شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اﷲ داعی اسلامک دعوۃ سنٹر طائف کا ایک انٹرویو

انٹرویونگار: ابوابان عثمان بن خالد مرجالوی حفظہ اﷲ
(۱)ذاتی معلومات
نام، کنیت، نسبت، سن پیدائش ومقام پیدائش کے متعلق آگاہ فرمائیں
میرا نام مقبول احمد، کنیت ابوسنبل ،نسبت انصاری، سن پیدائش 1984ء اور مقام پیدائش اندھراٹھاری، ضلع مدھوبنی ، بہار الہند ہے۔
خاندانی پس منظر
اپنا مکمل خاندان سدا سیاہل حدیث ہے جو دیوبندیوں کی کثیر تعداد کے درمیان ہے ۔ والد گرامی فیض عام مؤ یوپی کے قدیم فارغین جو علمی اور اسنادی اعتبار سے پختہ مانے جاتے ہیں ان میں سے ہیں ۔ آپ نے ہم پانچ بھائیوں کی تعلیم وتربیت پر کڑی سے کڑی محنت کی اور سبھی کو عربی جامعات سے تعلیم دلوایا ۔
تعلیمی سفر
ابتدائی تعلیم والد محترم نے اپنے زیر سایہ گھر میں ہی دلوائی، کہنے کے لئے مختصر تعلیم گاؤں کے مدرسے میں لی جہاں والد گرامی نائب مدرس کے عہدہ پر تھے اور اعلی تعلیم کے لئے بڑے بھائی منظور الرب اسلامی نے جامعہ سلفیہ بنارس میں متوسطہ کے مرحلہ میں داخلہ دلوایا۔ اس جامعہ سے مکمل تعلیم حاصل کرنے کے بعد عصری تعلیم کے لئیدہلی کا رخ کیا مگر معاشی کمزوری کی وجہ سے لوٹنا پڑا اور درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ سے جڑگیا تاہم اس دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بی ایاردو آنرس کیا اور پھر اپنے صوبہ سے وفاق المدارس کا آخری مرحلہ فاضل تک کا کورس پورا کرلیا۔
کن اساتذہ کرام سے کب فیض کیا؟
اساتذہ کی لمبی فہرست ہے ، بچپن سے والد گرامی استاد رہے اورکچھ مزید اساتذہ گاؤں کے مدرسہ کے ہیں تاہم میرے اہم اساتذہ جامعہ سلفیہ بنارس کے ہیں جو 1996 سے لیکر 2003 کے درمیان رہے ، ان میں سے چند کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں ۔
(۱)ڈاکٹر رضاء اﷲ محمد ادریس مبارک پوری(۲) ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری(۳)ڈاکٹر ابراہیم مدنی(۴) شیخ محمد رئیس ندوی(۵) شیخ عبدالسلام مدنی(۶)شیخ عزیزالرحمن سلفی(۷) شیخ مستقیم سلفی(۸)شیخ اسعد اعظمی(۹) شیخ ابوالقاسم فاروقی سلفی(۱۰)شیخ عبدالمتین مدنی(۱۱)شیخ عبیداﷲ طیب مکی(۱۲)شیخ محمد نعیم مدنی(۱۳) شیخ محمد یونس مدنی(۱۴)شیخ احسن جمیل مدنی(۱۵) شیخ سعید میسوری مدنی (۱۶) شیخ محمد حنیف مدنی(۱۷)شیخ علی حسین سلفی(۱۸) شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی(۱۹) شیخ احمد مجتبی مدنی(۲۰)شیخ احسان اﷲ سلفی(۲۱) شیخ محمد یحی فیضی(۲۲) شیخ عبدالوہاب حجازی(۲۳)شیخ امراﷲ رحمانی
کونسی کھیلیں کھیلتے رہے؟
کبھی کبھار فٹبال کھیلا مگر کرکٹ زیادہ پسند تھا ، گھر پہ پھر جامعہ سلفیہ میں ثانویہ کے مرحلہ تک کھیلا کیا ۔ اس کے بعد خطابت وصحافت کی گہری دلچسپی اور مطالعہ کی کثرت کی وجہ سے اس وقت سے اب تک کسی کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔
شادی کے حوالے سے کچھ تفصیلات،اور اس حوالے سے کوئی دلچسپ واقعہ، نصیحت اور سسرال کے متعلق معلومات اگر مناسب ہو تو؟
فراغت کے بعد دہلی پھر ایک سال بعد وہاں سے واپسی کے بعد نیپال میں دینی خدمات انجام دینے لگا ، برسرے روزگار ہونے کی وجہ سے جلد ہی گاؤں سے ایک رشتہ آگیا ۔ میرے علم کی حد تک اس سے پہلے کوئی رشتہ نہیں آیاتھا ، لڑکی شریف النفس اور گھرانہ دیوبندی مگرنہایت ہی شریف ہونے کی وجہ سے والد صاحب نے شادی کی بات پکی کرلی اور شادی ہوگئی ۔ اس نکاح کا ایک واقعہ یوں ہوا کہ گاؤں کے دیوبندی امام صاحب نے میرا نکاح پڑھایا ، پہلے اردو زبان میں ایجاب وقبول کروایا پھر عربی الفاظ نکحت، زوجت اور قبلت مجھے کہنے کو کہا ۔ میں نے کہا نکاح ہوگیا خواہ کسی زبان میں ایجاب وقبول ہو۔ اگر عربی کے الفاظ مجھ سے کہونانا تھا تو نکاح عربی میں پڑھانا تھا ۔ بس وہ حیران وششدر ہوگئیاور کہنے لگے ٹھیک ہے نکاح ہوگیا کوئی بات نہیں ۔
اب تک کی مصروفیات
خطابت وصحافت اور دعوت وتبلیغ میرا میدان رہا ہے ۔ فراغت کے بعد سے اب تک رب العالمین نے اس فریضے کی ادائیگی کی توفیق دی ۔ مزید پروردگار عالم سے آخری سانس تک اسی کی توفیق طلب کرتا ہوں ۔ میرے بلاگ "مقبول احمد ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام" اور محدث فورم کے علاوہ اردو مجلس فورم پر تفصیل سے میرا تعارف وانٹرویو موجود ہے وہاں دیکھا جاسکتا ہے ۔
دلچسپ کون سا موضوع ہے؟
میرا دلچسپ موضوع جدیدیت ہے یعنی میں ایسا موضوع پسند کرتا ہوں جس پہ اردو داں کے لئے اردو میں ناقص یا نہ کے برابر علمی مواد موجود ہو اور لوگوں کو اس سلسلے میں دینی رہنمائی کی ضرورت ہو۔اسی طرح سلگتے موضوعات اور قابل اعتناء تجزیاتی مسائل بھی میری توجہ کا مرکز ہیں ۔ یہ سارے امور خواہ احکام و فقہ سے متعلق ہوں یا معاشیات سے یا معاملات سے ۔
خاص تلامذہ کے نام؟
تدریس کا فریضہ مختصر عرصہ تک رہا جو نیپال جنک پور میں گزرا ، وہ ابتدائی مدرسہ تھا جو اب ختم ہوگیا مگر اس میں پڑھائے ہوئے کئی بچے جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں زیر تعلیم ہیں ۔ اصل میدان دعوت ، خطابت اور صحافت رہا ہے۔
اب تک کا تصنیفی کام؟
