جب زندگی شروع ہوئی۔۔۔۔۔ حصہ ١۷

’’ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘، میں نے چلتے چلتے صالح سے پوچھا؟
’’وہ کیا؟‘‘
’’وہ یہ کہ اولین سے آخرین تک مسلمانوں کی تعداد کروڑوں بلکہ اربوں میں تھی۔ تو پھر لیلیٰ کا نمبر بالکل ابتدا ہی میں کیسے آ گیا؟‘‘
’’تم کیا سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ شناختی کارڈ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں ؟‘‘
’’میں سمجھا نہیں کہ تمھاری اس بات کا کیا مطلب ہے ؟‘‘
’’مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت نے اپنے لیے مسلمان ہونے کی شناخت پسند ہی نہیں کی۔ بیشتر لوگوں کے لیے ان کا اپنا فرقہ، اپنے اکابرین اور اپنا مسلک ہی اصل شناخت بنا رہا۔ چنانچہ آج کے دن جب امت مسلمہ کا حساب کتاب شروع ہوا تو پہلے پہل صرف ان لوگوں کو بلایا گیا جو صدق دل کے ساتھ توحید کے ماننے والے اور ہر قسم کی فرقہ واریت سے اوپر اٹھ کر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنی نسبت کرنے والے ، ہر طرح کی بدعتوں اور انحراف سے اپنے دین کو محفوظ رکھنے والے لوگ تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے کبھی حق کے معاملے میں اپنے تعصبات اور وابستگیوں کو اہمیت نہیں دی۔ جب کبھی حق سامنے آیا انھوں نے کھلے دل سے اسے قبول کیا۔ ایسے لوگوں میں عرش کے سائے تلے کھڑ ے صالحین بھی شامل تھے اور وہ لوگ بھی جن کے اچھے اعمال کے ساتھ برے رویے بھی ملے ہوئے تھے اور اسی بنا پر وہ میدان حشر میں کھڑ ے تھے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ذاتِ کریم نے ان کے برے اعمال کو نظر انداز کر دیا اور نیک اعمال کی بنا پر نجات کا پروانہ ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس لیے تمھاری بیٹی لیلیٰ کا نمبر جلدی آ گیا۔ وہ کم از کم اس معاملے میں بالکل پکی نکلی تھی۔ جو اس کی عملی کمزوریاں تھی وہ حشر کی سختی جھیلنے کی بنا پر قابل مؤاخذہ قرار نہیں پائیں ۔ بلکہ ربِّ کریم نے کمالِ عنایت سے اسے بھی تمھارے ساتھ کر دیا، حالانکہ اس کے عمل تمھارے جیسے نہیں تھے ۔‘‘

’’مگر میرا حساب کتاب اور فیصلہ تو ابھی ہوا نہیں ۔‘‘
’’تم اس وقت جہاں ہو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ فیصلہ ہو چکا ہے ۔ البتہ اعلان ابھی نہیں ہوا۔ اور بے فکر رہو، حشر کے دن کے اختتام پر سب سے آخر میں ہو گا۔‘‘
’’ایسا کیوں ؟‘‘، میں نے دریافت کیا تو صالح نے وضاحت کی:
’’میں نے پہلے تمھیں بتایا تھا کہ چار قسم کے لوگ ہیں جن کی نجات کا فیصلہ موت کے وقت ہی ہوجاتا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔‘‘
میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔ صالح نے اپنی بات جاری رکھی:
’’ان میں سے انبیا اور شہدا وہ لوگ ہیں جن کا اصل کارنامہ عام لوگوں پر دینِ حق کی شہادت دینا اور توحید و آخرت کی طرف لوگوں کو بلانا ہے ۔ آج قیامت کے دن ان دونوں گروہوں کے افراد اپنی اس شہادت کی روداد اللہ کے حضور پیش کریں گے جو انہوں نے دنیا میں لوگوں پر دی تھی۔ اس طرح لوگوں کے پاس یہ عذر نہیں رہ جائے گا کہ حق اور سچائی انہیں معلوم نہیں ہو سکی۔ کیونکہ یہ انبیا اور شہدا سچائی کو کھول کھول کر بیان کرتے رہے تھے ۔

