طائف کی وادی ہے دنیا کا سب سے عظیم انسان بے سرو سامی کے
عالم میں اہل طائف کی سنگباری کا سامنا کر رہا ہے زخموں سے چور ہے بدن
مبارک سے خون رس رس کر نعلین مبارک میں آ رہا ہے اور طائف کے اوباش ہیں کہ
سنگ باری کیے جاتے ہیں اور زخم لگائے جاتے ہیں ۔ اسی حالت میں آپﷺ واپس چل
پڑتے ہیں اور کچھ دور جانے کے بعد آپﷺ نے نظر اُٹھاتے ہیں تو ایک ابر سایہ
کئے ہوئے دکھائی دیتا ہے ، اس میں سے حضرت جبریلؑ نے آواز دی:اللہ نے وہ سب
کچھ سن لیا ہے جو آپﷺ کی قوم نے آپﷺ سے کہا ہے ، اس وقت پہاڑوں کا فرشتہ آپﷺ
کے سامنے حاضر ہے، آپﷺ فرمائیں تو انھیں دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل کر رکھ
دوں ،لیکن آپﷺ نے فرمایا : "نہیں مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت
سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اس کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ
ٹھہرائیں گے"۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن کے صدقےسے آج راقم اور برصغیر پاک وہند
میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو ایمان کی نعمت میسر ہے ۔سیرت طیبہ کا یہ
واقعہ اپنی نوعیت کا حیرت انگیز واقعہ ہے چشم تصور سے دیکھیں اور خود کو اس
مقام پہ محسوس کریں ۔اگر ہمیں اس طرح تضحیک کا نشانہ بننا پڑے تو کس طرح
برداشت کریں گے ۔ لیکن سیرت کا یہ نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ رستے زخموں کے
باوجود اللہ سے امید ہے کہ یہ نہ سہی ان کی اولاد ایمان لائے گی۔ اور تاریخ
نے دیکھا کہ طائف کے بنو ثقیف کا ایک نوجوان محمد بن قاسم گھوڑے پہ سوار
پرچم اسلام لہراتا سندھ پہ حملہ آور ہوتا ہے اور اسے سرزمین ہندوستان کے
لئے باب الاسلام بنا دیتا ہے ۔ اس کے بعد مبلغین ، فاتحین اور مصلحین یہاں
کا رخ کرتے ہیں اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں ۔نبی ﷺ کی
سیرت طیبہ میں عفو و درگزر کے اس وصف کو دیکھتے ہیں تو صورت مصطفی ٰ ﷺ بیان
کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ نبی ﷺ کا حسن خلق انکے جمال کو بیان کر دیتا
ہے ۔مکی زندگی کا مطالعہ کیا جائے یا مدنی زندگی کا مطالعہ کیا جائے عفو و
درگزر کا یہ معاملہ اس قدر واضح نظر آئے گا کہ ذات اقدس ﷺ کو سراپا عفو و
درگزر کہا جائے تو ہرگز مبالغہ نہ ہو گا۔
مرور زمانہ منظر بدل دیتا ہے فتح مکہ کا دن ہے نبی ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ
اجمعین کی معیت میں مکہ میں داخل ہوتے ہیں ۔ اہل مکہ کو اپنے جرائم سامنے
نظر آ رہے ہیں ۔ ہر کوئی خوف میں مبتلاہے ۔ اہل مکہ نے جہاں انہیں ستایا
تھا، راستے میں کانٹے بکھیرے تھے اور پتھر مارے تھے۔ بیت اللہ میں سجدے میں
حالت سجدہ میں حضور گرامی کی کمر مبارک پر اوجڑی رکھی گئی تھی۔ گلے میں
چادر ڈال کر ”گل گھوٹو“ دینے کی کوشش کی تھی۔ اس شہر سے حضورﷺ کی لخت جگر
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس حال میں نکلنے دیا گیا تھا کہ ان کی
سواری کو بدکایا گیا۔ وہ گریں اور آنے والے نومولود سے محروم ہو گئیں۔
صحابہ کرام اور صحابیات کو ستایا گیا۔ پھراسی پہ اکتفا نہ کیا بلکہ ہجرت کے
بعد بھی مدینہ منورہ پر متواتر حملے کئے گئے۔ معرکے کئے گئے ۔ ایسے شہر کے
