کلمہ پڑھنے والوں، مجھے ضرور پڑھنا

کچھ لوگ ایسے ھیں کہ جب کسی وڈیرے کے کتے کسی بچی پر، لڑکی پر حکماً حملہ کر دیں ،عورتوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیا جائے، جائیداد ھتھیانے کیلئے لڑکیوں کی شادی نہ ھونے دی جائے، کسی کی بیٹی کسی کے گھر میں ملازمہ ھو اس کی عزت لوٹ لی جائے،پولیس مار مار کر کسی کا بھرکس نکال دے، پرامن جلوسوں پر پولیس لاٹھی چارج کرے، آنسو گیس پھینکے، بیچ چوک میں ڈنڈے مار مار کر انسانوں کو مار ھی دیا جائے، پولیس والے تھانوں میں پکڑی جانے والی خواتین سے ڈانس کروائیں،چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ مار پیٹ کی جائے تو کچھ لوگ خاموش ھی رھتے ھیں، تشدد تشدد کا شور نہیں مچاتے، اخلاقیات اخلاقیات کا رونا بھی نہیں روتے۔ میڈیا پر آنے والی خبروں کے مطابق پاکستان کے قانون کے مطابق، تمام تر قانونی تقاضے پورے ھونے کے بعد، بے شمار گواھیوں کے بعد،اپنے جرم کے اقرار کے بعد آسیہ کو عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق سزا سنائی گئی ،یہ کچھ لوگ حرکت میں آ گئے۔ یہ کچھ لوگ سزا ھی کا انتظار کر رھے تھے۔ جیسے ھی سزا ھوئی، سزا کے فورا ً بعد اپنے ایک خاص ایجنڈے کے مطابق ٹی وی چینلوں پر آ کر اچھل کود کرنے لگے۔ یہ کچھ لوگ سزا یافتہ آسیہ کی سزا کی آڑ میں، پاکستان کے آئین اور قانون کے خلاف، معزز عدالت کے خلاف، پاکستان کے تمام مکاتب فکر کی حمایت سے نافذ کئے گئے متفقہ قانون کے خلاف، اٹھ کھڑے ھوئے ھیں۔ اگر یہ سمجھتے ھیں کہ فیصلہ غلط ھے تو قانون موجود ھے،قانون کی پیروی کرتے،عدالت میں جاتے، لیکن ایک شور پرپا کر دیا گیا اور شور مچایا جا رھا ھے۔ دین اور انصاف سے ذھنی اور عملی طور پر ناآشنا لوگ ٹی وی پر آ کر ایک اھم قانون اور مسئلے پر اپنی رائے کے نام پر عجیب بے تکی باتیں کر رھے ھیں۔ یہ کچھ لوگ اس مقدمے کی آڑ لے کر ناموس رسالت کے قانون کی مخالفت میں متحرک نظر آ رھے ھیں۔ یہ وہ قانون ھے جو 1400 سال پہلے دنیا والوں کا عطا کیا گیا تھا،یہ قرآن پاک کا قانون ھے اور یہ وہ قانون ھے جس کے دم سے انصاف ھے۔ جی ھاں، وہ مقدس اور نورانی ھستیاں جن کے ذریعے سے، جن کی وجہ سے اس دنیا کے انسانوں کو (جو ھوئے، ھیں اور ھوں گے) انصاف اور اخلاق کی دولتیں عطا فرمائی گئیں،یہ ناموس رسالت کا قانون انھیں تمام مبارک ھستیوں کو اللہ تعالیٰٰ جلّ شانہ کی بارگاہ سے ملنے والے مقام کا اقرار ھے اور ان کی عصمتوں کا تحفظ ھے۔ ھر انسان اپنے پیاروں سے پیار کرتا ھے، ان کی عزت کا تحفظ چاھتا ھے۔ سب کا پیدا کرنے والا اور سب کا پالنے والا اللہ تعالیٰٰ جلّ شانہ بھی اپنے پیغمبروں علیھم السلام سے پیار کرتا ھے، یہ پیغمبر وہ ھیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کا پیغام ھر دور میں بڑی محنت اور قربانیوں سے اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کی مخلوق تک پہنچایا ھے۔ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ ھی نے دین اسلام اور قرآن ،حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عطا فرمایا ھے اور ناموس رسالت کا قانون تمام انبیاء علیھم السلام کی عصمت کے تحفظ کا قرآنی قانون ھے۔ ، قرآن پاک میں فرشتوں کی صفت بیان کی گئی ھے۔
سورہ تحمریم۔ آیت 6۔ لايعصون الله ماامرهم ويفعلون مايؤمرون ۔
ترجمہ ۔ جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں۔ ذرا غو ر کیجئے کہ فرشتوں سے نافرمانی ھونا نا ممکن ھے اور انبیاء کرام علیھم السلام تو ان فرشتوں سے ، سارے جہان سے افضل ھیں، ان سے نافرمانی ھونا ناممکن ھے اور ایسا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

