شاہین اختر
پاکستان اسلامی دنیا میں واحد ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہے اور جس کا میزائل
پروگرام بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایٹمی پاکستان اوراس کا اسلامی
تشخص پاکستان اور اسلام دشمن طاقتوں کو ہمیشہ کھٹکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں
اسرائیل اور جنوبی ایشیاء میں بھارت کو علاقائی تھانیدار بنانے کے امریکی
پالیسیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان اور اس کی ایٹمی طاقت ہے۔
بھارت تمام تر پاکستان دشمن عزائم اور تیاریوں کے باوجود بھارتی پارلیمنٹ
پر حملے کے خود ساختہ ڈرامے کے بعد کم و بیش دس ماہ تک پاکستانی سرحدوں پر
فوجیں لے آیا لیکن اُس کو پاکستان کی ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے ہی لڑائی کی
ہمت نہیں ہوئی۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 1947سے ہی پاکستان کے معرض وجود میں آنے
کے بعد بھارت پاکستان کا دشمن بن گیا اور وہ ہر قیمت پر پاکستان کو ختم
کرنے کے درپے رہا،دراصل یہود و ہنود یہ قطعا نہیں چاہتے کہ کہ دنیا کے نقشے
پر واقع ایک چھوٹا سا اسلامی ملک پاکستان دنیا میں عزت و وقارکے ساتھ زندہ
رہے اور عالم اسلام کی قیادت کا فریضہ انجام دے ،چنانچہ وہ ہمیشہ ہی مختلف
حیلوں اور بہانوں سے پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے،بھارت کا ایٹمی
پروگرام ،امریکہ ،روس اور دیگر ایٹمی طاقتوں سے جوہری معاہدے، جدید لڑاکا
طیاروں اور،فوجی سازو سامان کا حصول اور اسلحہ کے انبار ،سب اسی سلسلے کی
کڑی ہیں، 1960کے عشرے میں جب یہ خبر یں آنی شروع ہوئیں کہ بھارت بڑی تیزی
سے جوہر ی تجربات کی سمت بڑھ رہا ہے ،اس وقت کی ہماری سیاسی قیادت جوہری
اسلحہ کے میدان میں قدم رکھنے کے حوالے سے مخمصے کا شکار تھی لیکن اس وقت
بھی ایوب کابینہ کے نوجوان وزیر ذوالفقار علی بھٹوکی دور اندیش نگاہوں سے
بھارت کا ایٹمی پروگرام اور مستقبل کے جارحانہ عزائم پوشیدہ نہیں تھے،بھٹو
بھارت کو مستقبل کی نیوکلیئر طاقت کے روپ میں دیکھ کر پاکستان کیلئے خطرہ
محسوس کررہے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ طاقت کے توازن کو برابر کرنے کیلئے
پاکستان کو بھی اپنا جوہری پروگرام شروع کرنا چاہیے،یہ بات ریکارڈ پر موجود
ہے کہ اس مقصد کیلئے انہوں نے کابینہ میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان
کو جوہری اسلحہ کی تیاری کا پروگرام شروع کرنا چاہئے، لیکن ایوب خان اور ان
کے امریکہ نواز وزیر خزانہ محمد شعیب اور دیگروزیروں نے بھٹو کی اِس تجویز
یکسر مسترد کردتے ہوئے جوہری صلاحیت کے عدم حصول کا فیصلہ کیا،1963میں جب
صدر ایوب خان فرانس کے دورے پر گئے تو وہاں فرانسیسی صدر چارلس ڈی گال نے
پاکستان میں جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پیش کش کی لیکن ایوب خان
نے فرانس کی یہ پیشکش اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل یحیی خان،سائنسی
مشیر ڈاکٹر عبدالسلام(قادیانی) اور منصوبہ بندی کمیشن کے نائب چیئرمین مرزا
مظفر احمدقادیانی المعروف ایم ایم احمد(جو کہ کسی طور بھی پاکستان کو ایک
مسلم ایٹمی طاقت کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے)کے مشورے پر ٹھکرا دی ،لیکن
یہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنھوں نے 1971 میں پاکستان کے دو
لخت ہونے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار سنبھالا اور پاکستان کو
ایٹمی طاقت بنانے کیلئے 1973میں جوہری صلاحیت کے حصول کا باقاعدہ پروگرام
شروع کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا عزم تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور
بنائیں گے یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی کا کارنامہ تھا کہ جہاں ایک طرف انہوں
نے فرانسیسی حکومت کو جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پرانی پیشکش کی
تجدید پر آمادہ کیا، وہیں انہوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو درست سمت
میں گامزن کرنے کیلئے جوہری توانائی کمیشن کے سربراہ کی تبدیلی کے ساتھ
ساتھ سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام (قادیانی) کو بھی برطرف کر دیا اور ڈاکٹر
عبدالقدیر خان جو کہ اس وقت ہالینڈ میں مقیم تھے کو پاکستان بلواکر پاکستان
کو ایٹمی طاقت بنانے کی ذمہ داریاں سونپیں،بھٹو جس تیزی سے پاکستان کا
جوہری پروگرام بڑھا رہے تھے وہ امریکہ اور صہیونی لابی کے نزدیک کسی طور
بھی قابل قبول اور قابل معافی جرم نہ تھا، چنانچہ 1976میں امریکی وزیر
خارجہ ہنری کیسنجرنے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکی دی
کہ اگر تم نے ایٹمی ری پراسسنگ اور ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے منصوبہ پر
کام جاری رکھا تو ہم تمہیں مثال عبرت بنا دیں گے، لیکن قائد عوام ذوالفقار
علی بھٹو نے کیسنجر کی اس دھمکی کے باوجودپاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری
رکھا کیونکہ بھٹو کے نزدیک ان کی جان سے زیادہ ملک و قوم کی سلامتی اور
بقاء زیادہ اہمیت کی حامل تھی جو پہلے ہی بھارتی ایٹمی پروگرام کی وجہ سے
شدید خطرے میں تھی،دوسری طرف بھٹو صاحب کے حکم پرعالمی شہرت یافتہ مایہ ناز
ایٹمی سائنسدان اور پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے با نی و معمارڈاکٹر
عبدالقدیر خان نے انتہائی نامساعد حالات میں پاکستان کے جوہری پروگرام کا
آغاز کیا،مشکل ترین حالات میں جوہری پروگرام کی تشکیل،تعمیر اور تکمیل کی
یہ داستان بھی اﷲ تعالی اوراس کے حبیب کریمﷺ ہی کے بے پایاں فضل و کرم کا
ثمر ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیر نگرانی 1976میں پاکستان کے سائنس دانوں
نے کہوٹہ لیباٹری میں یورنیم کی افزودگی کا کام شروع کیا اور 1982تک
پاکستانی سائنسدان 90فیصد افزودگی کی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے
تھے ،بالآخر وہ دن بھی آیا جب قومی و ملی جذبوں سے سرشار ڈاکٹر
عبدالقدیرخان اور ان کی پوری ٹیم کی اپنی انتھک محنت نے 28مئی 1998 کو
بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے نہ
صرف وطن عزیز کو ناقابل تسخیر قلعہ بنادیا بلکہ وہ قوم اور مسلح افواج کے
مورال کوبھی آسمان کی بلند یوں پرلے گئے اور پوری قوم کے اعصاب سے ہندو
بنیئے کے خوف کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا۔
آج پاکستان کا جوہری پروگرام اور ایٹم بم جو کہ پورے عالم اسلام کا جوہری