چنانچہ اس شہادت کی بنیاد پر لوگوں کا احتساب ہو گا اور ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔ یہ فیصلے ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ سارے انسان نمٹ جائیں گے اور آخر میں تمھارے جیسے سارے شہدا کو بلا کر ان کی کامیابی کا اعلان کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر کہیں جا کر لوگوں کو جنت اور جہنم کی طرف روانہ کیا جائے گا۔‘‘
’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ فوراً جنت یا جہنم میں نہیں جائیں گے ۔‘‘
’’نہیں فوراً نہیں جائیں گے ۔ بلکہ ایک ایک شخص کا حساب کتاب ہوتا جائے گا۔ اگر وہ کامیاب ہے تو سیدھے ہاتھ کی طرف عزت و آسائش میں اور ناکام ہے تو الٹے ہاتھ کی طرف ذلت اور عذاب میں کھڑ ا کر دیا جائے گا۔ جب سب لوگوں کا حساب کتاب ہوجائے گا تو پھر لوگ گروہ در گروہ جنت اور جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے ۔‘‘
’’اور سب سے پہلے ؟‘‘
’’سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کا دروازہ کھلوائیں گے اور پھر اہل جنت زبردست استقبال اور سلام و خیر مقدم کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے ۔‘‘
’’اس وقت رسول اللہ کہاں ہیں ؟‘‘
’’اس وقت حضور حوضِ کوثر کے پاس ہیں ۔ آپ کی امت میں سے جس کسی کا حساب کتاب ہوجاتا ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے تو اسے پہلے حضور کے پاس لایا جاتا ہے جہاں جامِ کوثر سے اس کی تواضع ہوتی ہے ۔ جس کے بعد وہ نہ صرف حشر کی ساری سختی اور پیاس بھول جاتا ہے بلکہ آئندہ پھر دوبارہ کبھی پیاسا نہیں ہوتا۔ ویسے تمھیں جام کوثر یاد ہو گا؟‘‘
’’کیوں نہیں ؟‘‘، میں نے جواب دیا۔

صالح کی باتیں سن کر میرے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا اشیاق پیدا ہو گیا۔ میں نے صالح سے کہا:
’’کیوں نہ ہم پہلے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوجائیں ۔‘‘
ابھی میری زبان سے یہ جملہ نکلا ہی تھا کہ ایک صدا بلند ہوئی:
’’امتِ محمدیہ کے کامیاب لوگوں کا حساب مکمل ہو گیا ہے ۔ اب امت عیسوی کا حساب شروع ہورہا ہے ۔ عیسیٰ ابن مریم مسیح اللہ کے رسول اور بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر پروردگار عالم کی بارگاہ میں حاضر ہوں ۔‘‘
میں نے سوالیہ نظروں سے صالح کو دیکھا تو اس نے کہا:
’’اب حضرت عیسیٰ اپنی قوم پر گواہی دیں گے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں اپنی تعلیمات کا خلاصہ پیش کریں گے ۔ یہ اپنی قوم کے مجرمین کے خلاف ان کی شہادت ہو گی اور صحیح عقیدے اور عمل والوں کے حق میں یہ ایک نوعیت کی شفاعت بن جائے گی۔ اس کے بعد ان کی امت میں سے جن لوگوں کے عقیدے بالکل اس تعلیم کے مطابق ہوئے ، ان کی غلطیاں اللہ تعالیٰ نظر انداز کر دیں گے اور سرسری حساب کتاب کے بعد وہ سب کامیاب قرار پائیں گے۔‘‘
’’کیا یہی کچھ مسلمانوں کے معاملے میں ہوا تھا؟‘‘
’’ہاں سب سے پہلے نبی آخر الزماں کو بلایا گیا تھا اور انھوں نے گواہی دی تھی۔ یہ گواہی آپ کا انکار کرنے اور آپ کی نافرمانی کرنے والوں کے خلاف ایک شہادت بن گئی۔ کاش تم وہ منظر دیکھ لیتے جب ان میں سے ہر شخص کی خواہش یہ ہوگئی تھی کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سماجائے ۔ البتہ یہ شہادت لیلیٰ جیسے لوگوں کے حق میں ایک نوعیت کی شفاعت بن گئی۔ گرچہ نجات کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کا ایمان و عمل مجموعی طور پر حضور کی شہادت کے مطابق تھا۔‘‘

’’اس کا مطلب ہے کہ ابھی امت مسلمہ کے صرف ان لوگوں کو نجات ملی ہے جن کا عقیدہ و عمل حضور کی تعلیمات کے مطابق تھا؟‘‘

’’ہاں ان کی غلطیاں نظر انداز کر دی گئیں ۔ اور یہی دیگر انبیا کی امتوں کے ساتھ ہو گا۔ تمام انبیا کی امتوں کے ان لوگوں کو نجات مل جائے گی جن کا عقیدہ و عمل اپنے نبی کی تعلیمات کے مطابق ہو گا۔ اس کے بعد میدان حشر میں صرف مجرم اور نافرمان ہی فیصلے کے منتظر رہ جائیں گے ۔‘‘
’’پھر کیا ہو گا؟‘‘
’’اس کے بعد عمومی حساب کتاب شروع ہو گا۔‘‘
’’عمومی حساب کتاب؟‘‘، میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو عبد اللہ نے کہا:
’’تمام امتوں کے حساب کتاب کا پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں صالحین کی کامیابی کا اعلان ہورہا ہے اور لیلیٰ جیسے لوگوں کو رسمی حساب کتاب کے بعد فارغ کیا جا رہا ہے ۔ اس کے بعد عمومی حساب کتاب شروع ہو گا جس میں اعمال کی پوری جانچ پڑ تال کے بعد فیصلہ ہو گا۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں سارے مجرمین زد میں آجائیں گے ۔ البتہ اہل ایمان میں سے بہت سے لوگ اپنے گنا ہوں کے باوجود اللہ کی رحمت کی بنا پر نجات پائیں گے اور ان کی میزان کا دایاں پلڑ ا بھاری ہوجائے گا۔ ان کا میدان حشر میں خوار و خراب ہونا ان کی معافی کا بہانہ بن جائے گا۔ اسی کو میں عمومی حساب کتاب کہہ رہا ہوں ۔

