اس مین کوئی شک نہیں کہ ہمارے زمانے میں جسے عریانی جنسی
آزادی کا زمانہ کہتے ہیں اور آج کل کے ماڈرن دور میں بے پردگی عام سی بات
ہے برہنہ اور نیم عریاں لباس سکن ٹائٹ پجامیں پہن کر بازاروں
اور راستوں میں بلا ضرورت گھومنا پھرنا غیر محرموں سے میل جول اور ہنسی
مذاق کرنا غیر محرم مہمانوں کی ضیافت خود کرنا۔اور انکے سامنے آنا جانا
کوئی عیب کی بات نہیں رہ گئی یعنی لوگوں کو ہمارا پردے کے بارے میں بات
کرنا سخت ناگوار گزرتاہے یہ وہی مغرب زدہ بے لگام افراد ہیں جو عورتوں کو
زمانے کی آ زادی کا حٓصہ سمجھتے ہیں۔ کبھی یہ لوگ پردے کو گزشتہ ز مانے کی
کہانی قرار دیتے ہیں۔
لیکن ان بے لگام آزادیوں نے بے حساب قباحتوں کو جنم دیا البتہ اسلامی
مہذہبیما حول نے اس قسم کے سوال کے تسلی بخش جواب دیے گئے ہیں۔تعجب اس بات
پر ہے کہ علاقہ اور سماج کے دانشوران،
داعیاں دین،علماء کرام ، آئمہ مساجد ان چیزوں کا ر وزا نہ اپنی آنکھوں سے
مشاہدہ کرتے ہیں لیکن کبھی روک ٹوک نہیں کرتے جسکی وجہ سے بے پردگی اور بے
حیائی عام ہوتی جارہی ہے۔
سوال یہ ہے کے پردہ کی شرعی حثییت کیا ہے اور ایسے ماحول میں علماء
کرام،دانشوران، آئمہ مساجد اور عام مسلمانوں کی کیا زمہ داری بنتی ہے؟
شریعت مطاہرہ میں پردہ فرض ہے جسکی تفصیل اﷲ رب ا لعزت نے متعدد جگہوں پر
بیان فرمائی ہے ۔سورت نور آیت نمبر 31 جسکاترجمہ ـ" اور مومن عورتوں سے کہہ
دو کے وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھاکریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں
اور اپنی آرائیش(یعنی زیورکے مقامات) ظاہر نہ ہونے دیاکریں مگر جو ِان میں
سے کھلارہتاہو اور اپنے سینے پر اوڑھنیاں اوڑھے رہاکریں ـ" ٓ اﷲ رب ا لعزت
نے عورتوں کو حکم دیاہے تمھارا صحیح جائے قیام تمھاراگھر ہے۔
بیرون خانہ کی زمہ داریوں سے تمھیں اس لئے سبکدوش کیاگیا کہ تم سکون اور
وقار کے ساتھ گھروں میں رہو اور خانگی زندگی کے فرائض ادا کرو گھر سے باہر
نکل سکتی ہو لیکن بلاوجہ نہیں ناگزیر ضرورت میں بیرون خانہ بھی تمھیں اپنی
عصمت و آبرو کی حفاظت کا پورا خیال رکھنا ہو گا۔ اس لیئے ضروری ہے کہ تم بن
سنور کے نہ نکلو تمھارا حسن تمھاری زینت سب پردہ میں مستور ہو تمھارے سروں
چادر یا نقاب ہو کسی بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو سیدھے سادھے اندازمیں
بات کرو لچکدار اور رس بھری آواز میں )جولوگوں کے دلوں میں گدگدی پیدا
کرے(بات کرنے کی بلکل اجازت نہیں نگاہیں نیچی رکھو اور مرد حضرات بھی اپنی
نگاہیں نیچی رکھیں بری نظر سے بچیں۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جو عورتیں کپڑے پہن
کر بھی ننگی رہیں اور دوسروں کو رجھائیں اور خود دوسروں پر ریجھیں اور بختی
اونٹوں کی طرح ناز سے گردن ٹیڑھی کر کے چلیں وہ جنت میں ہرگز داخل نہیں
ہونگی اور نہ اسکی خشبوپائیں گی( صیح مسلم) اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے
عورت کو احترام وعزت کاتاج پہنایا۔
آج اہل مضرب شعائر اسلام میں حجاب پر پابندی کے زریعے نقاب لگاناچاہتے ہیں
عزمِِ حضر ت عائشہ رضی اﷲ تعالی کے زریعے ہی اسکو زِیر کیا جاسکتاہے۔جب
