محمد عبد اﷲ شارق
بعض حلقے قومِ یہود کا یوں تعارف کراتے ہیں کہ یہ نہایت ذہین وفطین قوم ہے،
گریٹ گیمز کی خالق ہے، دنیا پر اصل حکومت انہی کی ہے اور دنیا کی حکومتیں
ان کے شکنجہ میں کسی ہوئی ہیں۔ وہ ان کی ذہانت وفطانت اور قوت وطاقت کو
بیان کرنے کے لیے نہایت مبالغہ آمیز اور بھاری بھرکم الفاظ استعمال کرتے
ہیں، انہیں دنیا کی ڈور ہلانے والی اصل قوت کہتے ہیں اور بعض ایسی تعبیرات
بھی استعمال کرتے ہیں جو یقین جانئے کہ اس کائنات کے اصل مالک کے علاوہ کسی
اور کے لیے استعمال کرنے پر غیرت سی آتی ہے۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ تصویر
کا دوسرا رخ کیا ہے، یہی قومِ یہود کس طرح دنیا میں پچھلے دو ہزار سال سے
مسلسل اپنی بد کرداریوں کی وجہ سے پٹ رہی ہے، کس طرح اﷲ کی تدبیروں کے
مقابلہ میں یہ بے بس رہے ہیں، کس طرح یہ اہلِ ایمان کو دھوکا دے کر در اصل
خود اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں، کس طرح یہ گریٹ گیمز کے خالق پچھلے دو ہزار
سال سے خود اپنے قبلہ کی تولیت تک سے محروم رہے ہیں۔ اﷲ نے بنی اسرائیل کی
طرف خصوصیت کے ساتھ مبعوث اپنے آخری نبی عیسی علیہ السلام کو فرمایا تھا کہ
میں قیامت تک تمہارے متبعین کو تمہارے منکرین سے اوپر رکھوں گا، چنانچہ یہ
تاریخی حقیقت ہے کہ عیسی علیہ السلام کے نام لیوا(اہلِ ایمان اور مسیحیوں)
کے مقابلہ میں یہ کبھی بھی قوت حاصل نہیں کرسکے، بلکہ جہاں بھی رہے، دوسروں
کے طفیلی بن کر رہے۔
قرآن میں قومِ یہود کا یہ تعارف کرایا گیا ہے کہ یہ ایک مغضوب علیہ قوم ہے،
اس پر خدا کا غضب نازل ہوا اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک یہ نبیوں کا قتل
کرنے والے اپنے آباء سے رشتہ توڑ کر مسیح علیہ السلام اور محمد صلی اﷲ علیہ
وسلم سے رشتہ نہیں جوڑتے اور خدا کے تمام سچے نبیوں پر بلاتفریق ایمان نہیں
لاتے۔ ایک جگہ فرمایا ہے کہ قیامت تک ان پر ایسے لوگ مسلط ہوتے رہیں گے جو
انہیں ان کے اعمال کا مزا چکھاتے رہیں گے۔ اگر دیکھا جائے تو یہود کی تاریخ
ان قرآنی بیانات کی حرف بہ حرف تصدیق کرتی ہے۔ روس، فرانس، لندن، جرمنی،
اسپین اور یورپ سمیت نہ جانے کہاں کہاں ان کا قتلِ عام ہوا، بے دخل ہوئے
اور نہ جانے کس کس ملک نے ان پر اپنے دروازے سرے سے بند کرنے کے بارہ میں
سوچا۔ نیز بغداد، ترکی،مصر، اسپین اور پولینڈ سمیت نہ جانے کہاں کہاں ان کو
عزت سے رہنے کا موقع ملا مگر یہ اپنے سازشی اور فسادی کردار سے باز نہ آئے
جس کی وجہ سے انہیں ہر جگہ ذلیل ہونا پڑا۔
یہود کا کردار ہمیشہ سے ایک سازشی کردار رہاہے، یہ جہاں رہے وہاں سازشوں کے
ذریعہ اپنا آپ منوانے کی کوشش میں لگے رہے، انبیاء کے ساتھ خودکو منسوب
کرنے کی وجہ سے ان کا فرض تھا کہ یہ انبیاء کی دعوتِ ایمان وتوحید کو دنیا
بھر میں پھیلاتے اور جہاں بھی جاتے اس دعوتِ الہی کے نقیب بن کر جاتے، مگر
یہ جہاں بھی گئے، قومی عصبیت کے پیکر اور سود وفحاشی کے جیسے منکرات کے
نقیب بن کر گئے۔ چنانچہ قرآنی وعید کے مطابق یہ اپنی بد کرداری کی وجہ سے
