کرسمس ٹری… تاریخ کے آئینہ میں

مہمان سامنے پڑی رنگین چھڑیاں بڑی دل چسپی سے دیکھ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا، انہیں دستر خوان پرکیوں سجایا گیا ہے؟ جب کھانا کھا لیا گیا ، برتن سمیٹ لیے گئے اور تھوڑی دیر بعدیہ چھڑیاں بھی اٹھائی جانے لگیں تو اس نے پوچھ ہی لیا : ’’ان چھڑیوں کا کیا مصرف ہے؟‘‘ میزبان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’یہ چھڑیاں ہماری ثقافت اور روایات کا حصہ ہیں۔ جب بھی کوئی معزز مہمان آتا ہے تو ہم اس کے اعزاز میں کھانے کے ساتھ یہ چھڑیاں بھی رکھتے ہیں۔‘‘ ’’لیکن انہیں دسترخوان پر رکھنے کی کوئی لاجک تو ہوگی؟‘‘ مہمان نے پوچھا ۔ ’’ہاں اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا لیکن ہمیں معلوم نہیں ہے۔‘‘ میزبان نے جواب دیا۔

مہمان تجسس میں پڑ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک ضعیف العمر شخص مجلس میں آیا تو مہمان نے اس کے سامنے بھی یہی سوال رکھا۔ ضعیف شخص بھی سوال سن کر مسکرانے لگا۔ پھر بتایا کہ ’’یہ چھڑیاں ایک سادہ سے عمل کی جدید ترین صورت ہیں۔ دراصل ہمارے اکابرین کی خدمت میں جب کوئی مہمان آتا تو اس کے سامنے سرکنڈا رکھا جاتا تھا۔ تاکہ جب وہ کھانا کھا کر فارغ ہو تو اس سرکنڈے سے اپنی مرضی کا تنکا توڑ کر دانتوں کا خلال کر سکے۔ رفتہ رفتہ سرکنڈے کی جگہ لکڑی اور اب یہ رنگین چھڑیاں رکھی جاتی ہیں۔ خلال والا مقصد فوت ہو گیا ہے اور دکھلاوا باقی رہ گیا ہے۔‘‘

کرسمس ٹری کے بارے میں جب اپنے کرسچین دوستوں سے پوچھا گیا کہ اس کا کیا مقصد ہے؟ اور اس کی ابتداء کیسے ہوئی؟ تو ان کا جواب تھا: ’’اس کے بارے میں کئی روایات ہیں۔ پہلی روایت یہ ہے کہ جرمنی میں عیسائیت کے فروغ کے لیے مشنریاں متحرک تھیں۔ ایک پادری شاہ بلوط کے درخت کے سائے میں بیٹھا تبلیغ کر رہا تھا۔ نصیحت کا رُخ اس جانب مڑ گیا کہ درختوں میں فضیلت اور تبرک نہیں ہوتا۔ بیان ختم ہونے پر لوگوں نے شاہ بلوط کا وہ درخت گرا دیا جس کے نیچے پادری بیان کر رہا تھا۔ حُسنِ اتفاق کہ اس گرے ہوئے درخت کے قریب ایک اور چھوٹا سا درخت اگ آیا۔ لوگوں نے اسے عیسی علیہ السلام کا معجزہ سمجھ لیا اور اس کی یاد میں اپنے اپنے گھروں میں بھی درخت لگانے لگے۔ جو لوگ شاہ بلوط کے درخت اپنے گھروں میں اگانے میں کامیاب نہ ہو سکے، وہ مصنوعی درخت لگا کر کام چلانے لگے۔ کچھ عرصہ بعد یہ مصنوعی درخت کرسمس کے موقع پر خاص طور پر سجائے جانے لگے۔ پھر جاذب نظر بنانے کے لیے انہیں سنہری زنجیروں، گھنٹیوں، سرخ گولوں، سرسبز پتیوں، چکردار شمعوں، تاروں اور مختلف رنگین اشیاء سے سجایا جانے لگا۔‘‘