سورہ بقرہ آیت 124 میں فرمان خداوندی ھے ۔ لاينال عهدي الظالمين ۔۔ ترجمہ ۔ میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔۔۔
یعنی ظلم ( فسق) اور نبوت جمع ھو ھی نہیں سکتے۔
سورہ احزاب آیت 36 میں ارشاد رب کریم جل جلالہ ھے۔
وماكان لمؤمن ولامؤمنة اذا قضى الله ورسوله امرا ان يكون لهم الخيرة من امرهم ومن يعص الله ورسوله فقد ضل ضلالا مبينا ۔
ترجمہ : اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بیشک صریح گمراہی بہکا۔۔۔

ذرا غور کیجئے ، قرآن کی گواھی بھی ھے، یہ قرآن پاک اللہ کریم جل شانہ کا کلام ھے اور بتایا جا رھا ھے انبیاء کرام عیلہم السلام سے ظلم ممکن ھی نہیں ھے۔ اور جو اللہ کریم جل شانہ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہ مانے وہ گمراہ۔

اب ذرا یاد کیجئے، کہ فتح مکہ کے لئے لشکر جا رھا ھے، رحمت عالم، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ساتھ ھیں۔ راستے میں ایک کتیا اپنے بچوں کو دودھ پلا رھی تھی اور اگر لشکر ادھر سے گزرتا تو لشکر کی ھیبت سے کتیا اپنے بچوں کو دودھ پلانا چھوڑ بیٹھتی، میرے اور آپ کے محبوب پاک، محبوب رب کریم،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا اور لشکر کا راستہ تبدیل کر دیا گیا۔ فتح مکہ ھو گئی اور سب کو معاف کر دیا گیا۔ لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ان کے رب کریم جل شانہ کو گوارا ھی نہیں اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو وھی کرتے ھیں جو اللہ کریم جل شانہ چاھتا ھے۔ توھین رسالت کے مرتکب افراد کو قتل کرنے کا حکم ھوا، فرمایا کہ اگر غلاف کعبہ کے پیچھے ھوں تو تب بھی قتل کر دیا جائے۔

یہ ناموس رسالت کا قانون اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کی مرضی اور خوشی ھے، یہ نافذ ھی رھے گا۔ اگر کچھ لوگ اسے نافذ کرنے سے انکار بھی کریں گے، اس قانون کے خلاف چلیں گے تو وہ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کے قانون کے خلاف چلیں گے،یہ لوگ مٹ جائیں گے اور مٹنے کے ساتھ عبرت بھی بن جائیں گے۔

سورہ کوثر آیت آیت 3 میں ارشاد رب کریم جل جلالہ ھے ۔
ان شانئك هو الابتر۔
ترجمہ : بے شک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے ۔

