گو اس وقت ن لیگ اپنی مختصر تاریخ کے شدید ترین بحرانی
دور سے گذر رہی ہے،گو کہ لیگی چاہے حکومت میں ہیں یا حکومت سے باہر سخت
دبائع کا شکار ہیں مگر اس سب کے باوجود اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ وہ اس
جماعت اور اس کی قیادت کو سیاسی منظر نامے سے غائب کر دے گا تو اسے چاہیے
کہ یقیناً کسی اچھے دماغی معالج سے اپنا معائنہ کرائے،اپنی جگہ یہ بات بھی
عیاں ہے کہ لیگی حکومت اپنے پانچ سالوں میں اس طرح ڈلیور نہیں کر سکی جس کی
عوام کو توقع تھی مگر جو کچھ انہوں نے کیا وہ بھی کسی نہ کسی حد تک قابل
ستائش ضرور ہے،ریلوے کی مچا سب کے سامنے ہے کہ کہاں ٹرین دس دس گھنٹے لیت
ہوتی ھی اور کہاں آج اچھے خاصے متول گھرانوں کے لوگ بھی ریلوے کے سفر کو
عام گاڑی کی نسبت بہتر اور محفوظ تصور کرنے لگے ہیں،اس کے علاوہ سب سے بڑا
اور پاکستانی قوم کا سدا بھار مسئلہ بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ ہے جو آج
سابقہ ادوار سے بدرجہا بہتر ہے یقیناًس تسلی بخش بھلے نہ سہی تاہم حوصلہ
افزا ضرور ہے اس کے علاوہ وہ وقت بھی بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا جب سی این
جی اسٹیشنز کے باہر لگی ہوئے لائنوں کو لوگ دیوار چین اور چاند پر سے نظر
آنے والی قطار سے تشبیہ دیتے تھے،اس کے علاوہ بڑے شہروں میں میٹروز اور
موٹر وے کوئی لاکھ تنقید کر لے عام آدمی اس کو سننے کو گوارا نہیں کرتا
کیوں کہ روزانہ لاکھوں افراد سستی میٹرو اور موٹر وے سے سفر کرتے ہیں ،تاہم
اس سب کے باوجود ن لیگ کو کلین چٹ نہیں دی جا سکتی کہ اس سب کے باوجود
کرپشن کی بھی لازوال اور ہوشربا داستانوں کی حالت یہ ہے کہ وزیر خزانہ تک
مفرور ہے اس جماعت کا،لوگ کبھی بھٹوز سے پیار کرتے تھے آج کوئی کچھ بھی کہہ
لے میاں نواز شریف بحرحال ایک عوامی شخصیت ہیں اور اپنی جڑیں عوام میں
رکھتے ہیں کہ آج بھی اگر کہیں بھی جلسہ عام کا اعلان ہو جائے جس سے نواز
شریف نے خطاب کرنا ہو تو ایک اچھی خاصی بڑی تعداد صرف ان کو دیکھنے کے لیے
جمع ہو جاتی ہے کسی کو اختلاف ہے تو ضرور کرے تاہم موازنہ کر کے دیکھ لے کہ
اگر کہیں ایک طرف زرداری کا خطاب ہو دوسری طرف چوہدری شجاعت واعظ فرما رہے
ہو ں اور کسی کونے میں میاں نواز شریف کی آمد ہو تو فرق واضح خود بخود ہو
جائے گا،اچھائی برائی ہر جماعت او ر لوگوں میں ہوتی ہے پی ٹی آئی کے پاس گو
قیادت نیٹ اینڈ کلین ہے مگر دائیں بائیں موجود لوگوں کے بارے میں کیا کہا
جائے،اگر ن لیگ کا صدر کرپٹ ہو کر نااہل ہو گیا تو پی ٹی آئی نے کیوں ایک
کرپٹ اور نااہل کو اتنا عرصہ جنرل سیکریٹری بنائے رکھا،کیا کسی جماعت میں
صدر اور جنرل سیکریٹری کے علاوہ بھی کوئی کلیدی عہدہ ہوتا ہے،مگر یہ
پاکستانی قوم کی قسمت کہ دستیاب مال یہی ہے اور اسی سے انہیں اگلے ایک لمبے
عرصے تک کام چلانا ہے،پی ٹی آئی کو اور کہیں سے نقصان پہنچے نہ پہنچے ان
میں شامل کرپٹ عناصر اور لیڈروں کا انداز تخاطب کافی ہے نہ جانے اس جماعت
میں میچورٹی کب آئے گی استثناء ضرور ہے کچھ اچھے لوگ بھی ہیں مگر اکثریت دے
مار اور ساڑھے چار کی ہے،ن لیگ کو اس لحاظ سے کسی حد تک اخلاقی برتری ھاصل
ہے کہ ان کے لیڈران کی زبان میں کسی نہ کسی حد تک شائستگی ضرور ہے اور اسی