مضامین ومقالات تو پڑھنے کے زمانے سے اب تک شائع ہوتے رہے ہیں اورآئے روز لکھتا بھی رہتا ہوں جو ہندوپاک کے مختلف اخبار وجرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ کئی کتابیں تصنیف کی ان میں سے ایک ابھی جلدی شائع ہوئی رمضان المبارک کے فضائل ومسائل پہ ۔ اس کے علاوہ معاشیات پہ جامعہ سلفیہ کا ایک مبسوط مقالہ ہے جس کے مشرف مکرم شیخ محمد ابوالقاسم فاروقی حفظہ اﷲ تھے اور اس مقالے کی طوالت کی وجہ سے مجھے رئیس الاحرار کہا کرتے ۔(ابتسامہ)یہ مکتبہ فہیم مؤ سے شائع ہونا تھا ، کمپوزنگ کے مرحلہ سے گزر کر پھر شاید اس میں تقریظ نہ ہونے کے سبب رک گیا ،اسی دوران سعودی آگیا جس کی وجہ سے مکتبہ سے رابطہ منقطع ہوگیا۔
تبلیغی جماعت : تعارف وتجزیہ پہ ایک کتاب ہے ، عمل بالکتاب والسنہ کے نام سے ایک کتاب ہے ۔ ایک کتاب لاالہ الااﷲ کے معنی پہ ترجمہ کیا ہوں جو اپنے دعوتی سنٹر سے شائع ہونے کے لئے سرکاری تمام مراحل طے ہوئے کئی مہینیگزرگئے مگر اب تک شائع نہ ہوسکی ۔ نیپالی زبان میں تین کتابوں کا ترجمہ کیا ان میں سے دو الامان الثانی اور سر دوام النعم بریدہ القصیم اسلامی سنٹر سے چھپی اور تیسری کتاب فضل الاسلام چھاپنے کا ارادہ ہے ۔ کئی مضامین پمفلٹ کی شکل میں ہندوستان سے شائع ہوئے اور ابھی ایک مختصر فتاوی ترتیب دیا ہوں مستقبل میں اسے مزین کرکے شائع کرنے کا ارادہ ہے بلکہ جو مضامین ومقالات ہیں انہیں بھی ایک کڑی میں پروکر شائع کرنا ہے ۔ ان شاء اﷲ
پسندیدہ کتب کے حوالے سے اہل علم اور عام قارئین کے نام کوئی خاص پیغام
اہل علم کو علوم حدیث اور علوم قرآن سے گہری دلچسپی رکھنے بلکہ ان کے لئے وقت نکالنے کی نصیحت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ جنہوں نے اعلام الموقعین ، المحلی اور المغنی کا مطالعہ نہیں کیا وہ ضرور ان کا مطالعہ کریں ۔ عام لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ قرآن کو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ ایک بار ضرور پڑھیں اور تمام کتب احادیث کا مطالعہ نہیں کرسکتے تو کم ازکم بخاری شریف ترجمہ کے ساتھ مکمل مطالعہ کریں ۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ دین کی محبت کے ساتھ اسے خود سے جاننے کا موقع ملے گا اور پھر تقلید شخصی، گروہ بندی اور اختلاف وانتشار سے بچتے ہوئے مطمئن ہوکر صراط مستقیم پر گامزن ہونے میں حاصا مدد ملے گی ۔
پسندیدہ کھانا؟
دہلی کی بریانی اور سعودی عرب کی لحم مندی بہت پسند ہے۔
پسندیدہ لباس؟
ستر کے لحاظ سے عربی جبہ زیادہ پسندیدہ ہے۔
روحانی طور پر کن شخصیات سے بہت متاثر ہیں؟
کتابوں میں پڑھے ہوئے بہت سارے ہیں مگر آنکھوں سے جن کا دیدار کیا ان میں والد گرامی کی بچپن کی تعلیم وتربیت سے ، سابق شیخ الجامعہ ڈاکٹر رضاء اﷲ محمد ادریس مدنی رحمہ اﷲ کی طلبہ جامعہ سلفیہ کی فکر کثیر سے، شیخ محمدابوالقاسم فاروقی حفطہ اﷲ مدرس جامعہ سلفیہ کی بچوں کی بے لوث ہمت جہتی تربیت سے بہت مثاثر ہوں ۔ مولانا عبدالسمیع جعفری حفطہ اﷲ پٹنہ بہار کی شخصیت وبزرگی سے بھی کافی مثاتر تھا۔یہاں ایک بات ذکر کرتا چلوں کہ دیوبندی اداروں میں عموما ایک عالم دوسرے عالم کی بڑی قدر کرتے ہیں ، یہ میں سنتا تھا مگر دیکھنے کو بھی ملا ۔ 2004 میں چند مہینے دہلی میں ایک دیوبندی ادارے میں بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھایا اس دوران میں نے دیکھا ایک عالم ہمیشہ فجر کی نماز میں بیدار کرنے کے لئے میرا پیر دبایا کرتے ، انہوں نے کبھی بھی آواز دیکر نہیں جگایا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اہل حدیث مدارس میں علماء کے مابین محبت نہیں مگر ایک دوسرے عالم کے تئیں ہمارے اداروں ، مرکزوں اور ساری جگہوں میں بہت چپقلشیں ہیں انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔
نہ بھولنے والے پیش آمدہ واقعات؟
ایک واقعہ ابھی حال ہی کا ہے جسے شائد جیتے جی نہ بھول پاؤں ۔ 28/نومبر 2017 بروز منگل صبح اچانک میرے سر میں درد شروع ہوااور بڑھتا چلا ۔ دوپہر میں بچوں کو اسکول سے لانا تھا مگر درد کی شدت کی وجہ سے نہیں لا سکا۔اس قدر پریشانی کہ بچوں کو اسکول سے نہیں لاسکا مگر صبح آفس میں ڈیوٹی کیا، پھر ظہر سے عصر تک چھٹی ہوتی ہے ۔ عصر کے بعد پھر آفس آگیا۔ آفس آتے ہی بخار، سردرد اور بدن کی بے چینی کچھ مزید بڑھنے لگی تو مغرب کے بعد چھٹی لیکر گھر چلا آیا۔ مغرب سے عشاء کے درمیان بخار اور بلڈ پریشر اپنے عروج کو پہنچ گیا تھا اور مجھے بخار کا احساس ہو رہا تھا مگر بلڈ پریشر بھی ہائی ہے اس طرف بالکل دھیان نہیں گیا۔ پھر آنکھوں کے سامنے اندھیر ا سا چھانے لگا، گھر میں بچے شور مچا رہے تھے مجھے کسی کا ایک لفظ اس وقت سننا گوارہ نہیں تھا اس لئے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر ایک گھر میں سلانے کو کہااور میں مہمان خانہ میں ایک کمبل لے کر چلا گیا ، اہلیہ پاس بیٹھنے آتی تو اسے بھگادیتا ، کچھ بولتی تو بہت غصہ کرتا۔ اس وقت جیسے مجھے کوئی بولی ، کوئی انسان نہیں بھا رہا تھا حتی کہ زندگی بوجھ لگنے لگی ۔ جیسے لگ رہا تھا میرے بدن کے ہر عضو سے شدت کے ساتھ روح نکالی جا رہی ہو۔ تکلیف کا ایک پہاڑ ٹوٹ رہاتھا ، نہ جانے کیا کیا خیال دل میں آنے لگے ، میں سوچنے لگا کہ شاید یہ میرا آخری وقت ہو۔ تکلیف کی تاب نہ لاکر سوچ رہا تھا کوئی قتل کردے یا زہر کھلا دے ۔ اسی اثناء نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنے قریبی ساتھی شیخ عمران احمد سلفی (داعی اسلامی سنٹر طائف) کو فون کیا ، ان کے ساتھ ڈاکٹر فیاض الدین صاحب بھی دعوتی کام میں معاون ہیں ۔ میں نے انہیں آلات اور دوائیاں ساتھ میں لانے کو کہا ۔ انہیں آنے میں ایک گھنٹہ لگ گیاکیونکہ وہ دور رہتے ہیں ۔ بہر کیف ! رات دس بجے کے قریب وہ پہنچے تب تک میں اذکار واستغار میں مشغول تھا بلکہ کسی طرح سوئے سوئے بغیر حرکت کئے دو رکعت نماز بھی ادا کی اور باربار کلمہ دہراتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے بخار جانچا تو 110 تھا اور بلڈ پریشر دیکھا تو 130/170 تھا ۔ جلدی سے بخار وبی پی کی دوائیاں دیں۔ تکلیف کم نہیں ہو رہی تھی اس لئے مجھے ان دونوں پر غصہ بھی بہت آرہاتھا مگر ضبط کر رہا تھا۔ ایک گھنٹہ بعد بی پی نارمل ہوا تو مجھے کچھ راحت ہوئی ، سویا تھاتو اٹھ کر بیٹھ گیا مگر بخار کم نہیں ہوا۔ اب ایک دوسری کیفیت بکنے کی شروع ہوئی ۔ سوشل میڈیا پر کیسے کام کرتا ہوں وہ سب نہ جانے آپ خود زبان سے جملے کی شکل میں نکل رہے تھے ۔ شیخ عمران دم بھی کررہے تھے ، پانی سے کیلی پٹی سر پر باربار رکھ رہے تھے ، مجھے نہانے کو کہا گیا۔ نہانے کے کچھ دیر بعد بولنے کی کیفیت ختم ہوگئی ۔ بخار کچھ کم ہوا اور راحت محسوس ہونے لگی تو دونوں حضرات کو جانے کو کہا ۔صبح پھر شیخ عمران کے ساتھ ہاسپیٹل گئے اور وہاں انجکشن کے ذریعہ زود اثر علاج کیا گیا الحمد ﷲ ٹھیک ہوگیا ۔ اس دن کے اثر سے بلڈ پریشر اب مجھے اکثر کچھ زیادہ رہنے لگا تو احتیاط کر رہاہوں ۔ یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب آدمی کو آخری وقت محسوس ہونے لگ جاتا ہے تو اسے اپنی آنکھوں کے سامنے صرف برائی ہی برائی نظر آتی ہے اور وہ اس سے پلٹنا چاہتا ہے مگر پلٹنے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے اس لئے انسان کو ہمیشہ اعمال صالحہ انجام دینا چاہئے اور برائی سے حتی المقدور بچنا چاہئے ۔ اور دوسری بات یہ کہ ہائی بلڈ پریشر خاموش قاتل ہے اس سے دنیا میں بہت اموات ہورہی ہیں اس لئے اس خاموش قاتل سے محتاط ہوکر رہنے کی ضرورت ہے خواہ طور سے وہ حضرات جو پینتیس سال سے اوپر کے ہوں ۔
آج تک کتنے بچوں پر اس قدر محنت کی کہ انھیں مستقبل میں اپنا نائب سمجھتے ہیں؟
اس سے پہلے بھی یہ سوال گزرا کہ درس کے میدان میں کم رہا ہوں ، دعوت وتبلیغ کا دائرہ درس سے کافی وسیع ہے یہاں کون اور کتنا متاثر ہوتا اور کس شخصیت سے زیادہ افادہ کرتا ہے وہی شخص جانتا ہے ۔ میں محسوس کر سکتا ہوں کہ جہاں بھی دعوت کا کام کیا خواہ سوشل میڈیا ہو یا زمینی میدان وہاں والوں پر ایک اثر چھوڑا ۔
آپ کے قریبی دوست کون ہیں؟
اس وقت میرا قریبی اور اصل دوست صرف علم ہے جسے مختلف ذرائع سے حاصل کرتا ہوں او ر میڈیا کے ذریعہ نشر کرتا ہوں ۔
کثرت سے مانگی گئی دعا اور قبولیت دعا کا کوئی خاص واقعہ؟
بہت سی دعائیں کی، رب نے بہت سی دعائیں قبول کی ،کثرت سے مانگی گئی دعا ؤں میں نیک بیوی ، صالح اولاد اور والدین کے لئے رحمت ومغفرت مانگا ۔ اﷲ نے گمان سے زیادہ نیک بیوی عطا کیااور الحمد ﷲ تین لڑکیوں اور ایک بیٹے سے نواز ا ۔زمانہ پرفتن ہے ، گھر گھر برائی کا طوفان امنڈ رہاہے ایسے حالات میں اﷲ سے بکثرت اب بھی یہی دعا ہے کہ میری اولاد کو صالح بنائے ۔ آپ کے کہنے سے آج ایک واقعہ یاد آگیا ۔ ایک بار میرے ہاتھ سے گھڑی گم ہوگئی ۔ ظہر سے پہلے گھڑی کا خیال آیا ،گھر میں اندر ، باہر بہت تلاش کیا مگر نہیں ملی ۔ اس وقت مجھے نبی ? کا خیال آیا کہ نبی ? کو کوئی اہم معاملہ لاحق ہوتا تو نماز پڑھتے ، ویسے والد گرامی کی وجہ سے بچپن سے نماز پڑھتا ہوں ، ظہر کے وقت مسجد گیا ، نماز میں گھڑی کے لئے اﷲ سے دعا کی تو گویا اسی نماز میں اﷲ نے وہ جگہ دکھادی جہاں گھڑی گری تھی ۔ نماز کے بعد گھر گیا اور ڈائرکٹ اسی جگہ گیا ۔ اس جگہ مرغی کا دربہ تھا ،اس میں ہاتھ بھر نیچے کی جانب سراخ ہوتا ہے تاکہ اس سوراخ سے مرغیاں نکالی جائیں ۔ میں نے اسی سوراخ سے صبح مرغی نکالی تھی ، اس سوراخ میں گھڑی لگنے سے وہیں گر گئی تھی ۔ سبحان اﷲ
ایک واقعہ دوران طالب علمی کا ہے ۔ گرمی کی چھٹی میں اپنے ساتھی تنویر ذکی کے ساتھ ان کے یہاں بہار کے ضلع پورنیہ کا سفر کیا ۔ ظہر کے وقت گھر پہنچے اسی وقت ان کی بہن کے پیٹ میں شدید قسم کا درد اٹھا، میں نے ساتھی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میری بہن کو اکثر پیٹ میں اچانک شدید قسم کا درد اٹھتا ہے ۔ اسی وقت میں نے گلاس میں پانی لانے کو کہا ، اس میں دم کیا اور کہا کہ اسے پورا پلائیں ۔ پانی پیتے ہی درد کافور ہوگیا۔ اب یہ بات گاؤں کی عورتوں میں پھیل گئی مجھے کچھ معلوم نہیں ، شام ہونے کو تھی دیکھتا ہوں بہت ساری عورتیں برتن میں پانی لئے دم کروانے واسطے صف میں کھڑی ہیں ۔ میں نے کہا یااﷲ یہ کیا ماجرا ہے ؟ پتہ چلا کہ دوپہر میں دم کرنے سے فائدہ ہونے کی وجہ سے یہ سب پانی میں دم کروانے آئی ہیں ۔ میں نے سب کو سمجھا کہ آپ خود اپنا دم کرسکتی ہیں ، آپ کو کسی کی ضرورت نہیں ہے اور میں نے جو پڑھ کے دم کیا ہے وہ اکثر کو یاد ہوگا۔ میں کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا نہیں ہوں ، اﷲ کے کلام میں شفا ہے اور نبی ?نے جو دعائیں سکھائیں اس کے ذریعہ مرض دور ہوجاتا ہے ۔ اس طرح بہت سمجھا بجھا کر ان سب کو واپس کیا۔ یہ دیکھیں کہ عورتوں میں کس قدر ضعیف الاعقتادی ہے ؟