ہرجگہ ذلیل ہوکر پٹتے رہے اور کبھی سر اٹھا کر دنیا میں جی نہ پائے۔ اگر
کہیں پر اقتدار ملا بھی تو اپنے اصلی بھیس میں نہیں ملا، چنانچہ اسپین میں
ایک مرانو خاندان نے تین سو سال حکومت کی جو بقول مؤرخین کے در پردہ یہودی
مگر بظاہر عیسائی بنا ہوا تھا۔ خصوصا عیسائی ریاستوں میں مسیح علیہ السلام
کا قاتل سمجھ کر ان کے ساتھ نہایت تذلیل آمیز سلوک ہوتا رہا۔
موجودہ دور میں فلسطین کے اندر ایک قطعہء زمین حاصل کرکے اسرائیل نامی
ریاست کا قیام ان کا کوئی ایسا کارنامہ نہیں جس پر ہمیں ان کی ذہانت اور
قوت وطاقت کے رعب میں ناک تک دھنس جانے کی ضرورت ہو، یہ انسان ہیں اور
انہیں انسان ہی رہنے دیجئے، قوت اور طاقت کا دیوتا مت بنائیے۔ اسرائیل نامی
ریاست قائم تو ہوئی مگر گریٹ گیمز کے ان تخلیق کاروں کو ابتداء ہی میں اس
کی کیا قیمت چکانا پڑی؟ کیا ہم جانتے ہیں؟ پہلی جنگِ عظیم کے دوران جب
جرمنی اور برطانیہ دو بدو تھے، برطانیہ نے جرمنی کو ناک رگڑوانے کے لیے
جرمنی کے یہودیوں کی خدمات حاصل کیں اور ان سے وعدہ کیا گیا کہ کامیابی کی
صورت میں چونکہ جرمنی کے حلیف خلافتِ عثمانیہ پر بھی زد پڑے گی اس لیے
خلافتِ عثمانیہ کی قلم رو میں شامل خطہ فلسطین میں ان کو ریاست قائم کرنے
لیے جگہ دی جائے گی اور ان کے دو ہزار سالہ زخم پر مرہم رکھنے کا انتظام
کیا جائے گا، یہ معاہدہ بالفور کہلاتا ہے۔ جرمن یہودیوں نے اس کی ہامی بھر
لی اور جرمن فوج اور اس کے جنگی نقشوں کے راز برطانوی اتحادی طاقتوں تک
پہنچائے، یوں اپنے محسن وطن کے خلاف برطانیہ کو جتوانے میں کردار ادا کیا۔
اس سازش پر ہٹلر نے ان کو جو سزا دی، وہ تاریخ کا ایک خونیں باب ہے اور
مقدس ہولو کاسٹ کے نام سے ان کے عقائد کا حصہ بن چکی ہے، جسے وہ اپنی
مظلومیت کا حوالہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور جس کا انکار کرنا یہود کے نزدیک
قابلِ تعزیر جرم ہے۔ جی ہاں، ساٹھ لاکھ یہودیوں کو جرمنی میں قتل کیا گیا۔
یہود نے سینکڑوں کتابیں لکھ کر اپنی بے گناہی کا رونا رویا، مگر ان کے
سازشی کردار کو ایک دنیا تسلیم کرتی ہے۔ یوں دنیا کی تاریخ ان کے بارہ میں
قرآنی بیانات کی مسلسل تصدیق کر رہی ہے۔
سورہ بنی اسرائیل کے مطابق یہود کو ان کی اپنی کتابِ مقدس کے اندر ہی
بتادیا گیا تھا کہ دنیا میں ایک بار تمہیں عروج حاصل ہوگا، مگر تم زمین میں
فساد پھیلاؤ گے جس کی پاداش میں تم پر تمہارا دشمن مسلط ہوگا اور مسجدِ
اقصی پر بھی اسی کا قبضہ ہوجائیگا، بعد ازاں اﷲ تعالی کی طرف سے اصلاحِ
احوال کے لیے ایک اور موقع دیا جائے گا، مسجدِ اقصی پر تمہاری تولیت بحال
ہوگی اور دنیاوی وجاہت کا سامان مہیا کیا جائے گا، مگر تم اب کی بار بھی
اپنی سابقہ روش پر واپس پلٹ جاؤگے تو تمہارا دشمن بھی ایک بار پھر تمہارے
اوپر چڑھ آئے گا، تمہارے چہرے بگاڑ دے گا اور مسجدِ اقصی پر ایک بار پھر
قبضہ ہوجائے گا۔ چنانچہ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ ایک بار بخت نصر
کے ہاتھوں اور دوسری بار حضرت عیسی علیہ اسلام کی وفات کے بعد رومیوں کے