البتہ کچھ لوگ ہوں گے جن کو آخری وقت تک کے لیے روک دیا جائے گا اور حساب کتاب کے لیے نہیں بلایا جائے گا۔ یہ وہ مؤمن ہوں گے جن پر گنا ہوں کا بوجھ بہت زیادہ ہو گا۔ ان لوگوں کے لیے انتظار کا یہ انتہائی طویل وقت ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں سال تک چلتا چلا جائے گا جس میں انہیں بدترین سختیاں ، مصیبت اور پریشانی جھیلنا ہو گی۔ پھر کہیں جا کر ان کی نجات کا کوئی امکان پیدا ہو گا۔‘‘
’’وہ امکان کیا ہو گا؟‘‘
’’وہ امکان اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کا ظہور ہے کہ وہ اپنے عدل کے مطابق لوگوں کو مکمل سزا دینے کے بجائے حشر کی سزا کو ان کے گنا ہوں کا کفارہ بنادے گا اور اس کے بعد ان کی معافی کا سبب اپنے نبیوں اور خاص کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس درخواست کو بنادے گا کہ ان کا حساب کتاب بھی کرہی دیا جائے ۔‘‘
’’مگر حشر کی اتنی تکلیف اٹھانا اور پھر نجات پانا تو کوئی اچھا طریقہ نہیں ہوا۔‘‘، میں نے تأسف بھرے لہجے میں پوچھا تو صالح نے جواب میں کہا:
’’اچھا طریقہ بتانے ہی تو انبیائے کرام آئے تھے کہ ایمان لاؤ، عمل صالح کرو اور کوئی غلطی ہوجائے تو معافی مانگ لو۔ نجات کا سب سے سادہ اور آسان نسخہ یہی تھا، مگر نبیوں کی بات کسی نے سنی ہی نہیں اور اس کا نتیجہ آج بھگت لیا۔‘‘
میں نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا:
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ یہ تو بڑ ی خرابی اور خواری کے بعد معافی ہوئی۔ میں تو لیلیٰ کی پریشانی نہیں دیکھ سکا تھا جو ابتدا ہی میں نجات پا گئی تو ان لوگوں کا کیا ہو گا جو آخر تک انتظار کرتے رہیں گے اور حشر کی سختیاں اور مصائب برداشت کرتے رہیں گے ۔‘‘
’’میرے بھائی تم نے لیلیٰ کو جن حالات میں دیکھا تھا وہ تو بہت اچھے تھے ۔ لیکن اب میدان حشر کا ماحول بہت بھیانک ہو چکا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہنم کا دہانہ مکمل طور پر کھول دیا گیا ہے ۔ جس کے بعد صرف حشر کی گرمی ہی نہیں بلکہ جہنم کا نظارہ اور اس میں جانے کا امکان بھی لوگوں کو مارے ڈال رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا غضب مجرموں پر بھڑ ک رہا ہے ۔ لوگ اپنے سامنے حساب کتاب اور مجرموں کی رسوائی دیکھ رہے ہیں ۔ یہ سب اتنا ہولناک ہے کہ انسان کی برداشت سے باہر ہے ۔ سب سے بڑ ی بات یہ ہے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ اس لیے اس وقت تم اہل محشر کے خوف اور ان کے ذہنی و جسمانی عذاب اور نفسیاتی اذیت کا اندازہ نہیں کرسکتے ۔‘‘

میں دل میں سوچنے لگا کہ کیا یہی وہ طریقہ تھا لوگ جس کے ذریعے سے نجات کی آس لگائے بیٹھے تھے ؟ کاش لوگ دنیا ہی میں سمجھ لیتے کہ نجات کا انحصار ایمان اور عمل صالح پر ہو گا۔ حضور نے ساری عمر اسی کی دعوت دی تھی۔ مگر لوگوں کی خوش فہمیوں کا کیا کیجیے ۔ حضور کی اصل دعوت کو انہوں نے پیچھے پھینک دیا اور اپنے گمانوں کی جھوٹی دنیا آباد کر لی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ کچھ نہ بھی کریں شفاعت انہیں بخشوا دے گی۔ مگر آج یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ نجات ایمان اور عمل صالح پر ملے گی۔ ہر وہ بڑ ا گناہ جس کی توبہ نہیں کی، اس کی سزا آج حشر کی سختی اور جہنم کے بھیانک سائے تلے بھگتنا پڑ ے گی۔ اے کاش کہ لوگوں کو یہ بات آج سمجھ آنے کے بجائے دنیا ہی میں سمجھ آ جاتی تو ان کی ساری زندگی توبہ کرتے گزرتی۔

میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ صالح نے مجھے دیکھ کر کہا:
’’میرا خیال ہے کہ حوض کوثر پر جانے سے قبل حضرت عیسیٰ کی گواہی کا منظر دیکھ لیتے ہیں ۔ پھر رسول اللہ کے پاس چلیں گے ۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 28505 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.