روزانہ کے معمولات کیا ہیں؟
فجر کے بعد تھوڑا آرام کرکے بچوں کو اسکول کی تیاری میں لگ جاتا ہوں ، جب بچوں کو اسکول پہنچا دیتا ہوں تو اسی وقت آفس چلا آتا ہوں ۔ گوکہ آفس کے وقت میں ابھی کافی وقت باقی ہوتا ہے مگر لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے اسکول سے گھر جانے کی بجائے روزانہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے آفس آجاتا ہوں ۔ اس وقت سے لیکر ظہر تک لکھنے میں مصروف رہتا ہوں ۔ دراصل اسی وقت میں سوشل میڈیا پہ اپنے گروپ اور مختلف سوشل مقامات پہ مجھ کئے گئے سوالات کا جواب دیتا ہوں ۔ ظہر کے بعد بچوں کو اسکول سے لانا اور دوپہر کا کھانا کھلانا کے بعد ان کا ہوم ورک کرانا ہوتا ہے۔ عصر کے بعد آفس کی روٹنگ کے مطابق دعوتی منصوبوں کی تکمیل کرنا ہوتا ہے۔ اکثرمضامین، مقالات اور تحقیق عشاء کے بعد کرتا ہوں کیونکہ اس وقت ذہنی یکسوئی ملنے سے کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ ہفتہ اور اتوار دودن آفشیل چھٹی ہے مگرانہیں بھی لکھنے پڑھنے اور لوگوں کی رہنمائی میں اکثر صرف کرتا ہوں ، بسااوقات گھریلو کام کاج میں مصروف ہوجاتا ہوں ۔
زندگی کے کچھ ذاتی تجربات؟
یہاں ذاتی تجربات کے طور پر سبھی بھائیوں کو کہوں گا کہ جہد مسلسل اور وقت کی پابندی سے آپ ہر وہ منزل پا سکتے ہیں جس کو پانے کی آپ کو تمنا ہے ۔میں نے وکیل الجامعہ السلفیہ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اﷲ کی سیرت میں پڑھا کہ وہ متوسط طالب علم تھے مگر لگن اور انضباط وقت کی وجہ سے اپنے تمام ساتھیوں میں ممتاز اور یگانہ روزگار ہوگئے ۔ میں نے اس کا تجربہ کیا اور آپ کو بھی اس پہ عمل کرنے کی نصیحت کرتا ہوں ۔
ازواج واَولاد کے متعلق کچھ آگاہ فرمائیں؟
اﷲ تعالی نے نیک سیرت بیوی سے تین لڑکیا ں اور ایک بیٹا نصیب کیا۔ بڑی بچی سنبل فردوسی دس سال کی ہے جو سعودی مدرسہ میں ابتدائی چہارم میں زیر تعلیم ہے ۔ اور بیٹا عبدالمہیمن ابھی نرسری میں ہے ۔ ایک بچی سندس فردوسی دو سال اور ایک بچی سدس فردوسی سات ماہ کی ہے ۔
بیوی دیوبندی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ، میں نے کبھی انہیں کسی عمل کے لئے مجبور نہیں کیا بلکہ انہیں کتاب کے ذریعہ دعوت دی ۔ میں پہلے فراغت کے بعد اکیلے باہر رہا کرتا (ابھی بچوں کے ساتھ سعودی عرب میں ہیں ) اور تین چار ماہ بعد گھر آیا کرتا ۔ ہمیشہ جاتے وقت اہلیہ کو ایک کتاب مطالعہ کرنے کو کہتا اور جب واپس ہوتا تو اس کتاب پر بات چیت ہوتی ۔ اس طرح آہستہ آہستہ وہ قرآن وحدیث اور منہج سلف کو سمجھنے لگی اور نماز وروزہ کی پابندی کے ساتھ سنت کے مطابق عمل کرنے لگی ۔
آپ کی کوئی دلی تمنا؟
میری بڑی خواہش ہے کہ اہل حدیث علماء کا ایک عالمی نٹورک ہو جس سے پوری دنیا کے علمائے اہل حدیث جڑے ہوں اور اس نٹورک کے ذریعہ اخوت ومحبت کے ماحول میں ہر خطے کی دینی ، دعوتی، اصلاحی اور رفاہی خدمات اجاگر کئے جائیں اور اصل ہدف منہج سلف کو عام کرنا ہو۔ ڈاکٹرذاکر نائک کو اﷲ نے اس کام کی تھوڑی بہت توفیق دی مگر وہ حاسدوں کی نظر ہوگئے ۔ یہ زمانہ نٹورکنگ کا ہے اور دعوت کے لئییہ میدان بھی وسیع وعریض ہے ۔ اس لئے ایک عالمی نٹورک چاہئے اور وہ بھی خالص سلفی تاکہ اس کے ذریعہ صرف منہج سلف کی آواز لوگوں تک پہنچے ۔ کوشش سے یہ کام ممکن ہے ۔ شیخ محترم حافظ عثمان بن خالد مرجالوی حفظہ اﷲ کی نظر بھی وسیع ہے انہوں نے بھی اس قسم کا ایک قابل قدر منصوبہ بنایا ہے اﷲ تعالی اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ آمین
آپ سے درس، خطبہ لینے اور ملاقات کرنے کا طریقہ؟
میں سیدھا سادا آدمی ہوں کوئی بھی کبھی بھی وقت آکر مل سکتا ہے البتہ وقت کے ضیاع اور عدیم الفرصت ہونے کی وجہ سے موبائل یا میسنجروغیرہ ذریعہ سے بات چیت کم ہی کرتا ہوں۔ ہاں وقت مناسب ہوتو ضرورت بھر بات کرتا ہوں ۔ اب تو وہ زمانہ نہیں ہے کہ طلبا ء اساتذہ کو تلاش کریں بلکہ یہ کام اب علماء ودعاۃ کا ہے کہ وہ درس، وعظ اور تقریر کے لئے لوگوں کو تلاش کرئیں۔ اس زمانے کا المیہ ہے۔
(۲)علماء کرام کی بابت معلومات
ایک عالم کی شخصیت کیسی ہونی چاہیے؟
عالم کی شخصیت عام آدمی سے بلند ہو یہ شخصیت کی بلندی شکل وصورت، لباس وزینت، جاہ ومنصب، اور دولت وشہرت سے نہ ہو بلکہ علم وعمل ، اخلاق حسنہ، تواضع وخاکساری اور الفت وخلوص سے ہو۔
منتظمین مساجد ومدارس سے علمائے کرام کا رویہ کیسا ہونا چاہیئے؟
نظماء مساجد ومدارس کا علماء کرام سے رویہ بہتر سے بہتر ہونا چاہئے کیونکہ علماء کا بڑا مقام ہے مگر یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ مساجد ومدارس کے نظماء حضرات کیسے ہونا چاہئے ؟ اگر یہ لوگ باشرع، اخلاق مند، حسن تعامل اورانتظامی امور سے باخبر ہوں تو پھر رویہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا ۔ آج ہرجگہ رویہ پہ اس لئے سوال اٹھ رہے کہ مساجد ومدارس کے نظماء اکثربے دین وبداخلاق نظر آتے ہیں ۔ دینی جگہوں پہ ذمہ داروں کا انتخاب دین کی بنیاد پر ہو۔
خطبات ودروس کی تیاری کیسے کرنی چاہیے؟
آج کل دروس اور خطبات کی بہتیرے کتابیں دستیاب ہیں ، سہل پسند ، وقت کم پانے والے یا زیادہ سے زیادہ تقریر کرنے والے حضرات انہیں کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔ میں اس کے خلاف نہیں ہوں مگر مزید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک آدمی نے اپنی نظر سے کسی موضوع کے نکات پر بحث کی ہے اگر آپ اس موضوع کی تحقیق کریں تو مزید کچھ دوسرے نکات بھی سامنے آئیں گے اس لئے کبھی کبھار کسی تیار شدہ مادہ سے خطاب کرلئے تو کوئی حرج نہیں مگر ہمیشہ کے لئے یہ عمل صحیح نہیں ہے ۔ آپ خود سے تیاری کریں ، موضوع سے متعلق مختلف کتب ، مضامین اور نکات کی طرف التفات کریں اور پھر اس کے اہم پوائنٹ نوٹ کرکے ساتھ لے جائیں تاکہ جن باتوں کی آپ نے تیاری کی ہے وہ سبھی بیان کرسکیں ۔ جب اپنی تیاری ہو تو آپ کو بولنے میں بہت آسانی ہوگی مگر کسی دوسرے کا مضمون ہوتو وہاں آدمی لکیر کا فقیر ہوتا ہییعنی اسی مضمون سے بندھا ہوتا ہے ۔
کتب کا خریدنا کافی مشکل ہوگیا ہے، کوئی حل؟
ٹکنالوجی کی ترقی نے اس مشکل کو کافی حد تک آسان بنادیا ہے ، اکثر کتابیں نٹ پہ دستیاب ہیں ان سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ جو کتابیں نٹ پر نہیں ہیں انہیں کسی سے مستعار لیکراس کی زیرکس کاپی تیار کر لی جائیں ۔
ایک عالم کے پاس دنیاوی تعلیم کتنی ہونی چاہیے؟
جدید ذہن اور پرفیشنل حضرات علماء کو دنیا کے معاملے میں زیرو سمجھتے ہیں اور بسااوقات انہیں مولوی کہہ کر طعنہ دیا جاتا ہے اس لئے علماء کو دین کے ساتھ دنیا کی بھی معلومات ہونی چاہئے ۔ الحمدﷲ دینی جامعات جب سے عصری درس گاہوں سے ملحق ہوئے تب سے علماء میں بھی عصری علوم کے ماہرین پائے جارہے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ علماء دین کے ساتھ دنیا کا بھی علم رکھتے ہیں اور دنیا میں بڑے بڑے کام کرکے دکھائے ہیں ۔ ایک بات کا اضافہ کرلیا جائے کہ زمانہ ٹکنالوجی ہے اور انگریزی زبان عالمی ہے اس لئے علماء کو بھی اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ معلومات ہونی چاہئے تاکہ ریل وفلائٹ کا سفر ہو یا تجارت ومعاملہ ہو وہ آسانی سے حل کرسکیں۔
اپنے تلامذہ کے ساتھ کیسا رویہ رکھنا چاہئے؟
محبت ونرمی کا معاملہ ہونا چاہئے ۔ اس خوبی سے طلبہ اساتذہ کی زیادہ قدر کرتے ہیں اور اس قسم کے اساتذہ سے بچے کسب فیض بھی زیادہ کرتے ہیں ۔
عوام الناس کے ساتھ کیسا رویہ رکھنا چاہئے؟
حسن اخلاق مومن کا مؤثر ہتھیار ہے اس سے ہرجگہ اور ہرکام آسانی سے کر سکتے ہیں ۔ دعوت دینی ہو، معاملہ کرنا ہو، دنیاوی کوئی کام ہو سارے حل ہوجاتے ہیں ۔
مستفتی سے کیسا سلوک کرنا چاہیے؟
جب کوئی عام آدمی بڑے عالم سے سوال کرتا ہے تو ڈرا سہما رہتا ہے ، نہ جانے جملہ کیسا ہے ؟ سوال میں کوئی غلطی تو نہیں، اس وجہ سے مفتی کا کردار اور اسلوب ایسا نرم و سہل ہو کہ مستفتی کو سوال پوچھنے میں خوف رکاوٹ نہ بنے ۔
بسا اوقات عوام کوئی ایسا مسئلہ لے آتی ہے جو وقت کے دو کبار علمائے کرام میں مختلف فیہ مسئلہ ہوتا ہے، عوام کو کیسے قائل کیا جائے؟
یہ مرحلہ عوام کے لئے پیچیدہ ہے بلکہ میں نے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی ایسے مسئلے میں خلجان کا شکار ہوتے دیکھا ہے ۔ یہاں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی اختلافی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں دلائل واستدلال کی بنیاد پر کسی ایک فتوی کو راحج و قوی نہ قرار دیا جائے ۔ شاید باید کوئی عالم ہو تو یہ کہے کہ جاؤ دونوں یا سارے مختلف فتاوے پر عمل کرو بلکہ یہ کہنے والے اکثر علماء ہیں کہ مختلف فیہ فتاوی میں دیکھیں دلائل کہاں مضبوط اور قوی ہیں اسے اختیار کیا جائے ۔ ایسے مسائل کی روشنی میں عوام کو یہ باور بھی کراسکتے ہیں کہ دیکھو ہم کسی عالم کی بات صرف ان کے نام کی وجہ سے نہیں مانتے بلکہ جہاں قوی دلیل ہے اسے اختیار کرتے ہیں ۔اس طرح تقلید کے نقصان سے عوام بھی باخبر ہوسکتی ہے۔
کیا علمائے کرام کو کاروبار کرنا چاہئے؟
عوام کی طرح علماء بھی ہر قسم کا جائز پیشہ اختیار کرسکتے ہیں اس میں شرم وعام محسوس کرنے کی کوئی بات نہیں ہے ۔ کاروبار تو بہت مفید ہے اس میں بے پناہ برکت ہے، علماء اگر اس جانب آجائیں تو دین کی بے لوث خدمات انجام دے سکتے ہیں کیونکہ دعوت دین میں مال کی بھی ضرورت ہے ۔ آج علماء کی معاشی حالت کمزور ہے تو صلاحیت کے پہاڑ ہونے کی باوجود علمی لیاقت کا اظہار وسیع پیمانے پر نہیں ہوپاتا۔اس کے علاوہ جس قدر چاہیں دینی ،اصلاحی ، رفاہی اور سماجی خدمات انجام دیں بغیر کسی گھمنڈی مالدار کی خوشامد کے۔مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ نیپال کی دارالحکومت کاٹھمانڈو میں ایک نئے مسلم نے جو کاروبار کرتے تھے مجھ سے سوال کیا کہ علماء کاروبار کیوں نہیں کرتے ؟ اس وقت سے یہ محسوس کررہاہوں کہ علماء کو بھی کاروبار کرنا چاہئے ۔ ڈر یہی لگا رہتا ہے کہ آج کل اگر کوئی عالم کسی دوسرے میدان سے جڑتے ہیں تو اکثر دین سے غافل ہوجاتے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔
کیا علمائے کرام کو متعدد شادیاں کرنی چاہیئں؟
ہر کسی کے لئے شادی کا یکساں حکم ہے ۔ ہاں جہاں مطلقہ، بیوہ ، یتیم ومسکین لڑکیوں کی کثرت ہو اور ان کی شادیوں میں دشواریاں ہوں تو ان کی شادی میں حسب طاقت جو تعاون کرسکتے ہیں کرنا چاہئے ۔ اگر دوسری شادی کرنے کی طاقت ہے تو بے سہاروں سے شادی کرکے ان کا سہارا بنیں یا نہیں تو کسی دوسری جگہ شادی میں تعاون کریں ۔ اور ظاہر سی بات ہے اس کام کے لئے علماء ہی اپنا کردار پیش کریں گے پھر ان سے عوام کو نصیحت ملے گی ۔
کم از کتنے گھنٹے سونا چاہیے؟
ویسے تو آٹھ گھنٹے سنا ہوں مگر چھ گھنٹے بھی میرے خیال سے کافی ہیں اوردن میں قیلولہ کرلیا جائے ۔ ۔ اتنا زیادہ نہ سویا جائے کہ آدمی سستی کا شکار ہوجائیاور فرائض و واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی سرزدہو ۔
علمائے کرام مدارس میں پڑھائیں یا کالجز میں، زیادہ فائدہ کہاں ہے؟
علماء کی جگہ مدارس ہی ہے اور مدارس اسلام کے قلعے مانے جاتے ہیں انہیں سے اسلام کو سب سے زیادہ تحفظ ملا اسی سبب دشمنان اسلام مدارس کی شبیہ بگاڑنے ، ان میں پڑھنے پڑھانے والوں کا کردار مشکوک کرنے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی ناپاک کوشش کی مگر اﷲ جس کی حفاظت کرے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اگر علماء اس جگہ سے چلے جائیں تو پھر یہاں کون رہے گا؟ کون اس کی نگہبانی، حفاظت اور آبیاری کرے گا؟ ہاں ایک مشورہ یہ ضرور دوں گا کہ علماء کو اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ اور اساتذہ کے لئے گاہے بگاہیاسلامی لکچر کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ اس کے بڑے فوائد ہیں جو محسوس کرتے ہیں وہ ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامک لیکچر کا قیام ممکن نہ ہوتو ان ادارے والوں کو دوسرے جگہ بھی جمع کیا جاسکتا ہے ۔آپ یقین کریں کہ انہیں کوئی بات جلدی سمجھ میں آئے گی اور یہ عوام سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں ۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی ہدایت پالے تو وہ کئی لوگوں کی ہدایت کا سبب بن سکتے ہیں ۔ یہاں صرف مسلم یونیورسٹیوں کی بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ جنرل کالج ویونیورسٹی کی ۔
ائمہ مساجد، خطباء اور مدرسین کی بہترین تربیت میں مشنری جذبہ کی آبیاری کیسے ممکن ہے؟
ان حضرات کے اندر مشنری جذبہ بیدار کرنے کے لئے سب سے اہم کردار ہمارا تربیتی کورس ادا کرے گا۔ ان کے لئے اس سے متعلق تربیتی کورس کا اہتمام کریں اور اس کے ذریعہ انہیں تعلیم وتربیت دیں ساتھ ہی اس کے تجرباتی ومشاہداتی نمونہ پیش کرکے یقین دلائیں وہ ضرور اس سے متاثر ہوں گے اور اس جانب توجہ مبذول کریں گے ۔
علمائے کرام کے نام کوئی پیغام؟
علماء اپنی ذمہ داریاں جانتے ہیں انہیں احسن طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ علماء کے درمیان ایک دوسرے سے حسد کرنا ایسا مرض مہلک ہے کہ جس کی وجہ سے دین کی تبلیغ ، درس وتدریس، نشر واشاعت، اجلاس واجتماع ، تنظیمی وسماجی خدمات سب بے ثمر ہوتے ہیں ۔ ہمیں ایک دوسرے کی خدمت کا اعتراف ، ایک دوسرے کے عزوشرف کا خیال ، ایک دوسرے کے اسرار ورموز کا تحفظ اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر ہم کوئی کام ٹھیک سے اور ایک قدم صحیح سے نہیں بڑھاسکتے ۔ ایک دوسری نصیحت یہ ہے کہ یہ میڈیا کا زمانہ ہے اس کی افادیت کو محسوس کریں اور جس پہلو سے مثبت انداز میں لوگوں کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں پہنچائیں ۔
(۳)طلبہ کرام کی بابت معلومات
طالب علم کی صفات کیا ہونی چاہئیں؟
طالب علم محنتی، کثیر المطالعہ، خوش اخلاق، بلند ہمت ، مثبت طرزفکر، کشادہ خیال اور علم وعمل کی سیڑھی چڑھنے میں اوقات کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جہد مسلسل کا پیکر مجسم ہو۔
بیرون ملک یونیورسٹیز میں داخلہ کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟
بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے میں قباحت نہیں ہے مگر ضرورت کے تحت ۔ جو تعلیم اپنے ملک میں بہتر طور پر میسر ہو اسی تعلیم کے لئے بیرون ملک سفر کرنا نہ وطن کے لحاظ سے ٹھیک ہے اور نہ ہی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ۔ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا ضرورت کے تحت ہو اور وہ تعلم گاہ اختلاط سے پاک ہو اور تہذیب وتمدن سے عاری نہ ہو نیز ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کہیں اس ادارے کا نصاب ایسا تو نہ نہیں جس سے نہ صرف ہمارا کلچر بدل جائے گا بلکہ ہمارے اندر کفر والحاد بھی لے آئے گا۔ عام خواتین کے لئے بیرونی تعلیم مناسب نہیں سمجھتا ہوں کیونکہ اسلامی رو سے ان کے لئے بڑے مسائل ہیں البتہ جن کے لئے شرعا کوئی رکاوٹ نہیں مثلا سفر میں محرم کا انتظام ، پڑھنے لکھنے ، طعام وقیام اور ضرورت وکام کے لئے امن وسہولت میسر ہو تو وہ شرعی حدود میں رہ کرعورتوں کی مخصوص تعلیم گاہ میں علم حاصل کرسکتی ہیں۔
پر فتن دور میں طلبہ کو کوئی نصیحت؟
واقعی آج بڑا پرفتن دور ہے ، ایسے حالات میں طلبہ اسلام کو چاہئے کہ وہ علم پر پوری طرح حاوی رہے اور علم کے مطابق عمل کرے اور غیر علمی کام، غیر متعلق سرگرمی ، غیروں کی مشابہت ونقالی سے بچے ۔ وہ ابھی سے اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنہ وفساد، مکروفریب اور پروپیگنڈے کی بیخ کنی اور اسلام کیدفاع کے لئے علماء سے رہنمائی حاصل کرے اور ان سے خود کوابھی کیسے بچانا ہے اس کی فکر زیادہ سے زیادہ کرے ۔
نوخیز طلبہ کا غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا کہاں تک سود مند ہے؟
جیسے اوپر بات ہوئی کہ یہ پرفتن دور ہے ایسے میں طلباء کا غیرنصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا اپنی منزل مقصود سے ہٹا سکتا ہے ۔ کچھ ایسیہی کاموں سے بہت سے طلبہ تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں یا تعلیم کا راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتے ہیں ۔ابھی ان کا ہدف صرف اور صرف نصابی سرگرمی ہو۔ ہاں چھٹی کے ایام میں یا فارغ اوقات میں تعلیم وتربیت سے جڑی غیر نصابی سرگرمی میں حصہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
کیا طلبہ متداول خطبات سے جمعہ کی تیاری کر سکتے ہیں؟
خطبات اگر قرآن وحدیث کے دلائل سے مزین ہوں تو متداول خطبات سے کم عمر کے طلبہ کے لئے جمعہ کا خطبہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن بڑی جماعت کے طلباء کے لئے بہتر ہے کہ وہ خطبہ کی تیاری کے لئے از خود مختلف رسائل وجرائد اور کتب ومقالات سے مواد اکٹھا کرے اور مستقل موضوع تیار کر ے یا موضوع سے متعلق اہم نکات ومعلومات قلم بند کرے اور اس کے سہارے خطبہ دے ۔ اس سے کئی فوائد حاصل ہوں گے ۔ اولا تحریری صلاحیت پیدا ہوگی اور تقریر ی معلومات میں بہت وزن ہوگا ۔ثانیا مستقبل میں خطبات، دروس اور تقاریر کی تیاری کا ملکہ پیدا ہوجائے گا۔ اورتقریر وتحریر کی تیاری ومہارت ابھی سے نہیں پیدا کریں گے تو کب سے ؟
ایک طالب علم کو کتنے گھنٹے آرام کرنا چاہئے؟
طالب علموں کو اٹھنے اور جاگنے کا خوب خیال کرنا چاہئے کیونکہ مکمل راحت کے بغیردرس کی تیاری کرنا، استاد کی بات سمجھنا اوراسباق حفظ کرکے اسے محفوظ رکھنا مشکل ہوگا۔ طلباء رات میں اگر چھ گھنٹے سوسکیں تو ظہر کے بعد مزید کچھ دیر کے لئے سو جائیں ۔
ورزش کے لیے کونسی کھیلیں مفید ہیں؟
پنچ وقتہ نمازیں ، سنن ونوافل ادا کیا کریں روحانی اور جسمانی دونوں فائدے نصیب ہوں گیاور روزانہ آدھا گھنٹہ پیدل چلنے کا روٹنگ بنالیں تو کسی کھیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان شاء اﷲ
طلبہ کے نام کوئی پیغام؟
طلبہ کو میں پیغام دوں گا کہ وہ مثالی بنیں یعنی اپنے اندر خوبیاں پیدا کریں جن کی وجہ سے آپ کی مثال بیان کی جائے ۔ اگر بہت ساری خوبیاں پیدا کرنا مشکل ہے تو چند خوبیاں یا کم ازکم کسی ایک فن میں ایسی صلاحیت واختصاص پیدا کریں جس کی بدولت آپ لوگوں کی اور اس فن کی بہتر خدمت انجام دے سکیں ۔ ایسا بننے کے دو ہی اصول ہیں پہلاجہد مسلسل اور دوسرا انضباط وقت ۔
(۴)منتظمین رسائل وجراد احباب کی بابت معلومات
موجودہ رسائل وجرائد کس حد تک مفید ہیں؟
سوشل میڈیا کے دور میں طباعت وکتب پر اثر پڑا ہے مگر معیاری رسائل وجرائد کی اہمیت جیسے پہلے تھی اب بھی ہے۔ ان جرائد کی اہمیت کم ہے جو جہاں تہاں سے مضامین کاپی کرلیتے ہیں یا مضامین ہی اصلا معیاری نہیں ہوتے ۔
منتظمین رسائل وجرائد کے نام کوئی پیغام؟
رسائل کے منتظمین کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنے جریدوں کی مقبولیت کے لئے مستقل مضمون نگار رکھیں جو علم میں معتمد ہوں ، ادھر ادھر سے بھرپائی کے مضامین شامل جریدہ نہ کریں ۔ جریدہ میں خطوط کا کالم رکھیں جس سے قارئیں کے خیالات وشکایات اور مشوروں سے آگاہی ملتی رہے گی ان شکایات ومشورے اور حالات کے تناظر میں میگزین کی بہتری کی طرف قدم بڑھاتے رہیں ۔
(۵)منتظمین مدارس ومساجد احباب کی بابت معلومات
جو احباب ادارہ بنانا چاہتے ہیں، ان کی کچھ رہنمائی؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ جو ادارہ بنانا چاہتے ہیں اس قسم کا ادارہ وہاں پہلے سے موجود ہے اور آپ اس سے بہتر کام نہیں کرسکتے یا آپ کا ادارہ پہلے سے موجود ادارے کو نقصان پہنچائے گا تو پھر وہاں ادارے کا قیام ضرورت نہیں فساد ہے۔ آپ وہاں ادارہ کھولیں جہاں کوئی ادارہ نہیں اور ادارے کی نوعیت ضرورت پر منحصر ہے کہ تعلیمی ہو یا اصلاحی ہو یا دعوتی ہو یا سماجی ۔ پھر ادارہ کھولنے والا نہ صرف انتظامی امور کا ماہر ہو بلکہ امین وصادق ہونے کے ساتھ قوم کی خدمت کا ملخصانہ جذبہ رکھتا ہو اور ادارہ قائم کرکے اسے چلاسکنے کا اہل ہو۔ لوگوں نے اداروں کے نام پہ قوم وملت کو بہت لوتا ، خدارا! اداروں کو کمائی کا ذریعہ نہیں خدمت کا وسیلہ بنائیں ۔
مدارس کی طرف لوگوں کا رجحان کیسے بڑھایا جاسکتا ہے؟
مدارس کی کمی نہیں ہے اس طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی ضرورت ہے ۔ بچوں کے سرپرستوں کا ذہن بنانے کی ضرورت ہے ۔ انہیں مختلف قسم کے تربیتی پروگراموں کے ذریعہ دینی تعلیم کی طرف مائل کرسکتے ہیں ۔ جمعہ کیخطبات ، دروس ومحاضرات اور مخصوص تعلیمی بیداری کانفرس بھی اس سلسلے میں مفید ہوں گے ۔
مساجد کی آباد کاری کے لیے انتظامیہ کو کیا اقدامات کرنے چاہیئں؟