ہاتھوں یہ مسجدِ اقصی کی تولیت سے محروم ہوئے۔ یہ محرومی بعد ازاں دو ہزار
سال تک باقی رہی، مسجدِ اقصی پہلے مسیحیوں کے پاس اور بعد ازاں مسلمانوں کے
پاس رہی۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ موجودہ دور میں کیا وہ اسباب ختم ہوگئے ہیں جن کی
وجہ سے یہ دوسری بار مسجدِ اقصی سے محروم ہوئے تھے؟ دوسری بار محرومی کا
ایک بڑا سبب ان کا مسیح علیہ السلام کے تمام تر معجزات کے باوجود ان کی
نبوت سے انکار کرنا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا خدا کے سب نبیوں پر یہ
بلاتفریق ایمان لے آئے ہیں؟ کیا انہوں نے مسیح اور محمد علیہما السلام کی
تکذیب کو نجات کے لیے ضروری سمجھنے کی بجائے ان کی تصدیق کو نجات کے لیے
ضروری سمجھنے کی روش اختیار کر لی ہے؟ کیا اس دور میں یہ اب فساد فی الارض
کے مرتکب نہیں ہیں؟ کیا انہوں نے اہلِ ایمان کو اہلِ شرک اور اہلِ الحاد پر
ترجیح دینے کا رویہ اختیار کر لیا ہے؟ ظاہر ہے کہ ان سب سوالوں کاجواب نفی
میں ہے۔ یہ بدستور اپنے ان آباء کی روش پر ہیں جنہوں نے اﷲ کے نبیوں میں سے
جن پر مرضی آئی، انہیں مان لیا اور جن پر مرضی نہ آئی تو انہیں چھوڑ دیا۔
پس اپنی گم راہیوں سے توبہ کیے بنا مسجد اقصی کی تولیت کی طرف ان کا قدم
بڑھانا اور خدا کی طرف سے بھی ان کو ڈھیل کا بظاہر ملنا کچھ اور ہی کہانی
سنا رہا ہے اور یہ وہی کہانی ہی معلوم ہوتی ہے جو اولا ظہورِ مہدی، بعد
ازاں ظہورِ دجال اور بعد ازاں ظہورِ مسیح پر منتج ہوگی۔ یہود پر بڑا کڑا
وقت آنے والا ہے۔
قرآن وحدیث میں کوئی ایسی تصریح تو ہمارے علم میں نہیں آسکی کہ اخیر زمانہ
میں یہود کا بیت المقدس پر قبضہ ہوگا، لیکن بعض قرائن ایسے ملتے ہیں جن سے
اس کی تائید ہوتی ہے، مثلا یہاں صرف چند باتوں کی طرف اشارہ کافی ہوگا۔ ایک
حدیث میں ہے کہ دجال کے اکثر پیروکار یہود ہوں گے، جبکہ ایک اور حدیث کا
مفہوم ہے کہ دجال بابِ لد (تل ابیب) کے قریب مارا جائے گا، ان دونوں حدیثوں
کو ملا کر پڑھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ توبہ اور ایمان کے بغیر القدس کے آس
پاس یہود کا یہ اجتماع اور ان کے دو ہزار سالہ خواب کی یوں اچانک تکمیل در
اصل اپنے اس آخری انجام تک پہنچنے کے لیے ہے جب حدیثِ نبوی کے مطابق انہیں
شجرِ غرقد کے سوا کوئی درخت تک پناہ دینے کے لیے تیار نہ ہوگا اور پکار کر
کہے گا: اے مسلم! میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ جو تدبیریں چل رہے ہیں، وہ در اصل ایک عظیم خدائی اسکیم
کا حصہ ہیں اور عن قریب یہ خود ایک بہت بڑی خدائی تدبیر کا شکار ہونے والے
ہیں۔ خدا جب اپنے دشمنوں کو ڈھیل دیتا ہے تو اس کایہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ
اس کی قدرت کے حصار سے نکل گئے ہیں، نہیں۔ بلکہ دوسروں کو اپنے گھیراؤ میں
سمجھنے والے در اصل ہر وقت کسی اور کے گھیراؤ میں رہتے ہیں، ان کو ملنے
والی قوت وطاقت خود خدا کی ایک اپنی اسکیم کے تحت ہوتی ہے۔ یہودکے بارہ میں