جنات آگ سے بنے ھیں اور شیطان بھی جن تھا ۔ بہت زیادہ عبادت گزار تھا، فرشتوں کا سردار بنا دیا گیا، لیکن حضرت آدم علیہ السلام کی گستاخی کر بیٹھا، اللہ تعالیٰ جلّ شانہ نے ان کو جو شان عطا فرمائی تھی، اس شان کا انکار کر بیٹھا، بس مردود ھو گیا، اسے دھتکار دیا گیا، سرداری سے معزول ھوا اور ا پنے مرتبے اور مقام سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اور عبرتناک سزائیں اس کا مقدر کر دی گئیں ھیں۔ صرف فرعون، ھامان، شداد،نمرود، ابی بن خلف، ابولہب ھی کی عبرت ناک مثالیں سمجھنے کیلئے کافی ھیں اور اللہ تعالیٰ جلّ شانہ اس بات پر قادر ھے کہ جن لوگوں کو چاھے چن لے اور ان کے ذریعے اس قرآنی قانون کو نافذ کروا دے۔ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ چاھے تو بندوں کے بغیر بھی اس قانون کو نافذ کر سکتا ھے، اللہ تعالیٰ جلّ شانہ جو چاھتا ھے کر سکتا ھے اور اللہ تعالیٰ جلّ شانہ وسیلے سے بھی عطا فرماتا ھے۔ پاکستان کے آئین کا حصہ بنائے جانے سے پہلے بھی تمام مسلمانوں کا یہی قانون اور مذھب تھا،اسی کی پیروی کی جاتی تھی،گستاخوں کی سزا موت ھی تھی، لہٰذا اسے آئین میں بھی درج کر دیا گیا۔ ان کچھ لوگوں کو علم ھی نہیں یا یہ پاکستان کے آئین کے ساتھ کسی سازش میں مصروف ھیں، یہ ایک نہایت توجہ طلب نکتہ ھے۔ یہ کچھ لوگ اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کر کے اپنا ایک تاثر قائم کر کے، اپنی انصاف اور اخلاق کے منافی ، فساد پر مبنی سوچ کو پھیلانے کی کوشش کرتے ھیں۔ اگر کوئی ڈاکو کسی کے گھر جا کر لوٹ مار کرے، ان کی عزتوں پر دست درازی کرے، پکڑا جائے اور کوئی اس کی حمایت کرے، تو انصاف کی رو سے وہ ڈاکو اور اس کا حمایتی دونوں ھی مجرم ھیں۔ یہ تمام دنیا میں رائج قانون ھے، انصاف ھے، اخلاق ھے ۔ اس ڈاکو کو اور اس ڈاکو کے حمایتیوں کو چھوٹ دینا تمام معاشرے کے ساتھ ظلم کرنا ھے اور اس ڈاکو اور اس کے حمایتیوں کو سزا دینا، عبرت بنانا تمام معاشرے کا تحفظ ھے۔ یہ انصاف کا تقاضا ھے کہ فساد پیدا کرنے والے فسادی کو ختم کر دیا جائے ورنہ وہ فساد پھیلائے گا، اور فساد کی آگ میں تمام معاشرہ جلے گا اور حضرات انبیاء کرام علیھم السلام کی گستاخی تو ایک عظیم فتنہ اور فساد ھے۔

قرآن پاک پڑھ کر دیکھیں ، کچھ منافقین نے مسجد ضرار بنائی تھی، ان چند لوگوں کا شمار مسلمانوں میں ھوتا تھا۔ حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی تھی،اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کے حبیب حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کرتے تھے، اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کے حکم کے مطابق کرتے تھے۔ چنانچہ آیت نازل ھوئی اور ان منافقین کا پردہ فاش ھو گیا۔ چنانچہ حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق مسجد ضرار گرا کر جلا دی گئی۔ بے ادبوں کو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکال دیا گیا، آنے سے بھی منع کر دیا گیا۔ جو اللہ تعالیٰ جلّ شانہ چاھتا تھا پیارے حبیب، حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ وھی کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کے حبیب حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کرتے تھے، اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کے حکم کے مطابق کرتے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کیا گیا لیکن گستاخوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کر دیا گیا۔ کوئی اپنے ماں باپ، بہن بیوی، بزرگ کے بارے میں کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کو بھی اپنے حبیب حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور انبیاء علیھم السلام کی گستاخی گوارا نہیں۔ فرشتوں کا سردار بھی اسی لئے مقرب سے مردود بن گیا۔ حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان، مال اور ھر رشتے سے زیادہ محبوب رکھنا ھی ایمان ھے۔ مسلمانوں کو بھی اپنے محبوب پاک، حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور کسی بھی نبی علیہ السلام کی گستاخی گوارا نہیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ایک مسلمان کو حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے انکار کرتا ھوا پایا تو اسے قتل کر دیا اور اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کی بارگاہ میں آپ کا یہ عمل اتنا پسندیدہ ٹھرا کہ تائید اور حمایت میں آیت نازل ھو گئی۔ گستاخ کو قتل کرنا فساد اور فتنے کو ختم کرنا ھے اور گستاخ کو شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ھوئے پوری جانچ کے بعد قتل کرنا پورے معاشرے کا فساد اور فتنے سے تحفظ ھے۔ یہ عین انصاف اور اخلاق ھے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان قرآن و سنت کے سچے پیروکار تھے۔ حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث شریف ھے " میرے صحابہ ستاروں کی مانند ھیں،کسی ایک کی پیروی کر لو ھدایت پا جاؤ گے۔"