مسلمان خواتین حضرت عائشہؓ کی روشِ حجاب کو نہیں اپنائیں گی تب تک احکام
حجاب ِ شریعت پر عمل پیرا نہیں ہو ں گی۔شیاطین ِ اہل مٖغرب انہیں اسی طرح
ڈراتے اور دھمکاتے رہیں گیا۔
ایک بزرگ سچا واقعہ بیان فرماتے ہیں پڑھ کر اپنا محاسبہ کریں۔
ایک شخص چوڑیاں بیچا کرتا تھالیکن اﷲ سے بہت ڈرتا تھا اگرکوئی عورت اِسے
چوڑیاں پہنانے کے لئے کہتی تو وہ صاف منع کر دیتاکہ یہ جائز نہیں کہ نامحرم
مرد کِسی عورت کا ہاتھ چھوئے۔ اس کے گھر میں ایک نابینا بہشتی( پانی بھرنے
والا) آیا کرتاتھا وہ دروازہ کھٹکٹھاتااسکی بیوی دروازہ کھول دیتی وہ سیدھا
مٹکوں کے پاس چلاجاتااور مٹکوں میں پانی بھر کر چلاجاتااور یہ دروازہ بند
کردیتی۔ ایک دن یہ مر د دوکان پر بیٹھاچوڑیاں بیج رہا تھا ایک عورت آئی
اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر کہا کہ مجھے چوڑیاں پہنادیں اس پر نفس غالب ہوا اور
شیطان اسے بہکایااور اس نے عورت کا ہاتھ پکڑ کر چوڑیاں پہنانا شوروع کیں۔
اب یہ اسکے ہاتھ کو دبادتا اور چوڑیاں پہناتارہا اور نفس کی خواہش کی تکمیل
ہوتی رہی۔ جب شام کو دوکان بند کرکے گھر آیا تو دیکھا بیوی بیٹھی رو رہی ہے۔
اس نے استفار کیا کہ رونے کی وجہ کیا ہے تو اس عورت نے کہا مجھے بتاؤ کہ تم
نے آج ایساکون سا کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں کیا اس نے بتایا تھمیں
معلوم میں چوڑیاں بیچتاہوں ۔اور اگر مجھے کوئی عورت چوڑیاں پہنانے کا کہے
تو میں صاف منع کر دیتاہوں ۔لیکن آج ایک عورت نے مجھے بار بار چوڑیاں
پہنانے کاکہااتو اس کے گورے گورے ہاتھ دیکھ کر میں بہک گیااور اسکے ہاتھوں
کو دبا دبا کر نفس کی راحت کا سامان حاصل کرتا رہااور چوڑیاں بھی پہناتارہا
یہ وہ عمل ہے جو میں نے پہلے کبھی نہ کیا۔ یہ سن کر اسکی بیوی نے کہاآج جب
نابینا بہہشتی( پانی بھرنے والا)آیا تو میں نے دروازہ کھول دیا اس نے دائیں
بائیں ہاتھ مارنا شروع کر دیا اور کہنے لگامجھے مٹکے سجھائی نہیں دیتے۔میں
نے کہا جہاں پہلے ہوتے تھے وہیں پر رکھے ہوئے ہیں۔لیکن اسکا یہی اسرار
رہاکہ میرا ہاتھ پکڑکرمٹکوں کے پاس کردو تاکہ میں مٹکوں میں پانی بھر
سکوں۔جیسے ہی اسکے ہاتھ کی انگلی پکڑ کر مٹکوں کے قریب کرنے لگی تو اس نے
میرا ہاتھ پکڑ لیا۔اور میرا ہاتھ دبا کر اپنی طرف کھینچتا رہا جب میں نے
جھٹکا مار کر ہاتھ چھڑایا تو وہ سیدھا مٹکوں کے قریب گیا اور پانی بھر کر
گھر سے نکل گیا۔اس واقعہ کوسن کر اس شخص کی رو رو ہچکی بند گئی ۔ اور اﷲ کے
حضور سچی توبہ کی آئندہ کسی ماں بہن ،بیٹی کو چوڑیاں نہ پہناؤں گا۔تاکہ رب
العزت میری عزت کو اپنی امان میں رکھے ۔سن لواے لوگوں یہ دنیا مکافات عمل
ہے جو بوئے گا کل اسی کو کاٹے گا۔ اور حشر میں جو حال ہونا ہے وہ ہمیں قرآن
و سنت کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوگا۔آج ہم سب کی زمہ داری ہے کہ اپنے گھروں
میں ؓٓ پردہ آپ اپنے سکولوں، کالجوں ،یونیورسٹیوں میں، بازاروں میں دفتروں
بازاروں گلیوں میں ، سکول و کالج میں سمندر ساحلوں ،ہوٹلز ، ہوسٹلوں میں،
اﷲ کریم کے اس فرض حکم پر سختی پر عمل پیرا ہوں ۔ ؓٓگھروں میں دیکھ سکتے
ہیں کہ کتناہم دین اسلام پر عمل کررہے ہیں۔
|