ساتھ فاتحین وہی کچھ کرتے ہیں جو انسانی تاریخ کا حصہ ہے قتل و غارت کی
جاتی ہے ۔ لاشوں کے انبار لگتے ہیں، رشتوں کا کوئی خیال اور لحاظ نہیں ہوتا۔
عورتیں ،بچے، بوڑھے ، ناتواں بے دریغ مارے جاتے ہیں۔عزتیں پامال ہوتی ہیں ،
شہر برباد اور اس کی گلیاں خون سے رنگین ہوتی ہیں ۔ مگردنیا کے اس عظیم
فاتح حضرت محمدﷺ نے تو ایک نئی تاریخ رقم کی جس نے فتح کا مفہوم اور معنی
ہی بدل دیئے۔ اس کو اک نئی پہچان دی، امن و سلامتی اور عفوودرگزر کی پہچان۔
حضورﷺ نے طاقت و قوت حاصل ہونے کے باوجود مکہ میں امن سلامتی کا پیغام
دیا۔اہل مکہ نے یہ اعلان سنا کہ جو اپنے گھروں میں ہے اسے امان ہے ، جو حرم
کعبہ میں ہے اسے امان ہے اور جو ابو سفیان کے گھر میں ہے اسے امان ہے ۔ پھر
عام معافی کا اعلان کیا گیا اور کہا کہ میں آج تمہارے ساتھ وہی سلوک کروں
گا جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا ۔ اس موقع پر ایک واقعہ
اور پیش آیا۔ انصار کا پھریرا حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس تھا۔ وہ ابو سفیان
کے پاس سے گزرے تو بولے:اليوم يوم الملحمة ، اليوم تستحل الحرمة ، اليوم
أذل الله قريشاً ''آج خونریزی اور مار دھاڑ کادن ہے۔ آج حرمت حلال کرلی
جائے گی آج اللہ نے قریش کی ذلت مقدر کردی ہے۔اس کے بعد جب وہاں سے رسول
اللہﷺ گزرے تو ابو سفیان نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ نے وہ بات نہیں
سنی جو سعد نے کہی ہے ؟ آپ نے فرمایا :سعد نے کیا کہا ہے ؟ ابو سفیان نے
کہا: یہ اور یہ بات کہی ہے۔ یہ سن کر حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف
رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں سعد
قریش کے اندر مار دھاڑ نہ مچا دیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اليوم يوم
المرحمة ، اليوم يعز الله قريشاً ، ويعظم الكعبة نہیں بلکہ آج کا دن رحمدلی
کا دن ہے ۔ آج کا دن وہ دن ہے جس میں اللہ قریش کو عزت بخشے گا آج کے دن
کعبہ کی تعظیم کی جائے گی ۔ اس کے بعد آپ نے حضرت سعد کے پاس آدمی بھیج کر
جھنڈا ان سے لے لیا اور ان کے صاحبزادے قیس کے حوالے کردیا۔
ان دونوں واقعات میں نبی ﷺ کی عفو و درگزر کی خوبی جھلکتی ہے ۔ طائف میں آپ
کمزور تھے لیکن پھر بھی معاف فرمایا فتح مکہ کے وقت آپ طاقتور تھے پھر بھی
دشمنوں کو معاف فرمایا۔طائف میں زخموں سے چور تھے پھر بھی سراپا رحمت تھے
اور یہاں فتح سے مسرور تھے تب بھی سراپا رحمت ۔ حالت غم میں بھی معاف کردو
چھوڑ دو کی پالیسی اور حالت خوشی میں بھی یہی ادا۔ داعی کی حیثیت سے بھی
مہربان و مشفق اور ایک سپہ سالار اور فاتح کی حیثیت میں بھی نرم دل نرم خو
۔ یہی خوبی تو ہے جو رب العالمین انہیں رحمۃ للعالمین کا خطاب دیتے ہیں ۔
نبی ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو امت کے لئے نمونہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا مطلوب
انسان یہی نمونہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کی ذات میں موجود ہر وصف کو امت
محمد میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے
وَمَآ آتُکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَھٰکُم عَنہُ فَانتَھُوا۔