کا وہ کریڈٹ لیتے ہیں،ماضی قریب کے بلدیاتی الیکشن ہو ں یا ماضی بعید کے
جنرل الیکشن بظاہر شرافت اور معصوم صورت بنا کر میاں برادران نے اچھے خاصے
ووٹ اکٹھے کیے ہیں،پورے ملک میں اس وقت جو حالات چل رہے ہیں ان میں ن لیگی
اگر پوری ثابت قدمی سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہے تو اس کی واحد وجہ میاں
برادران کے ساتھ ایک بڑی تعداد ان جانثاران کی ہے جو ہر اچھے برے وقت میں
ان کے ساتھ رہے یہ الگ بات ہے کہ میاں صاحب نے قدر ان لوگوں کی بجائے مشرف
باقیات کی جس کا نتیجہ آج میاں صاحب بھگت بھی رہے ہیں،اپنے ہاں یعنی چکوال
میں بھی ن لیگییوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور چکوال کو ن لیگ کا قلعہ
بھی کہا جاتا ہے یہ ہمیشہ سے ن لیگ کا ہی گڑھ رہا ہے اور کوئی بھی سیاسی
جماعت میاں صاحبان کے ووٹ میں کبھی بھی کوئی بڑی نقب نہیں لگا سکا پی ٹی
آٗئی نے ضرور ایک اچھی کوشش کی ہے تاہم منزل مقصود سے ابھی یہ جماعت بھی کم
از کم یہاں پر کوسوں دور ہے اس کے علاوہ سردار غلام عباس ہیں جن کا اپنا
ایک لاگ دھڑا اور ووٹ بنک ہے،چکوال میں ن لیگ کی مظبوطی کا سہر ا مرحوم ایم
پی اے چوہدری لیاقت علی کان کے سر ہے کہ جنہوں نے ہر کڑے وقت میں چٹان کی
طرح میاں برادران کا ساتھ دیا،ایک ان کی کمٹمنٹ اور اپنے موئقف پر ڈٹ جانا
اور دوسرا خالصتاً عوامی طرز سیاست یہ دو بنیادی فیکٹرز ہیں کہ چکوال کے
لوگوں نے ہمیشہ چوہدری لیاقت کی صورت میں ن لیگ پراندھااعتماد کیا،چند ماہ
قبل جب چوہدری لیاقت راہی عدم ہوئے تو ان کے جنازے نے انہیں چکوال کا ایک
بڑا عوامی لیڈر ثابت کر دیا،اب ان کے بعد ان کے فرزند چوہدری حیدر سلطان
میدان سیسات میں ہیں یہ س لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ایک اچھا خاصا وقت ان کو
اپنے باپ کے سایہ شفقت میں گذارنا نصیب ہوا اور چوہدری لیاقت نے ان کی
سیاسی تربیت کی ہے جس کا حیدر سلطان نہایے ٹھیک ٹھیک استعمال کر رہے ہیں،اب
ضمنی الیکشن میں قرعہ فال حسب توقع حیدر سلطان کے نام نکلا ہے اور یہ بالکل
درست فیصلہ ہے کیوں کہ ن لیگ کی کشتی اس وقت بھنور میں ہے اور اس الیکشن
میں حیدر سلطان کی جیت اس ہچکولے کھاتی کشتی کے لیے بہت بڑا سہار ثابت ہو
گی ،کیوں کہ جیت چاہے چھوٹی ہی کیوں نہ ہو ایک بار مورال کو آسمان پر پہنچا
دیتی ہے،حیدر سلطان اس الیکشن کو چیلنج سمجھ کر دن رات ایک کیے ہوئے ہیں
کیوں کہ یہ ان کی زندگی کا پہلا الیکشن ہے اور یہ ان کی آئندہ سیاسی زندگی
کی سمت کا تعین کر دے گا،اس کے علاوہ میجر طاہر اقبال اور سردار غلام عباس
بھی اس الیکشن کو زندگی موت کا مسئلہ بنائے ہوئے ہیں لہٰذا کسی کو ن لیگ کی
جیت میں کوئی شبہ ہو تو ہمیں کم از م کسی بھی قسم کا کوئی شبہ نہیں اور قبل
از وقت یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ پی پی بائیس کی سلطانی چوہدری حیدر سلطان کے
حصے میں آئے گی اور ی کامیابی پندرہ سے بیس ہزار کے مارجن سے ہو گی،میرا
ذاتی اور صحافتی تجزیہ اور تجربہ ہے غلط بھی ہو سکتا ہے اور اس سے اختلاف
بھی ممکن ہے،تاہم اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو بھی اس ملک اور عوام کے حق میں
بہتر ہو،،،اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔ |