انڈیا میں دفاعی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بدلتے ہوئے علاقائی تناظر میں انڈیا کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ جنرل چوہان نے کہا ہے کہ ’چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کے آپس میں جڑے ہوئے مفادات سیکورٹی خدشات کو بڑھا رہے ہیں۔‘

انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف (سی ڈی ایس) جنرل انیل چوہان نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ ’چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جو علاقائی استحکام کو متاثر کر سکتے ہیں۔‘
جنرل انیل چوہان نے یہ باتیں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن (ORF) کے فارن پالیسی سروے 2024 کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
جنرل چوہان نے بحر ہند میں انڈیا کے لیے بڑھتے ہوئے چیلنج کی طرف بھی اشارہ کیا۔ انھوں نے چین کا نام لیے بغیر کہا کہ ’وہ قرضے دے کر اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔‘
جنرل چوہان نے کہا کہ ’جنوبی ایشیا میں حکومتیں مسلسل تبدیل ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ نظریاتی سطح پر بھی بڑے چیلنجز ابھر رہے ہیں۔ اسی طرح چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کے آپس میں جڑے ہوئے مفادات بھی سیکورٹی خدشات کو بڑھا رہے ہیں۔‘
جنرل انیل چوہان نے کہا کہ ’انڈیا کو اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور بیرون ملک قابل اعتماد شراکت دار بھی بنانا ہوں گے۔ انڈیا کو مقامی اور عالمی مہارت کے ساتھ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ہم اقتصادی ترقی اور ٹیکنالوجی کو فروغ دے کر ہی قومی سلامتی کو مضبوط بنا سکیں گے۔‘
ایسے میں انڈیا میں دفاعی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بدلتے ہوئے علاقائی تناظر میں انڈیا کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
’اب انڈیا کو تین محاذوں سے خطرہ ہے‘
دفاعی تجزیہ کار راہول بیدی کا کہنا ہے کہ ’سی ڈی ایس جنرل انیل چوہان کے خدشات بالکل جائز ہیں اور حال ہی میں پاکستان کے ساتھ چار روزہ تنازع کے بعد بہت سی چیزیں واضح ہو گئی ہیں۔‘
راہول بیدی کہتے ہیں کہ ’جنرل چوہان چین اور پاکستان کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔‘ ابھی پچھلے ہفتے ہی ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف لیفٹیننٹ جنرل راہول آر سنگھ نے کہا تھا کہ چین نے انڈیا کے خلاف پاکستان کی مدد کی تھی۔ پہلے اسے دو محاذ جنگ کہا جاتا تھا لیکن اب اسے ’ایک محاذ سے مضبوط جنگ‘ کہا جا رہا ہے۔
راہول بیدی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کو چین سے دفاعی سازوسامان، فضائی دفاعی نظام، سیٹلائٹ کی تصاویر اور انٹیلیجنس مل رہی ہے۔ انڈیا کے لیے تشویشناک بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش بھی پاکستان اور چین کے انڈیا مخالف اتحاد میں شامل ہو گیا ہے۔ اب انڈیا کو تین محاذوں سے خطرہ ہے۔ ایک مغربی سرحد سے، دوسرا شمالی سرحد سے اور بنگلہ دیش کی آمد کے بعد مشرقی سرحد سے بھی خطرہ ہے۔‘
راہول بیدی کا کہنا ہے کہ ’اب انڈیا کو تین محاذوں سے خطرہ ہے۔ ایک مغربی سرحد سے، دوسرا شمالی سرحد سے اور بنگلہ دیش کی آمد کے بعد مشرقی سرحد سے بھی خطرہ ہے۔‘راہول بیدی کا کہنا ہے کہ ’سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش چین کے ساتھ مل کر ایک ہوائی اڈے پر کام کر رہا ہے۔ شمال مشرقی انڈیا کو جوڑنے والی چکن نیک کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے۔ 1971 میں بنگلہ دیش بننے کے 30 سال بعد تک مشرقی سرحد بانڈیا کے لیے محفوظ سمجھی جاتی تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔‘
سلی گڑی کوریڈور کو ’چکن نیک‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کوریڈور، جو صرف 22 کلومیٹر چوڑا ہے، شمال مشرقی انڈیا کو بقیہ ملک سے زمینی راستے سے جوڑنے کا واحد راستہ ہے۔
اس راہداری کے ساتھ بنگلہ دیش اور نیپال کی سرحدیں بھی ملتی ہیں۔ بھوٹان اور چین بھی اس راہداری سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ پچھلے سال سوشل میڈیا پر بہت چرچا تھا کہ بنگلہ دیش لالمونیرہاٹ میں چین کی مدد سے بنائے گئے ایک پرانے فضائی اڈے کو دوبارہ فعال کر رہا ہے۔
راہول بیدی اسی اڈے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ انڈیا کی سرحد سے تقریباً 15 کلومیٹر اور سلی گوڑی راہداری سے تقریباً 135 کلومیٹر دور ہے۔
’مشرقی سرحد سے خطرہ بڑھ گیا ہے‘
بنگلہ دیش کو ’انڈیا لاکڈ‘ ملک کہا جاتا ہے۔ درحقیقت، بنگلہ دیش کا 94 فیصد حصہ انڈیا کے ساتھ منسلک ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان 4,367 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور یہ بنگلہ دیش کی بین الاقوامی سرحد کا 94 فیصد ہے۔
ایسے میں بنگلہ دیش سلامتی اور تجارت کے لیے انڈیا پر انحصار کرتا رہا ہے۔ بنگلہ دیش شمال مشرقی ریاستوں سے سستا اور آسان رابطہ حاصل کرنے میں انڈیا کی مدد کرتا ہے اور شمال مشرقی ریاستوں کو باقی انڈیا سے جوڑنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
تھنک ٹینک او آر ایف کے سینئر فیلو منوج جوشی کا کہنا ہے کہ ’اگر اتنی لمبی سرحد انڈیا کے خلاف ہو تو ہم خطرے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔‘
منوج جوشی کہتے ہیں کہ ’ابھی پچھلے مہینے چین کے شہر کنمنگ میں پاکستان، چین اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ اس میٹنگ میں ایک نیا علاقائی گروپ شروع کرنے کی بات ہوئی تھی۔ اسی لیے جنرل چوہان علاقائی استحکام اور سلامتی کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔‘
منوج جوشی کہتے ہیں کہ ’اگر آپ فوجی طاقت ہیں یا معاشی طاقت، تو آپ پڑوسی ممالک کی خارجہ پالیسی کو اپنی خواہش کے مطابق تبدیل کر سکتے ہیں، یہ بنگلہ دیش کے ساتھ ہو سکتا تھا، لیکن انڈیا نہ تو فوجی طاقت ہے اور نہ ہی معاشی طاقت، اگر ہم دونوں میں سے کسی ایک میں بھی طاقتور ہوتے تو ہمارے پڑوسی ہماری بات مان لیتے۔‘
منوج جوشی کا کہنا ہے کہ ’آپریشن سندور کے بعد امریکہ پاکستان کو بہت اہمیت دے رہا ہے۔‘
جوشی کا کہنا ہے کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں لنچ پر مدعو کیا۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے مائیکل کریلا نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم اتحادی قرار دیا۔ امریکا کا جھکاؤ یقینی طور پر پاکستان کی طرف ہے۔ روس کی پاکستان میں دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے۔‘
جوشی کا کہنا ہے کہ ’امریکا کا جھکاؤ یقینی طور پر پاکستان کی طرف ہے‘انڈیا کہاں ناکام ہو رہا ہے؟
اگر پاکستان کو زیادہ توجہ مل رہی ہے تو انڈیا کہاں ناکام ہو رہا ہے؟
منوج جوشی کہتے ہیں ’میرے خیال میں انڈیا کو ملکی سیاست کے لیے دہشت گردی جیسے مسائل کا استعمال کرنا بند کر دینا چاہیے۔‘
’مودی حکومت کو خارجہ پالیسی کو ملکی سیاست سے الگ رکھنا چاہیے۔ جیسے G-20 سربراہی اجلاس کو اس طرح پیش کیا گیا جیسے کچھ الگ حاصل ہو گیا ہو۔ ہمیں کم دکھاوے اور زمین پر زیادہ ٹھوس کرنا ہے۔ بھوٹان نے بھی آپریشن سندور کی حمایت نہیں کی۔‘
