‘
انھوں نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کے پاس دس منٹ ہے ورنہ بیٹھ جائیں اور اگر آپ نے دلائل نہیں دینے تو پھر بھی بیٹھ جائیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’میں جانتا ہوں کیسے کام کرنا ہے،آپ اپنے الفاظ کا خیال رکھیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم رولز، قانون اور آئین کے مطابق چلیں گے اور کوئی غیر متعلقہ بات نہیں سنیں گے کیونکہ ہم نے پہلے ہی بہت کچھ سن لیا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم آپ کو اچھا وکیل سمجھتے ہیں اور آپ جو کر رہے ہیں وہ اچھے وکیل والی بات نہیں‘۔ جس پر حامد خان نے جسٹس جمال مندوخیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو کوئی حق نہیں ایسی بات کہیں۔‘
اس دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’ ہم نے بینچ بنا دیا ہے،آپ کا اعتراض ہے تو بتا دیں۔‘
جس پر حامد خان کا کہنا کہ تیرہ رکنی بینچ کے فیصلے پر نظرثانی کو بارہ رکنی بینچ بھی نہیں سن سکتا جس پر بینچ کے سربراہ نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ان کا یہ اعتراض مسترد کرتی ہے۔
’آپ کہیں یہ سسٹم مجھے قبول نہیں ہے وکالت چھوڑ دیں‘
سماعت کے دوران جب حامد خان نے مثال دیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے بات کی تو جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کس قانون کے تحت بینچ بناتا ہے؟
جس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ 26 ویں ترمیم کے تحت آرٹیکل 191 اے کے تحت بینچ بنتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ 26ویں ترمیم کے مخالف ہیں تو اس پر کیسے انحصار کر رہے ہیں؟ اس کے جواب میں حامد خان نے کہا کہ اسی لیے کہا تھا 26ویں ترمیم پر پہلے فیصلہ کر دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا 26ویں ترمیم سپریم کورٹ نے کی ہے اور آپ سینیٹر ہیں کیا آپ نے ترمیم کے خلاف ووٹ دیا؟
حامد خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس ترمیم کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ’آپ سب نے بائیکاٹ کیا تھا۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک وہ ترمیم ہے یا اسے قبول کریں یا آپ کہیں یہ سسٹم مجھے قبول نہیں ہے وکالت چھوڑ دیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل کے بعد جسٹس ہاشم کاکڑ نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے گذشتہ روز میرے مینٹور قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیا اور گذشتہ سماعت کے دوران سٹنگ ججز پر الزامات عائد کیے۔‘
جسٹس ہاشم کاکڑ نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو سٹنگ ججز پر الزامات لگانے کا کس نے حق دیا ہے اور آپ نے کل سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا۔‘
حامد خا ن نے اس سوالات کا جواب نہیں دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’آزاد امیدواروں کو تین دن کے اندر کسی بھی جماعت میں شامل ہونا ہوتا ہے اور کیا نوٹیفکیشن کے بعد الیکشن کمیشن، ہائیکورٹ یا ہم سے کوئی درخواست کی کہ ہمیں سیٹ دیں؟‘
جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے آپ کو اتنے شارٹ پچ بال دیے کہ آپ چھکے لگائیں لیکن آپ نہ لگا سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے آپ کو موقع دیا کہ پی ٹی آئی آ جائے لیکن وہ نہیں آئے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’علی محمد خان یہاں بیٹھے تھے۔ ہم نے دس مرتبہ موقع دیا کہ کوئی روسٹرم پر آئے لیکن کوئی نہیں آیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’معذرت کے ساتھ جس طرح سیاسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح سیاسی جماعت میں شمولیت بارے فیصلے کی تحقیقات کرنی چاہیے جبکہ اس نقصان کا ملبہ اب عدالت پر ڈالا جارہا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’تیرہ کے تیرہ ججز نے متّفقہ کہا تھا کہ مخصوص نشستوں پر سنّی اتحاد کونسل کا حق نہیں بنتا۔ انھوں نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس بات کو خود بھی تسلیم کررہے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ’صاف بات ہے کہ قوم کو گمراہ کیا جا رہا ہےاور درست حقائق سامنے نہیں لائے جا رہے۔‘
جمعے کی سہ پہر وقفے کے بعد مخصوص نشستوں پر نظر ثانی اپیل کی سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والی خواتین کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آزاد ارکان کے پاس یہ بھی اختیار تھا یا تو وہ آزاد رہتے اور اگر وہ چاہتے تو وہ الگ سے کوئی سیاسی جماعت بنا سکتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر یہ آزاد ارکان اگر کسی ایسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں جس کی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی نہیں ہے تو وہ سیاسی جماعت بھی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل نہیں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف نہ تو پشاور ہائی کورٹ میں گئی اور نہ ہی پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں فریق بنی۔‘
مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مخصوص نشستوں کے حوالے سے جو فہرست دی گئی تھی اس میں کنول شوذب کا نام بھی شامل تھا تاہم انھوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ ان کا نام پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی فہرست سے نکال کر سنی اتحاد کونسل کی فہرست میں شامل کیا جائے جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ سنّی اتحاد کونسل کی قیادت نے خود آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا تھا۔
مخدوم علی خاننے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ انھیں اس معاملے میں سنا جائے جبکہ اس درخواست میں کوئی ریلیف نہیں مانگا گیا۔‘
بینچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’پوری قوم کو ہیجان میں رکھا ہوا ہے جبکہ اصل غلطی پی ٹی آئی کے وکلا کی ہے جن کو مزید تربیت کی ضرورت ہے۔‘