پروگرام اور ایٹم بم ہے کے خلاف بھارت ،اسرائیل ، امریکہ اور اس کے حواری
سازشوں میں میں مصروف ہیں اوروہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے گرد گھیرا تنگ
کررہے ہیں،ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو جوہری صلاحیت سے محروم
کردیا جائے، آئے دن کوئی نہ کوئی فتنہ ساماں کہانی مغربی پریس کی زینت بنتی
رہتی ہے،بے سروپا شوشے اڑائے جاتے ہیں کہ پاکستان ایک غیر ذمہ دار ملک ہے
اور اس کے ایٹمی اثاثے کسی بھی وقت القاعدہ اور دوسرے انتہا پسند عناصر کے
ہاتھ لگ سکتے ہیں،سب سے زیادہ ستم ظریفی کی بات ہے کہ جو ممالک پاکستان کے
ایٹم بم پر اسلامی بم کی پھبتی کستے ہیں ، اِن کے نزدیک امریکہ برطانیہ اور
فرانس کے ایٹم بم عیسائی بم نہیں ہیں ،چین اور روس کے بم کمیونسٹ بم نہیں
ہیں، بھارت کا ایٹم بم ہندو بم نہیں ہے اور نہ ہی اسرائیل کا ایٹم بم یہودی
بمہے ، اس کھلے تضاد اور دو عملی کی اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی ایٹمی
صلاحیت روز اول سے بھارت جیسے دشمنوں اور امریکہ جیسے نام نہادوستوں کیلئے
سوہان روح بنی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان بار بار امریکی پابندیوں
اور مخالفانہ پروپیگنڈے کا شکار ہوا،جبکہ پاکستان کو دہشت گردوں کی نرسری
اور ناکام ریاست قرار دینے کے امریکی بیانات بھی اسی سلسلے کی کڑی تھے تاکہ
انتہا پسندوں کے قبضے کا شور مچا کر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر کنٹرول
حاصل کیا جاسکے،ماضی میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے خلاف الزام تراشی بھی اسی حکمت
عملی کا نتیجہ تھی اور اسلام آباد پرطالبان کی چڑھائی کا شور بھی اسی لئے
مچایاگیا،دنیا کو یہ بھی تاثر دیا گیا کہ طالبان کی نظریں ہمارے ایٹمی
اثاثوں پر ہے،جبکہ حال ہی میں امریکی حکومت نے ایک خصوصی فورس کی تشکیل اور
پاک افغان سرحد پراس کی تعیناتی بھی صرف اس مقصد کیلئے کی ہے کہ وقت ضرورت
پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول حاصل کیا جاسکے، امریکہ اپنے علاقائی
مفادات، اسلام مخالف عالمی ایجنڈے اور بھارت و اسرائیل کیلئے خطرہ تصور
کرتے ہوئے پاکستان اورایران سمیت کسی بھی اسلامی ریاست کو ایٹمی صلاحیت کا
حامل دیکھنا نہیں چاہتا، اس لئے وہ مختلف حیلوں بہانوں سے ہمارے ایٹمی
پروگرام کو کیپ یا ختم کرنے کے درپے ہے، لہٰذااس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت
ہے، جبکہ دوسری طرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف امریکی پراپیگنڈے سے
متاثربعض نام نہاد دانشورجو یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ پاکستان کو 1998میں
ایٹمی تجربات کی ضرورت نہیں تھی، امریکی مرعوبیت اور بھارت نواز ی پر مبنی
سوچ کے حامل یہ افراد بھول رہے ہیں کہ اگر خدانخواستہ پاکستان ایٹمی قوت نہ
ہوتا تو ممبئی دھماکوں کے بعد بھارت پاکستان پر حملہ کرنے میں ایک دن کی
تاخیر نہ کرتا، حقیقت یہ ہے کہ ہمارا میزائل اورایٹمی پروگرام جو قومی
افتخار اورملکی بقاکی علامت بھی ہے،ہی پاکستان کے دفاع استحکام اور سلامتی
کا ضامن اور دشمن کے ناپاک و مذموم عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے
،جس کی حفاظت اتحاد و یگانگت اور قومی یکجہتی سے ہی ممکن ہے۔ |