اور جو کچھ رسول تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع
فرمائیں سو(اُس سے) رک جایا کرو۔
(القرآن، الحشر، ۵۸: ۷)
سیرت کے بیان کا مقصد محض واقعات کا بیان نہیں ہوتا بلکہ اپنی عملی زندگی
کو سیرت کے اس آینے میں دیکھنا اور اسے سیرت کے مطابق ڈھالنااسکااصل مقصد
ہے ۔عفو و درگزر کے موضوع کے تحت کئی واقعات نقل کیئے جاسکتے ہیں ۔ لیکن
یہاں انہی دو واقعات کا ذکر ہی کافی ہے ۔ کہ یہ دونوں واقعات مشکل اور آسان
دونوں طرح کی صورتحال میں رہنمائی کا ذخیرہ ہیں ۔فقر اور شاہی دونوں صورتوں
میں سیرت کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو عفو و درگزر کا پیکر ہونا
چاہئیے ۔
ہمارا رب ہمیں عفو و درگزر کی کس معراج پہ دیکھنا چاہتا ہے وہ سیرت رسول ﷺ
کی زندگی کے ان دو واقعات سے عیاں ہے۔شمع رسالت کی روشنی میں خود کو دیکھیں
کہ ہم کس مقام پہ کھڑے ہیں ۔ معیار مطلوب سے کتنا قریب اور کتنا دور ہیں ۔
دعوت کے میدان میں داعی بن کر نکلتے ہیں تو اپنے مسلک کی دعوت دیتے ہیں اور
دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں دعوتی میدان
میں جتنی بھی جماعتیں اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان سے وابستہ افراد اسلام
سے زیادہ اس تنظیم یا جماعت یا مسلک کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں ۔ جو لوگ ان
کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں انہیں تو جنتی مان لیا جاتا ہے اور جو نہ مانیں
انہیں ایمانداروں کے درجے میں رکھا ہی نہیں جاتا۔ جہاد کا نام لے کر مجاہد
بن کر نکلتے ہیں تو ہمارا اسلحہ اپنے ہی بے گناہ مسلمانوں کے خون کی ندیاں
بہا دیتا ہےشام و عراق کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بنے
ہیں اسی طرح عاقبت نااندیش لوگ کبھی خودکش حملوں کے ذریعےاور کبھی دیگر
ذرائع سےبے گناہ افراد کی جان لے لیتے ہیں ۔ علم کے میدان میں اترتے ہیں تو
دستار فضیلت سجاتے ہی دوسروں کی تکفیر کے فتوے صادر کرنا شروع کر دیتے ہیں
۔ اور پھر اسی پہ اکتفا نہیں ہوتا بلکہ جو نہ مانے وہ بھی کافر کی رٹ لگا
دیتے ہیں ۔ اور ان فتاوی ٰ کو سن کر معتقدین ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن
جاتے ہیں ۔ انفرادی طور پہ ہر شخص گھر میں ، دفتر میں اور اپنے کاروباری
میدان میں دوسرے شخص کے استحصال میں ملوث ہے ۔ استاد شاگرد کی تادیب کی
اجازت دی جائے تو شاگردوں کو مار مار کر ادھموا کیا جاتا ہے اور اگر اجازت
نہ دی جائے تو شاگرداساتذہ کے ناک میں دم کر دیتے ہیں ۔ اسی طرح آجر و اجیر
ایک دوسرے کا استحصال کر رہے ہیں ۔ جان کا کام قانون نافذ کرنا ہے وہ اس پہ
عملدرامد کرتے نہیں اور عام افراد قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے کبھی کسی
کو چوری کے جرم میں مار دیتے ہیں ، کبھی غیرت کے نام پہ قتل کرتے ہیں کبھی
توہین رسالت مآب کے نام پہ انسانی جانوں سے کھیل لیا جاتا ہے ۔
معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ اس قدر فروغ پا چکا ہے کہ اس کے خلاف بات
کرتے ہوئے بھی موت کا خوف غالب آ جاتا ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ بہترین
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں ۔ لیکن