دفاعی تجزیہ کار ادے بھاسکر کا خیال ہے کہ سی ڈی ایس جنرل انیل چوہان نے انڈیا کے پیچیدہ دفاعی چیلنجوں کا ایک اہم جائزہ پیش کیا ہے۔
ادے بھاسکر کہتے ہیں کہ ’انڈیا کے دفاعی حکمت عملی کے ماہرین نے اب تک جو چیلنجز دو محاذوں پر دیکھے تھے، وہ اب تین محاذوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ چین اب پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کو بھی اپنے کیمپ میں لانے میں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے جانے سے پہلے اس پر زیادہ غور نہیں کیا گیا تھا۔‘
راہول بیدی کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ کے موقف سے پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکا نے پاکستان کے فیلڈ مارشل کو وائٹ ہاؤس میں لنچ پر مدعو کیا، دس دن بعد پاکستان کی فضائیہ کے سربراہ نے بھی امریکا کا دورہ کیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکا پاکستان کو ہتھیاروں کی سپلائی بحال کر سکتا ہے۔‘
پاکستان امریکہ کے لیے اچانک اتنا اہم کیسے ہو گیا؟
راہول بیدی کا کہنا ہے کہ ’امریکہ نے پاکستان کے فیلڈ مارشل کو وائٹ ہاؤس میں لنچ پر مدعو کیا، دس دن بعد پاکستان کی فضائیہ کے سربراہ نے بھی امریکہ کا دورہ کیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکا پاکستان کو ہتھیاروں کی سپلائی بحال کر سکتا ہے‘راہول بیدی کہتے ہیں کہ ’پاکستان جس مقام پر واقع ہے اسے بہت سٹریٹجک سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی سرحد چین، افغانستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ملتی ہے، یہ ایک بہت اہم مقام ہے، اس کے علاوہ بلوچستان میں نایاب زمینی معدنیات موجود ہیں اور ہر کسی کو ان کی ضرورت ہے۔ آپریشن سندور کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ اسرائیل کے علاوہ کسی نے انڈیا کا ساتھ نہیں دیا۔ بین الاقوامی تنظیموں نے دہشت گردی کی مذمت کی لیکن پاکستان کی مذمت نہیں کی گئی۔‘
کیا اس سارے معاملے میں انڈیا کی کوئی کوتاہی ہے؟ راہول بیدی کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کے ایک معروف سفارت کار نے مجھے بتایا کہ انڈیا باتیں تو بہت کرتا ہے لیکن عملی طور پر کرتا کم ہے۔‘
’انڈیا کے پاس مضبوط فوج اور بحریہ ہے لیکن جب جاپان اور امریکہ کے لوگ آتے ہیں اور زمین پر چیزیں دیکھتے ہیں تو چیزیں بہت مختلف نظر آتی ہیں۔‘
او پی جندل یونیورسٹی میں چائنا اسٹڈیز کی پروفیسر شریپرنا پاٹھک کا بھی ماننا ہے کہ چین اور پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کے شامل ہونے سے انڈیا کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے۔
پروفیسر پاٹھک کا کہنا ہے کہ ’چین بنگلہ دیش کے لالمونیرہاٹ ایئربیس کو دوبارہ آپریشنل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ انڈیا کی سلامتی کے لیے بہت خطرناک ہوگا۔ ظاہر ہے کہ انڈیا اس کی تیاری کر رہا ہے۔‘
’ہم بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی کا انتظار نہیں کر سکتے۔ چین انڈیا کو اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ الجھا کر رکھنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اسے کسی چیلنج کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘
تاہم پروفیسر پاٹھک نہیں مانتے کہ پاکستان کی عالمی ساکھ بڑھی ہے۔
پروفیسر پاٹھک کہتے ہیں کہ ’ہم امریکہ سے زیادہ توقع نہیں رکھ سکتے۔ دہشت گردی پر مغرب کا موقف پہلے بھی ایسا ہی تھا۔ اسرائیل واحد ملک تھا جس نے کہا تھا کہ انڈیا کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ بدقسمتی سے، ہم برکس میں اسرائیل کے خلاف قرارداد پاس کرنے کا حصہ تھے۔‘