دوسری روایت کے مطابق کچھ لوگ زیتون کے درخت کے قریب بیٹھ کر پادریوں کا بیان سنا کرتے اور جب گھروں کو جانے لگتے تو زیتون کی شاخیں اپنے گھر لے جاتے۔ اس طرح کرسمس ٹری کی ابتداء ہوئی۔ تیسری روایت کے مطابق لٹویا کے شہر ریگا میں1510ء میں سب سے پہلا کرسمس ٹری لگایا گیا۔ بہرحال اس کی ابتداء جیسے بھی ہوئی ہو۔ شروع میں یہ بہت سادہ سی چیز تھی۔ لوگ اپنے گھروں میں شمعیں روشن کرتے، میٹھی اشیاء اور کھلونوں سے اپنے بچوں کا دل بہلاتے۔24تا 25دسمبر کی شب یہ درخت مذہبی اہمیت کا حامل ہوتا۔ لیکن جب کھیل ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ آیا تو اسے بھی کمرشلائز کر دیا گیا۔ نئے نئے آئیڈیاز سوچے گئے اور لوگوں کو اسے خریدنے پر آمادہ کیا گیا۔ 1882ء میں تھامس ایڈیسن کمپنی کے ڈائریکٹر ایڈورڈ جانسن نے سب سے پہلے کرسمس ٹری کو کمرشل سطح پر پیش کیا۔ اس پر موم بتیاں لگائیں، موسیقی کا استعمال کیا اور پھر کچھ ہی عرصے بعد اس شجرہ کے نزدیک رقص و سرود اور شراب و شباب کی محفلیں سجا دیں۔ 1890ء تک یہ کاروبارحیرت انگیز طور پر پھیل گیا۔

اب کرسمس ٹری بزنس کا شمار دنیا کے مہنگے ترین کاروباروں میں ہوتا ہے۔ امریکہ میں کرسمس ٹری کے بارہ ہزار فارم ہیں جو دس لاکھ ایکڑ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک لاکھ آدمی اس کاروبار سے وابستہ ہے۔ جاپان میں روپونگی کے پہاڑوںپر ساٹھ کے قریب کرسمس ٹری لگائے جاتے ہیں جنہیں مختلف قسم کی ایل ای ڈیز سے روشن کیا جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ اس کے نظارے کے لیے چوبیس دسمبر کی شام وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ 2010ء سے پہلے تک مہنگے ترین کرسمس ٹری کا تعلق بھی جاپان سے تھا۔ دنیا کا مہنگا ترین کرسمس ٹری اس سال ابو ظہبی میں لگایا گیا ہے۔ جس کی قیمت گیارہ بلین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ یہ سونے کی پتیو ں سے سجایا گیا ہے۔نیز زیورات، ہار، بریسلٹ، قیمتی ہیرے اور جواہرات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت چین سب سے زیادہ اس کاروبار سے کما رہا ہے۔ جو پوری دنیا میں کروڑوں ڈالرز کے تارے، سبز و سرخ رنگ کی جاذب نظر اشیائ، کینڈل لائٹس، فرشتوں کی خیالی تصاویر، سانتا کلاز کے ماسک وغیرہ سپلائی کرتا ہے۔
 
کرسچین عقائد کے مطابق کرسمس ٹری سیدنا عیسی علیہ السلام کی زمین پر آمد کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ کچھ مفاد پرست لوگ محبینِ مذہب کے معصوم جذبات سے کھیلتے ہیں۔ انہیں مذہب کے نام پر زیادہ سے زیادہ خریداری پر مجبور کرتے ہیں۔انہیں ایسی اشیاء بھی بیچ دی جاتی ہیں جن کا کوئی دینی مقصد نہیں ہوتا۔ مذہبی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے اپنا کاروبار بڑھایا جاتا ہے۔ خواہ اس سے کسی کا نقصان ہی کیو ں نہ ہو رہا ہو۔ اب یہی دیکھ لیں صرف برطانیہ میں ستر لاکھ کرسمس ٹری بنائے جاتے ہیں۔ جن پر 150ملین پاؤنڈ خرچ ہو جاتے ہیں۔ 200ملین پاؤنڈز کے تو صرف بلب اور چھوٹی لائٹس ہی نصب کی جاتی ہیں۔ صرف ایک کرسمس ٹری پر ایک ہزار پاؤنڈ یعنی ایک لاکھ ستر ہزار کی بجلی خرچ ہو جاتی ہے۔ چودہ ارب ڈالر کی شراب خریدی جاتی ہے۔ باقی خرافات اس کے علاوہ ہیں۔ حالاں کہ بائبل کا حکم تھا ’’کسی درخت کو کاٹ کر اسے مصنوعی طریقے سے زمین میں نہ گاڑا جائے۔‘‘ لیکن عیسائی مذہب کے ماننے والے اپنی ہی کتاب سے انحراف کے ہر سال مرتکب ہو رہے ہیں۔ جیسے ہمارے مسلمان اپنے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش کے حوالے سے اب مرتکب ہونا شروع ہوئے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا شکار ہو کر کچھ عرصے سے مسلمان بھی لائٹنگ اور مصنوعی حرمین بنا کر انہیں فائدہ پہنچا رہے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ’’میری امت پچھلی امتوں کے نقش قدم پر چلے گی۔ حتی کہ اگر وہ کسی بل میں داخل ہوئے تھے تو یہ بھی اسی بل میں داخل ہوگی۔‘‘ (مفہومِ حدیث)
٭٭٭

 

Abd-us-Saboor Shakir
About the Author: Abd-us-Saboor Shakir Read More Articles by Abd-us-Saboor Shakir: 53 Articles with 99345 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.