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ انہو ں نے واقعی دنیاکا گھیراؤ کر رکھا ہے تو
ایک اس سے بھی زیادہ بڑی حقیقت یہ ہے کہ وہ خود ہر وقت کسی اور کے حصار اور
گھیراؤ میں ہیں اور عن قریب ان کے گرد گھیراؤ تنگ ہونے والا ہے۔ آثار
وقرائن بتاتے ہیں کہ فلسطین میں یہ خود نہیں آئے، بلکہ خدا کی تقدیر، خدا
کی اسکیم اور خدا ہی کا مقرر کردہ وقت انہیں کھینچ کر یہاں لایا ہے۔ فلسطین
پر ان کا قبضہ اور اجتماع در اصل اپنے آخری انجام تک پہنچنے کے لیے ہے۔ تو
کیوں نہ ہم دن رات یہود کی قوت وطاقت کے قصے سننے سنانے کی بجائے اس خدائی
اسکیم کا ہی دن رات تذکرہ کریں، جو ان کی قوت وطاقت سے کہیں زیادہ بڑی
حقیقت ہے اور جس کے مقابلہ میں یہود کی قوت وطاقت قابلِ ذکر بھی نہیں ہے۔
ضروری نہیں کہ ان کی اس پیش قدی کے بعد مسیح الحق اور مسیح دجال کا معرکہ
ہی پیش آنے والا ہو، اگرچہ قرائن اس خطرے کی طرف بھی اشارہ کر رہے ہیں، مگر
ظاہر ہے کہ اس رائے پر بہرحال اصرار نہیں کیا جاسکتا۔ یوں ضروری نہیں کہ
یہود کی ان تازہ پھرتیوں کے بعد ان کی وہی آخری درگت بننے والی ہو اور وہ
اس وقت خدا کی اسی اسکیم کے گھیراؤ میں ہوں، جس کا تذکرہ احادیث میں آتا
ہے، مگر اتنا ضرور ہے کہ فسادی قوموں کو جب بھی دنیا میں عروج ملا ہے تو وہ
ضرور خدا کی کسی نہ کسی اسکیم کا حصہ ہوتا ہے اور اپنے عروج کے بعد وہ خدا
کی پکڑ میں ضرور آتی ہیں۔ یوں یہود کے اس اقتدار کے بعد قیامت کی بڑی
علامات کا ظہور ہو یا نہ ہو،مگر اتنا ضرور ہے کہ اپنی اس روش کے ساتھ وہ
خدا کے عتاب سے بچ نہیں پائیں گے اور کسی نہ کسی صورت یہ خدا کے شدید ترین
عتاب کا شکار ضرور ہوں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ یہود کی قوت وطاقت کے تذکرہ کے ساتھ اس سے کہیں
زیادہ زور دار انداز میں اﷲ کی قوت وطاقت کا تذکرہ کیا جائے، یہ ہمارے لیے
اسلحہ کی دوڑ میں ان کا مقابلہ کرنے سے بھی کہیں زیادہ ضروری کام ہے۔ ہمارا
یہ منصب ہے کہ ہم دنیاکو بتائیں کہ اس دنیا پر نہ تو دنیا کے ظاہری حکم
رانوں کی حکومت ہے، نہ عالمی اداروں کی، نہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اور نہ
ہی ان کے توسط سے کسی اور کی، بلکہ اس کائنات کا اصل حکم ران اﷲ ہے، وہی اس
دنیا کی ڈور ہلانے والی اصل قوت ہے، ہر ہر ذرہ اور قطرہ پر اسی کی حکومت
نافذ ہے، اس سے اور اس کے نبیوں سے لڑائی مول لے کر کبھی کوئی نہ جیتا ہے
نہ جیت سکتا ہے، اسی کی قوت ہی اصل قوت ہے اور اس کے اقتدارِ حقیقی کو
سامنے رکھا جائے تو بڑے بڑے فرعونوں کی قوت محض مکڑی کا جالا معلوم ہوتی ہے
اور ان کے ڈھول کا پول کھلتے دیر نہیں لگتی۔ اس دنیا میں اس کی حکومت ایک
خاص تد بیر کے ساتھ چل رہی ہے، بعض اوقات وہ اپنے منکروں کو بھی ڈھیل اور
قوت عطا کردیتا ہے، مگر منکرین بھی ہر وقت اس کی ایک اسکیم کے گھیراؤ میں
رہتے ہیں، وقتِ مقررہ آنے پر وہ گھیراؤ جب تنگ ہوتا ہے تو بڑے بڑے فرعونوں
کو اس آسمان نے خالی ہاتھ ڈوبتے دیکھا ہے۔
ہمارا منصب ہے کہ دنیا کو خدا کی اس اسکیم کے بارہ میں بتائیں تاکہ خدا کے
