ماضی کے برعکس موجودہ فوجی سوچ بالکل مختلف ہے شاید یہی
وجہ ہے کہ ہمارے بہت سے سیاستدان ،صحافی اور تجزیہ کار حالات کا درست تجزیہ
اورادراق نہیں کرپا رہے ہیں۔ سابق جنرل مشرف کے مارشل لاء کے بعد پاکستانی
فوج نے بھی یہ محسوس کیا ہے کہ ہمارا کام سیاست اور حکمرانی کرنا نہیں ہے
بلکہ یہ کام سیاست دانوں کا ہے ۔ عوام جس کو ووٹ دے ان کاکام ہے کہ وہ عوام
کی خدمت کریں ، عوام کے مسائل حل کریں اگروہ یہ نہیں کرتے تو ان کا حساب
عوام انتخابات میں لیں جس طرح پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکمرانی نے پیپلز
پارٹی کو مین سٹریم سے تقریباً ختم ہی کر ڈالا۔اس طرح نون لیگ حکومت کے
ساڑھے چار سال نے پیپلز پارٹی کا بھی ریکارڈ توڑ ڈالا۔ نون لیگ حکومت اور
میاں نواز شریف کی بہت کوشش ہے کہ کسی طرح فوج درمیان میں آجائے ،حالات
کنٹرول کریں اور ہمیں غازی ہونے کا ایک اور موقع مل جائے لیکن نون لیگ کی
بدقسمتی کہ اس دفعہ ان کی یہ خواہش باوجود اداروں کو دھمکانے اور گالیا ں
دینے کے فوجی قیادت خاموش رہی ہے اور ان کا تمنا پورا نہیں ہورہاہے ۔
موجودہ گوں مگوں صورت حالات میں گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ
نے چیئرمین سینیٹ کی دعوت پر سینیٹرز کو بریفنگ دی جس میں سینیٹرز کے پوچھے
گئے تمام سوالوں کے جواب دیے گئے ۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا
کہ آرمی چیف نے ممبران اسمبلی کو آکر بریفنگ دی اور ان کے تمام خداشات پر
کھل کر بات کی۔ یہ عمل بذت خود جمہوریت اور اداروں میں استحکام کیلئے مثبت
قدم ہے۔ آرمی چیف نے واضح کیا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان
میں جمہوری عمل کے حامی ہے اور فوج سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے جبکہ
ملک اور سیاست میں عدم استحکام نہیں چاہتے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ
پارلیمنٹ اپنا کام کریں اور ہم اپناکام کریں گے ۔ پارلیمنٹ خارجہ اور دفاعی
پالیسی بنا دے ہم اس پر عمل کریں گے لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو دشمن کیلئے
خالی جگہ نہیں چھوڑ سکتے۔ انہوں نے سینیٹرز کو یہ بھی بتایا کہ پاکستان خطے
میں امن کا خواہاں ہے بھارت کے ساتھ تعلقات بھی حکومت طے کریں ہم تمام
پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم سب
کو مل کر دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے ۔ سی پیک پر سیاسی بیان بازی سے بہتر ہے
کہ ہم عملی کام پر توجہ دیں۔
آرمی چیف کے جوابات نے تمام سیاسی جماعتوں کو مطمئن کیا ۔ ملکی سیاست میں
تذبذب ،چہ مگوئیاں اور افواہوں کوختم ہونے میں آرمی چیف کے جوابات نے سیاسی
ماحول کو نیا حوصلہ دیا اور ان تمام باتوں،افواہوں کی نفی ہوئی کہ فوج
مارشل لا لگائی گی یا دوسری کوئی حکومت بنائے گی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی
میں فوج کی سیاست میں ملوث ہونا اور سیاستدانوں کا فوجی کندھوں کے استعمال
نے فوج کو بھی بدنام رکھا اور جمہوری عمل کو بھی نقصان پہنچایا جس کی وجہ
سے بہت سے لوگ ہر وقت صرف شک ہی کیا کرتے رہے ہیں۔ ان تمام معاملات جو
سیاسی ، جمہوری اور قانونی مطالبات تھے، ان پر احتجاج کے پیچھے فوج کوبدنام
کیا جاتا رہا۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ماضی کو بھولا کر مستقبل پر
غور کرنا چاہیے۔ میں ماضی کا حساب نہیں دے سکتا لیکن اپنا حساب دے سکتا ہوں
جس طرح ماضی میں ہماری فوجی سربراہوں نے غلطیاں کی ہے اسی طرح ججز نے بھی
غلط فیصلے کیے اور سیاست دانوں کے کہنے پر میرٹ کو بھی پاما ل کیا گیا ۔بد
قسمتی سے ان سب کے پیچھے ہمارے سیاستدان کسی نہ کسی طرح ملوث رہے ہیں ۔ اب
وقت کا تقاضا ہے کہ سب کومل کرنئے پاکستان میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔تاریخ
میں پہلی بار یہ دکھائی دے رہاہے کہ ایک طرف عدلیہ آزاد ہے اور میرٹ پر
فیصلے کررہی ہے تو دوسری طرف فوج کی جانب سے بھی مکمل سپورٹ کی یقین دہانی
کرائی گئی ہے ۔ اب سیاست دانو ں کو بھی اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا ۔ میرٹ کو
ترجیح دینی ہوگی ۔ پارلیمنٹ کی مضبوطی کیلئے تمام مسائل اور منصوبے
پارلیمنٹ میں ڈسکس کرنے چاہیے۔ کرپشن میں ملوث سربراہ ہویا کارکن، سب کا
حساب ضروری ہے ۔ کرپشن کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت قانون بنانا چاہیے جس
طرح چین میں ہے ۔ صرف بیانات اور باتوں سے کام اور نظام تبدیل نہیں ہوتا ۔
جمہوری نظام اس وقت ملک میں بہتر طور پر قائم ہوسکتا ہے جب جمہوریت کے
علمبردار بھی جمہوری فیصلوں اور جمہوریت پر عمل کریں۔
سینیٹ کے چیئرمین رضاربانی نے کچھ عرصہ پہلے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف
کو سینیٹ میں پنجاب سے متعلق ایشوز پر بلایا تھا لیکن انہوں نے آنے سے
انکار کیا تھا اور کہا کہ میں سینیٹ کو جواب دے نہیں ہوں اسی طرح سابق
وزیراعظم میاں نواز شریف جو آج کل جمہوریت کا رونا رو رہے ہیں اور ہرطرف
صرف ان کو سازش ہی سازش نظر آرہی ہے ۔ وہ اپنے چار سالہ دور میں سینیٹ میں
صرف دو بار آئے وہ بھی چیئرمین سینیٹ نے قانون میں تبدیلی کی کہ وزیراعظم
کو سینیٹ میں آنا پڑ ے گا لیکن میاں صاحب نے قانون کو بالائے طاق رکھا۔ سچ
تو یہ ہے کہ جس اسمبلی نے ان کو منتخب کیا جس کیلئے آج وہ ہر روز اداروں پر
تنقید کرتے ہیں اس اسمبلی میں بھی وہ لندن وزٹ سے کم گئے ۔میاں نواز شریف
صرف اس وقت اسمبلی جاتے جب ان کو سیاسی مسئلہ درپیش ہو جاتا ۔ یہ ہے وہ
حقائق جس سے آنکھیں بند کرکے بدلا نہیں جاسکتا ۔
ماضی میں سب نے غلطیاں کی ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ماضی کو بھلاکر مستقبل
کیلئے منصوبہ بندی کی جائے اور آج کے حکمران ، آرمی چیف اور چیف جسٹس سے
ماضی کا حساب نہیں بلکہ آج کا حساب لیا جائے ماضی میں اگر مشرف نے برا کیا
یا پیپلز پارٹی نے تباہی مچا دی تو اس کی ذمہ دار نون لیگ حکومت نہیں بلکہ
نون لیگ حکومت اپنے کیے کی سزاوار ہوگی ۔ان کو پیپلز پارٹی حکومت کے تانے
نہیں دیے جاسکتے اسی طرح آرمی چیف اور چیف جسٹس کو بھی ماضی کے تانے نہیں
دیے جاسکتے۔ تمام ادارے اپنے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں تو ملک وقوم کی
ترقی آسانی ہوگی۔
|