زندگی سے بڑھ کر کچھ بھی پیارا نہیں۔
زندگی میں زندگی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔
ایک انسان سب سے زیادہ پیار اپنی زندگی سے کرتا ہے۔
اگر وہ خوش ہے تو زندگی سے ہے اور اگر وہ غمگین ہے تو زندگی سے ہے۔
صرف خوشی سے بھی انسان بور ہو جاتا ہے ،اکتا جاتا ہے اور غمگین ہو جاتا ہے۔
یہ خوشی اور غمی کی آمیزش ہی زندگی ہے ۔ اسی سے زندگی میں نکھار پیدا ہوتا
ہے ، زندگی سنورتا ہے، زندگی خوشگوارہوتا ہے۔
انسان کی زندگی میں کتنی ہی دکھ ، درد، پریشانیاں آجائے پھر بھی وہ زندگی
سے پیار کرتا ہے، زندہ رہنا چاہتا ہے۔ ہمیشہ کی زندگی چاہتا ہے۔
ہزار آلام و آزمائش کے باوجود زندہ رہنا ہی زندگی ہے۔ زندہ رہنے کی خوشی ہی
زندگی ہے۔ زندگی کی ساری خوشیاں، سارے غموں کے ساتھ زندہ رہنا ہی زندگی ہے۔
لیکن نہ ہی کوئی ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور نہ ہی زندگی باقی رہتی ہے۔ کوئی
بھی انسان اس دنیا میں ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا کیونکہ اس انسان کے خالق نے
زندگی کے ساتھ ساتھ موت کو بھی پیدا کیا ہے اور اسکی حکمت بھی بیان کر دیا
ہے:
تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
﴿١﴾ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ
أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ﴿٢﴾ سورہ ملک
’’ بہت بابرکت ہے وه (اللہ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور جو ہر چیز پر
قدرت رکھنے والاہے (1) جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں
آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وه غالب (اور) بخشنے والا
ہے (2)‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمانے کیلئے موت اور حیات کو پیدا کیا ۔
انسان ہمیشہ کی زندگی کا خواہاں ہے تو اللہ نے اسے ایک عارضی زندگی دے کر
ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ کیا ہے ، اور اس ہمیشہ کی زندگی مین یا تو انسان
ہمیشہ کیلئے جنت میں جا کر آرام و آشائش پائے گا یا جہنم میں جا کر ہمیشہ
کی عذاب میں گرفتار ہو جائے گا اوراس کا دارومدار اس عارضی زندگی کے اچھے
اور بُرے اعمال پر ہے۔
ہمیشہ کی زندگی کی خواہش انسان کی جبلت میں شامل ہے اور شیطان شروع سے ہی
انسان کی اس خواہش کو اپنی مقصد کیلئے استعمال کرتا آیا ہے۔ حضرت آدم اور
حضرت حوا علیہما السلام کو شیطان نے اسی ہمیشہ کی زندگی کی خواب سے دھوکا
دیا:
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا
مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ
الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ
الْخَالِدِينَ ﴿٢٠﴾ سورۃ الاعراف
’’ اور کہا تمہیں تمہارے رب نے اس درخت سے نہیں روکا مگر اس لیے کہ کہیں تم
فرشتے نہ بن جاؤ، یا تم ہمیشہ کی زندگی نہ حاصل کر لو (20)‘‘
فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ
شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَىٰ ﴿١٢٠﴾ سورة طه
’’ تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا (اور) کہا: آدم، بتاؤں تمہیں وہ
درخت جس سے ہمیشہ کی زندگی اور ہمیشہ کی بادشاہت حاصل ہوتی ہے (120)‘‘
آج بھی مسلم حکمرانوں کے دلوں میں مسلمانوں کا دشمن (شیطان) وسوسہ ڈالتا ہے
اور کہتا ہے :’’ زیادہ سے زیادہ مال بناؤ اور ہمارے پاس جمع کراؤ تاکہ
تمہاری بادشاہت ہمیشہ کیلئے قائم رہے‘‘۔ پھر یہ حکمراں خوب کرپشن کرتے ہیں
اور اپنے ملک و ملت کی دولت لوٹ کر دشمنوں کے قدموں میں ڈالتے رہتے ہیں ‘
اپنے ملک و عوام سے غداری کرکے ملک و ملت کے دشمنوں کو اپنا ہمدم سمجھتے
ہیں اور پھر وہی ہمدم ایک دن انہیں اس ملک (جنت) سے نکلوا دیتے ہیں جس طرح
شیطان نے حضرت آدم ؑ کو جنت سے نکلوایا تھا۔۔ لیکن کوئی عبرت نہیں پکڑتا۔
تحریر : محمد اجمل خان
|