حضرت شفیق بلخی ؒ قدیم مشائخ میں تھے۔ آپ صاحب کرامت اور
زُہد و عبادت میں یکتائے روزگار تھے۔ایک دفعہ آپ بغرض حج مکہ معظمہ تشریف
لے جا رہے تھے جب بغداد پہنچے تو خلیفہ ہارون الرشید نے آپ کو اپنے پاس بلا
لیا اور پوچھا کہ کیا آپ ہی زاہد شفیق ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ شفیق تو میں
ہی ہوں لیکن زاہد نہیں ہوں۔ خلیفہ نے عرض کیا کہ کچھ نصیحت فرمائیں۔آپ نے
فرمایا۔ یاد رکھو، اﷲ تعالیٰ نے تجھ کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا جانشین بنایا
ہے۔ تجھ سے صدق طلب کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تجھ کو حضرت عمر فاروق ؓ کی جگہ
بٹھایا ہے لہٰذا حق و باطل میں تمیز کرو۔ حضرت عثمان غنی ؓ کی جگہ بیٹھا کر
تجھ سے حیا وکرم کا مطالبہ کرتا ہے۔حضرت علی ؓ کی جگہ عطا کی پس علم و عمل
کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بناؤ۔
خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ کچھ اور نصیحت فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اﷲ
تعالیٰ نے دوزخ بنائی ہے جس پر تجھ کو نگہبان مقرر کیا ہے اور تجھ کو تین
چیزیں مال ، شمشیر اور تازیانہ عطا کیں ہیں تاکہ لوگوں کو دوزخ سے باز رکھ
سکو۔ حاجت مندوں کی مالی امداد، سرکشوں کو تازیانے سے تادیب اور مظلوموں کو
ظالموں کے چُنگل سے نجات دلانے کے لئے شمشیر کا استعمال کرو۔
خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ مجھے اور نصیحتیں کریں۔ آپ نے فرمایا کہ
تمہاری مثل ایک چشمہ کی ہے اور تیری رعایا کے اعمال نہروں کے مانند ہیں۔
اگر چشمے کا پانی صاف ہوگا تو نہروں کا پانی بھی صاف ہو گا اور اگر چشمے کا
پانی ہی گدلا ہو تو نہروں کے صاف ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے۔
خلیفہ نے مزید نصیحتوں کی فرمائش کی۔ آپ نے فرمایا کہ تو بیابان میں اس قدر
پیاسا ہوجائے کہ شدت پیاس سے جان پر آئے اور تمہیں جان بچانے کے لئے کسی
شخص سے ایک گھونٹ پانی خریدنا پڑے تو تم کتنی قیمت ادا کرو گے۔خلیفہ نے کہا
کہ اپنی نصف سلطنت کے عوض اپنی جان بچا لوں گا۔آپ نے کہا کہ پھر اتفاقاً
تمہارے پیٹ میں درد شروع ہوجائے اور تمہاری جان پر بن جائے اور ایک شخص کہے
کہ نصف سلطنت کے بدلے تمہارا علاج ایک گھونٹ پانی سے کرسکتا ہوں تو پھر کیا
کرو گے۔ ہارون الرشید نے کہا کہ آدھی سلطنت اس کو دے کر جان بچالوں گا۔ آپ
نے فرمایا کہ ایسی حکومت پر کیا ناز کرتے ہو جس کی قیمت ایک گھونٹ پانی ہو۔
یہ باتیں سُن کر خلیفہ ہارون الرشید رو پڑے اور کہا کہ آپ واقعی زاہد ہیں
اور یہ دنیاوی سلطنتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ |