تحریک خلافت کے روح رواں

تاریخ مولانا محمد علی جوہرؒ کو تحریک خلافت اور تحریک آزادی کے ایک نامور رہنما کی حیثیت سے جانتی ہے۔آپ1878 ء میں ریاست رام پور کے ایک نامور اور بااثر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ابھی آپ دو ہی سال کے تھے کہ 1880 ء میں والد عبد العلی خان کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔جس کے بعد آپ کی پرورش آپ کی والدہ ماجدہ نے کی۔ جو ایک باہمت ، با حوصلہ اور دانش مند خاتون تھیں۔ اور جنھیں تاریخ ’’ بی اماں ‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ بی اماں نے آپ کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔آپ کے خاندان والے تعلیم کے سخت مخالف تھے۔ لیکن باوجود اس مخالفت کے آپ کی والدہ نے آپ کو ہائی سکول میں داخل کرا یا ۔جہاں آپ نے دل جمعی کے ساتھ پڑھا اور نتیجتاً آپ نے سکول کے امتحان میں صوبہ بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس نمایاں اور شاندار کامیابی پر ریاست رام پور کی جانب سے آپ کے لئے وظیفہ مقرر ہوا۔ 1898 ء میں آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کر نے کے لئے انگلستان چلے گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تاریخ میں آنرز کی ڈگری حاصل کر کے وطن واپس لوٹے۔انگلستان میں قیام کے دوران آپ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ انڈین سول سروس کا امتحان بھی پاس کر لیا۔

وطن واپسی پر پہلے آپ ریاست رام پور میں چیف ایجوکیشن آفیسر مقرر ہوئے لیکن ایک سال بعد آپ نے اس ملازمت کو خیر آباد کہا اور ریاست بڑودہ میں محکمہ افیون میں آفیسر تعینات ہوئے۔یہ وہ وقت تھا جب آپ نے ملازمت کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں بھی دل چسپی لینا شروع کی۔ 1906ء میں آپ نے مسلم لیگ کے پہلے جلسہ میں شرکت کی ۔ اور جلد ہی آپ کا شمار تحریک آزادی کی نامور شخصیات میں ہونے لگا۔آپ نے تحریک آزادی کی عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ قلمی جدوجہد بھی شروع کی۔ اور آپ کے مضامین ٹائمز آف انڈیا اور لاہور کے آبزرور میں شائع ہونے لگے۔آپ کے قلم کی کاٹ تلوار سے کہیں زیادہ تیز تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بہت جلد آپ کی شہرت بطور ادیب ہوگئی۔1910 ء میں آپ نے ملازمت کو خیر آباد کہا اور پہلے 1911 ء میں کلکتہ سے انگریزی ہفتہ روزہ ’’ کامریڈ ‘ ‘ شائع کیا اور پھر 1913 ء میں دہلی سے اردو اخبار ’’ ہمدرد ‘‘ جاری کیا۔ آپ ایک بلند پایہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شعلہ بیان مقرر ، شاعر اور سکالر بھی تھے۔

جب جنگ عظیم اول کے آغاز میں ’’ دی ٹائمز ‘‘ (THE TIMES ) لندن میں ترکی کے خلاف ایک مضمون شائع ہوا تومولانا محمد علی جوہر ؒ نے اس کا منہ توڑ جواب کامریڈ میں دیا اور جس میں آپ نے برطانوی حکومت کی زیادتیوں اور سازشوں کو بے نقاب کیا۔اس مضمون کی اشاعت پر آپ کو اپنے بھائی کے ہمراہ پانچ سال کے لئے نظر بند کر دیا گیا۔پانچ سال کے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد جب 1919 ء میں رہائی ملی تو آپ سیدھے امرتسر چلے گئے جہاں خلافت کمیٹی کا اجلاس ہو رہاتھا اور جس میں آپ کو تحریک خلافت کی قیادت کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔آپ کی قیادت میں تحریک خلافت کا وفد انگلستان گیا۔ آپ نے ترکی کی سا لمیت اور خلافت کے تحفظ کے لئے جگہ جگہ جلسے جلسوں کا انعقاد کیا ۔ اور اپنی پرجوش اور ولولہ انگیز تحریروں اور تقریروں کے ذریعے ہندوستان کے مسلمانوں کو بیدار کیا۔

1930 ء میں آپ خرابی صحت کے باوجود گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے اور اپنی تقریر میں کہا ۔ ’’ میں ایک غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا۔ اگر آپ مجھے ہندوستان کی آزادی نہیں دیں گے تو پھر آپ کو یہاں قبر کے لئے مجھے جگہ دینی ہو گی ‘‘۔ اس تقریر کے چند روز بعد یعنی 4 دسمبر 1930 ء کو آپ کا انتقال لندن میں ہوگیا اور وصیت کے مطابق بیت المقدس یروشلم میں مدفون ہوئے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 264276 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.