لوگو ں کو نماز کی اہمیت پر ابھارنا ہوگا اس کام کے لئے جمعہ کا خطبہ بیحد مؤثر ہوگا۔ نماز پہ مسلسل خطبے دئے جائیں اور تنوع وتاثیر کے لئے دوسری جگہ سے بھی خطیب بلائے جائیں ۔ اس کے علاوہ انتظامیہ کمیٹی جگہ جگہ یا بااثرلوگوں کے گھر امام مسجد کے ذریعہ چھوٹی دینی نششت ہوا کرے ۔نوجوان کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جائے جن کا عوام وخواص سے ربط ہو اس کمیٹی کے ذریعہ لوگوں کو مسجد اور درس وپروگرام میں جمع کیا جائے ۔
ائمہ ومدرسین کے لیے کیا مستوی ہونا چاہئے؟
وہ سلفی منہج کا ہوں اور کسی سلفی ادارے سے فارغ ہوں ۔اگر غیر سلفی ادارے سے فارغ ہوں تو اس کا سلفی منہج ہونا ضروری ہے ۔ وضع قطع اور علم وعمل سے مزین ہوں نیز امامت وخطابت اور درس وتدریس کی قابلیت رکھتے ہوں ۔
منتظمین کے نام کوئی پیغام؟
منتظمین کا ائمہ مساجداور اساتذہ مدارس کے ساتھ بیحد افسوس ناک رویہ پایا جاتا ہے اور تقریبا برصغیر ہندوپاک میں ہرجگہ ایسی ہی صورت حال ہے ۔ اسی افسوسناک صورت حال کی وجہ سے باصلاحیت علماء مساجد ومدارس کی بجائے تنظیم اور دوسری جگہوں کو فوقیت دیتے ہیں ۔ اولا ہماری ذمہ دار ی ہے کہ دینی مقامات پر دین کی بنیاد پر نظماء کا تعین ہو ثانیانظماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ائمہ ومدرسین کا احترم بجالائے، ان کی خدمت کا اعتراف کرے، ان کے ساتھ حسن معاملہ کرے ، ہرممکن سہولیات فراہم کرے اور کسی میں عیب یا غلطی پانے پر اکیلے میں احسن طریقے سے اصلاح کی کوشش کرے ۔
(۶)ناشرین احباب کی بابت معلومات
کس مستوی کے علماء کی کتب نشر کی جائیں؟
پرنٹ میڈیا کی وجہ سے طباعت عروج پر ہے مگر نشر واشاعت کے حوالے سے کوئی معیار نہیں پایا جاتا ہے ۔ جب ، جیسے اور جو چاہتا ہے چھاپ کر لوگوں میں تقسیم کردیتا ہے ۔ کم ازکم مسلم ممالک میں یا مسلم کمیونٹی میں طباعت کا ایک معیاری نظام ہونا چاہئے جیسے سعودی عرب میں پایا جاتا ہے ۔ ہمارے یہاں مختلف گروہوں کا وجود اس نظام کو لانے میں بڑی رکاوٹ ہے تاہم کفر والحاد کی پابندی پر سبھی متفق ہوسکتے ہیں ، اگر ایسا ہوجائے تو کم ازکم کفر والحاد ، توہین رسالت اور گستاخی صحابہ جیسے مواد نشر ہونے سے رک جائیں گے ۔ جہاں تک اپنی جماعت کے علماء کی کتابوں کا مسئلہ ہے تو اس کے لئے ملکی پیمانے پر علماء کی فتوی کمیٹی کی طرح نشریاتی کمیٹی ہو جوکتابوں کی اشاعت کی منظوری نظر ثانی کے بعد دے ۔ میری نظر میں صرف منہج سلف کی ترجمانی کرنے والی معیاری کتابیں شائع کی جائیں اور جس سے جماعت کا نقصان ہو اس کی اشاعت پر پابندی لگائی جائے ۔
ناشرین احباب کے نام کوئی پیغام؟
ناشروں سے گزارش ہے کہ کتابوں کی اشاعت میں دین کی خدمت کو مدنظر رکھیں تاکہ دینی کتابوں کی اشاعت پر آپ کو اﷲ کی طرف سے اجر ملے ۔ یقین کریں کتابوں کی اشاعت کا اجر اس وقت تک ملے گا جب تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے مگر یہ اس وقت ممکن ہے جب آپ کی نیت اجر کی ہو۔ جب دینی کتابوں کی اشاعت پر اس قدر اجر ملے گا تو کفر وشرک پر مبنی کتابوں کی اشاعت پر گناہ بھی اس وقت تک ملے گا جب تک لوگ اس کتاب سے گمراہ ہوتے رہیں گے ۔ اس لئے خالص کتاب وسنت پر مبنی کتابوں کو چھاپیں اور ایسے جید عالم جن کے پاس کتابوں کی چھپائی کے پیسے نہیں ہیں طباعت میں ان کی مدد کریں ۔
(۷)عوام الناس کی بابت معلومات
عوام الناس کن علمائے کرام سے فتوی طلب کرسکتے ہیں؟
عوام کو مستند علمی اداروں میں افتا کے منصب پر مامور مفتی سے فتوی طلب کرنا چاہئے جو قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل بتاتے ہوں۔ اسی طرح جید عالم دین جن کے علم کی گواہی ایک جماعت دے اور وہ افتا ء کے آداب سے واقف اور اس کی شرائط پہ اترتے ہوں تو مسائل واحکام میں ان سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہیاوردین کی عام معلومات عام علماء سے بھی لے سکتے ہیں جن کے علم کے متعلق معروف ہو کہ وہ قرآن وحدیث سے ہی بتلاتے ہیں ۔
عوام کو کن کتب سے استفادہ کرنا چاہئے؟
تفسیر میں احسن البیان ، کم ازکم صحیح بخاری کا اردو ترجمہ(مولانا داؤد راز کا)، سیرت میں الرحیق المختوم، باقی دینی علوم کے لئے محمدی سیٹ، کیلانی سیٹ، تاریخ اسلام اور تاریخ اہل حدیث کا مطالعہ ضرور کریں ۔ آڈیوویڈیو سے بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں اس کے لئے شیخ جلال الدین قاسمی حفظہ اﷲ، شیخ مقصودالحسن فیضی حفظہ اﷲ ، ڈاکٹرطالب الرحمن حفظہ اﷲ وغیرہ
عام آدمی کس طرح تحقیق کرسکتا ہے؟
تحقیق کیا ہے ؟ کس قسم کی تحقیق کے لئے کون سی چیزیں درکار ہیں ؟ علماء کرام سے پہلے اس بات کا علم حاصل کریجب اسے اس کی معلومات ہوجائے تو تحقیق کرسکتا ہے ۔ ہاں عام آدمی ہر قسم کی تحقیق نہیں کرسکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ علماء کی رہنمائی میں دین کا صحیح علم ضرورحاصل کرسکتا ہے۔
عوام الناس نماز سے بہت دور ہیں، انھیں نماز کی طرف کیسے راغب کیا جاسکتا ہے؟
مساجد کی آبادی کاری میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے لہذا وہی جواب کافی ہے ۔
 

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 315 Articles with 311590 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.