آج کے مسلمان کی زبان سے اور اس کے ہاتھ سے دیگر مسلمان تکلیف اٹھاتے ہیں ۔
گالی گلوچ کرنے سے ہمارا دین ہمیں روکتا ہے اور نبی ﷺ نے اسے نفاق کی ایک
علامت گردانا ہے ۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم دینی معاملے میں بھی گالم
گلوچ سے باز نہیں آتے بلکہ تکفیر مسلم تک جا پہنچتے ہیں ۔ ناموس رسالت پہ
لوگ جان دینے اور جان لینے کو تیار نظر آتے ہیں لیکن سیرت رسول پہ عمل کرنے
کو تیار نظر نہیں آتے ۔بقول شاعر
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے درو بام کو تو سجا دیا
عفو و درگزر پہ بات کو سمیٹنے سے پہلے ایک اور واقعے کا ذکر ضروری ہے ۔ فتح
مکہ میں جہاں عام معافی کا اعلان ہوا وہیں چار افراد کے قتل کا حکم بھی
صادر ہوا اور بارگاہ رسالت ﷺ سے ہدایات جاری ہوئیں کہ اگر ان افراد کو غلاف
کعبہ کے ساتھ لپٹا پاؤ تب بھی انہیں وہیں قتل کر دو ۔ ان میں سے دو کو تو
قتل کر دیا گیا ۔ اور دو مفرور ہو گئے ۔ حضرت عکرمہ ؓبن ابی جہل اور حضرت
کعب ؓبن زہیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ایمان قبول کرنے کے لیئے
بارگاہ رسالت میں حاضری کا ارادہ کیا تو یہی اعلان آڑے آیا ۔ ان دونو ں
اصحاب نے علیحدہ علیحدہ ایمان قبول کیا ۔ دونوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو
ضامن بنایا اور نبی ﷺ تک رسائی حاصل کی ۔ نبی ﷺ نے دونوں کو معاف فرمایا ۔
یہ نبی مہربان کے عفو و درگزر کا ایک مظہر ہے ۔ لیکن یہاں امت کے کردار اور
رویے کو بھی ملاحظہ فرمائیں کہ سینکڑوں لوگوں نے حضرت ابو بکر ؓ کو کعب ؓ
کا ہاتھ پکڑے یا عکرمہ ؓ کا ہاتھ پکڑے مدینہ کی کسی گلی سے گزرتے دیکھا ہو
گا ۔ لیکن کسی نے انہیں غدار نہیں کہا کوئی ان پہ حملہ آور نہیں ہوا ۔ کسی
نے یہ نہیں کہا کہ ابو بکر ؓ نے دشمن رسول کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال رکھا ہے ۔
اور نہ ہی کسی نے خود کو نبی کریم ﷺ کا مقرب کرنے کے لئے عکرمہ یا کعب پہ
تلوار اٹھائی ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ قتل کرنے کا حکم دیا ہے تو اس کی ذمہ داری
کچھ لوگوں پہ عائد کی ہے ہر کوئی قتل کا مجاز نہیں تھا ۔ اسی طرح آج بھی
گستاخ رسول اور شاتم رسول کی سزا موت ہی ہے لیکن ہر کوئی اسے نافذ کرنے کا
مجاز نہیں ۔ مسلم معاشرے اور مسلم حکومت کے تحت صرف قانون کے اہلکار اس سزا
کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں ۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو اللہ کی
عدالت پہ چھوڑ دینے کا حکم ہے جس سے کوئی گناہگار بچ نہیں سکتا۔
سیرت رسول اقدسﷺ میں عفو و درگزر کا پہلو آج کے مسلم معاشرے میں عام کرنے
کی ضرورت ہے ۔ علمائے کرام اور اساتذ ہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پہلو کو
خوب نمایاں کریں ۔ خطباء حضرات اپنے خطبوں میں اس کو اجاگر کریں ۔ ریاستی
ادارے اسے اپنی پالیسی کا حصہ بنائیں اور اس پہلو کو اپنی انفرادی اور
اجتماعی زندگی کا جزو بنائیں ۔یہی ایک راستہ ہے کہ ہم نہ صرف اپنے معاشرے
سے بلکہ تمام دنیا سے انتہا پسندی ، شدت پسندی اور دہشت گردی کو ختم کر
سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی ﷺ کے اسوہ کاملہ کا اپنانے کی توفیق عطا
فرمائے ۔ آمین۔
|