ان صحابہ علیھم الرضوان کا قرآن و سنت کے سچھ پیروکاروں کا طریقہ ملاحظہ کریں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ماموں کی گردن ماری۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے باپ کو قتل کیا اور بے شمار مثالیں ھیں۔ لوگ اپنے گھر والوں ، بڑوں لیڈروں کی عزت پر حملہ برداشت نہیں کرتے۔ اسلام کی عمارت تو عشق حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ھی قائم ھے۔ اگر کوئی حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر حملہ کرے، اگر اس کے ساتھ نرمی کی جائے تو اسلام کیسے قائم رھے گا۔ حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں بھی اسلام کو مٹانے ھی کیلئے کی جاتی ھیں۔ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کو اپنے انبیاء علیھم السلام کی شان میں گستاخی قبول ھی نہیں۔ فرعون نے خدائی کا دعویٰ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ بے نیاز ھے۔ فرعون نے جو چاھا کرتا رھا، لیکن جیسے ھی اس نے اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کے نبی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی،اللہ تعالیٰ جلّ شانہ نے اسے سزا دی وہ غرق ھو گیا اور عبرت بن گیا۔ انبیاء علیھم السلام کی شان کے تو کیا ھی کہنے ھیں،اللہ تعالیٰ جلّ شانہ نے تو اپنے ولیوں کے ساتھ عداوت رکھنے والوں کے ساتھ اعلان جنگ کیا ھے۔ھم اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کی اطاعت کرتے ھیں۔ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ نے حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ھمیں دین اسلام عطا فرمایا ھے، اسلامی قانون یہی ھے کہ تمام انبیاء علیھم السلام کی گستاخی بالکل بھی گوارا نہیں ھے، گستاخی کی سزا موت ھے۔ ناموس رسالت کا قانون تو تمام انبیاء علیھم السلام کی شانوں کا تحفظ کرتا ھے۔ لیکن کیونکہ حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیھم السلام کے امام ھیں، سردار ھیں اس لئے ناموس رسالت کا قانون حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا جاتا ھے۔ یہ امتیازی قانون نہیں۔ یہ وہ قانون ھے، جو انصاف کی بنیاد ھے، جس کی وجہ سے انصاف ھے ۔ تمام کائنات کے مالک جل جلالہ کے بھیجے ھوئے پیغمبروں کی گستاخی کی اگر چھوٹ دے دی جائے،گستاخ کی سزا کا قانون ختم کر دیا جائے اور چھوٹ کا نام سزا رکھ کر گستاخ کو چھوٹ دے دی جائے جیسا کہ گستاخوں کے حمایتی لوگ چاھتے ھیں تو پھر دین کی عمارت کیسے قائم رھے گی۔ انصاف کا کیا مطلب سمجھا جائے گا۔ عجیب سی بات ھو گی کہ کسی عام شخص پر دست درازی کرنے والے کو تو سزا ملے، کسی سیاسی لیڈر کو جوتی مارنے پر یا اس کی تصویر کو کوئی جلا دے تو ھنگامے ھوں، کسی شخص کی عزت پر حملہ کرنے والے کیلئے تو قانون حرکت میں آ جائے اور انبیاء کرام علیھم السلام کی عصمتوں پر حملے کرنے والے کو آزاد چھوڑ دیا جائے، تو پھر اس دنیا سے انصاف تو ختم ھی ھو جائے گا۔ توبہ نعوذ بااللہ۔ جل جلالہ۔ ھر دور میں دین انھیں انبیاء علیھم السلام کے ذریعے قائم ھوا ھے۔ اسلام کی بقا، اسلام کا تحفظ، توحید کی بقا، حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم میں ھے۔ توریت عہد نامہ قدیم کے نسخے میں آج بھی یہ بات موجود ھے کہ اگر کوئی شخص قاضی(جج) کی یا کاھن کی جو لوگوں کو استخارے کر کے دیتا ھے ، ان کی توھین کرے ، تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اور کڑوڑھا قاضی بھی انبیاء کرام علیھم السلام کے نعلین کی دھول کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ناموس رسالت کا قانون تمام انبیاء علیھم السلام کی عصمت کا تحفظ کرتا ھے۔ اس دنیا میں ایک عام سے عام آدمی کی عزت کے تحفظ کا بھی قانون موجود ھے،قاضی اور کاھن کے گستاخ کے لئے قتل کی سزا تو توریت میں موجود ھے، تو پھر صرف ناموس رسالت کے قانون ھی میں تبدیلی کی بات کیوں کی جاتی ھے۔ صرف اس لئے کہ شان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نقب لگانے کی کوشش اسلام کو ختم کرنے کیلئے کی جاتی ھے۔ بار بار حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ھی گستاخی کیوں کی جاتی ھے، کبھی خاکے بنائے جاتے ھیں، کبھی فیس بک پر گستاخی کا دن منایا جاتا ھے، کبھی کچھ اور کبھی کچھ۔ صرف اس لئے کہ اسلام کو مٹانا ، ختم کرنا مقصود ھے اور ایسا ھو ھی نہیں سکتا، ایسا تو ممکن ھی نہیں ھے۔ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ نے تمام حضرات انبیاء کرام علیھم السلام کو اعلی مقامات عطا فرمائے ھیں، کوئی ان کو کم نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ نے پیارے محبوب کریم،حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑھ کر مقام اور شان عطا فرمائی ھے، اس کو کوئی کم نہیں کر سکتا۔ کسی کی ماں، بہن، باپ کو یا کسی بڑے کو گالی دی جائے، تو وہ لال پیلا ھو جاتا ھے۔ تمام انبیاء کے امام ، سردار اور تمام مسلمانو ں کے محبوب، حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی پر مسلمانوں کا جذباتی ھونا ایک فطری امر ھے، گستاخ کو قتل کرنے سے پہلے قانون کے تقاضوں کے مطابق، انصاف کرتے ھوئے تحقیق کی جائے اور جرم ثابت ھونے پر پھانسی کی سزا دی جائے، تو اخلاقیات اور تشدد کا نام لے کر جھوٹا شور مچا دیا جاتا ھے۔ آخر کیوں۔ کوئی کہتا ھے ناموس رسالت کا قانون صرف اقلیتوں کو نشانہ بناتا ھے۔ آخر یہ جھوٹ کیوں بولا جاتا ھے۔ ناموس رسالت کے قانون کے مطابق تو اگر کوئی کلمہ گو مسلمان کہلانے والا بھی اگر کسی بھی نبی علیہ السلام کی گستاخی کرے گا، تو اس کے لئے بھی وھی سزا ھے جو غیر مسلموں کیلئے۔ کتنی مکاری سے کہتے ھیں کہ ذمی ٹیکس دیتے ھیں، ان کے ساتھ تشدد نہیں ھونا چاھئے۔ ذمی ٹیکس دیتے ھیں تو ان سے عہد یہی ھے کہ ان کی جان، مال، اولاد، عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے گی، اور یہ بھی مسلمانوں کی طرح آزادی سے زندگی گزارنے کے حقدار ھیں، لیکن صرف اس وقت تک جبتک جسطرح ان کی ضروریات کا خیال رکھا جا رھا ھے، یہ بھی مسلمانوں کی ضروریات کا خیال رکھیں گے۔ ان کو مذھبی آزادی حاصل ھے تو یہ بھی شعائر اسلام کا احترام کریں گے۔ ان کو ھرگز یہ اجازت نہیں ھے کہ یہ ٹیکس دے کر اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کو گالیاں دیں،حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توھین کریں، قرآن پاک کو پاؤں تلے روندیں۔ ذمی تو ذمی، اگر کوئی مسلمان بھی گستاخی کا مرتکب پایا جائے گا، وہ بھی واجب القتل ھو گا۔ لہٰذا ناموس رسالت کے قرآنی قانون میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ھے اور اس قانون کا تحفظ ھر کلمہ گو مسلمان پر فرض ھے اور یہ ارباب اختیار کی ذمہ داری ھے کہ کوئی مسلم ھو یا غیر مسلم، اس قانون کی آڑ میں کسی پر گستاخی کا جھوٹا الزام نہ لگایا جائے۔ کسی پر یہ الزام ھونے کی صورت میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے، منصفانہ جانچ کی جائے اور اگر کوئی کسی پر جھوٹا الزام لگائے ، تو اسے بھی کڑی سزا دے کر عبرت بنا دیا جائے۔ میڈیا کے مطابق آسیہ کو پوری تفتیش کے بعد عدالت سے سزا دی گئی ھے، اگر یہ سچ ھے اور آسیہ حقیقتاً گستاخ ھی ھے تو شریعت کے مطابق ھی فیصلہ کیا جائے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ھم تیرے ھیں ( صلی اللہ علیہ وسلم )
یہ جہاں چیز ھے کیا لوح و قلم تیرے ھیں
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117103 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More