دشمن اپنی جس قوت وطاقت کا ڈھنڈورا دنیا میں پیٹ رہے ہیں، اس سے نگاہ ہٹ کر
انسانیت کی نگاہ خدا کی اسکیم پر آجائے اور انسانیت اس خوابِ غفلت سے بیدار
ہوجائے جو خدا کے دشمنوں کی قوت وطاقت کے رعب کی صورت میں آج ان پر طاری
ہے۔ اہلِ کفر کی قوت وطاقت کا ذکر کرنا منع نہیں، مگر اسی شرط کے ساتھ کہ
اس کے ساتھ ہی اس سے زیادہ اہمیت کے ساتھ خدا کی قوت وطاقت کا بھی ذکر کیا
جائے اور بتایا جائے کہ اہلِ کفرکو ڈھیل دینے میں کس طرح رب العلمین کی
اپنی اسکیم کار فرما ہوتی ہے جس کا گھیراؤ اہلِ کفر نہ تو کبھی توڑ سکے ہیں
اور نہ ہی توڑ سکیں گے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم یہود کی قوت وطاقت
کا جتنا تذکرہ کرتے ہیں، اتنا خدائی اسکیم کا ذکر نہیں کرتے جس کی وجہ سے
ہمارے دل پہ اﷲ کے غیر کی مرعوبیت کا غبار پڑا ہوا ہے اور حد یہ ہے کہ بعض
مسلمانوں کو تو اﷲ کی قوت وطاقت کے تذکروں میں اتنی دلچسپی پیدا نہیں ہوتی
جتنی یہود کی قوت وطاقت کے جھوٹے سچے تذکروں میں۔ اہلِ کفر کی قوت وطاقت کا
ایسا تذکرہ کہ جس کے لفظ لفظ سے مرعوبیت کا احساس ہو اور انہیں دن رات دنیا
کی ڈور ہلانے والی اور دنیا کی اصل حکم ران قوت کہا جائے، جبکہ اس کے ساتھ
اﷲ کی قوت کے مقابلہ میں ان کی قوت کے ڈھول کا پول اتنی شدت سے نہ کھولنا
واقعات کی غلط نقشہ کشی ہے اور اس سے خود دشمن ہی کے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔
جنگ کے دو حریفوں میں سے جب ایک حریف دوسرے پر اپنا رعب طاری کردے تو سمجھ
لیجئے کہ وہ ایک بڑی کامیابی تو بغیر لڑے ہی حاصل کرچکا ہے۔ دشمن کی قوت
وطاقت کا حقیقت پسندانہ ادراک ضروری ہے، مگر اسی کے مرعوبانہ تذکرے کرتے
رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نیز یہ حقیقت ہے کہ یہود کی قوت اور ذہانت کے
بارہ میں ہمارے تصورات کچھ مبالغہ پر مبنی ہیں۔
یہود اگر دنیا بھر میں پٹے جانے پر اور اپنی اب تک محرومیوں پر غم زدہ ہیں
تو انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔ توبہ کا دروازہ کھلا
ہے، مسیح اور محمد علیہما لصلوۃ والسلام سمیت تمام نبیوں پر بلاتفریق ایمان
لے آکر وہ اپنے دکھوں کا مداوا کرلیں، خدا کے محبوب بن جائیں اور اپنی دنیا
وآخرت سنوار لیں۔ خدا کو راضی کرنے کے لیے یہ صحیح راستہ اختیار کرنے کی
بجائے بیت المقدس اور مسجدِ اقصی پر قبضہ کرنے کے لیے دنیا میں سازشوں کے
جال بچھانا، اہلِ ایمان پر مظالم کے پہاڑ توڑنا، دنیا سے گناہ اور گم راہی
کے اندھیرے ختم کرنے کی بجائے انہیں پھیلانے میں دلچسپی لینا،سیدھا سیدھا
خدا کے رنگ میں رنگ کر اسے راضی کرنے کی بجائے مسجدِ اقصی پر قبضہ کے لیے
دن رات تلملانا انہیں ہر گز خدا کا محبوب نہیں بنائے گا، نہ ہی ان کے لیے
مشکلوں کا دور ختم ہوگا بلکہ ایک وقت آئے گا کہ دجال کی چالیس روزہ حکومت
کے بعد زمین ان کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردے گی۔ یہود کو اب توبہ کرلینی
چاہئے۔ ورنہ ان کا یہاں جمع ہونا ان کی کوئی گریٹ گیم نہیں، بلکہ خدا ہی کی
ایک عظیم اسکیم کا حصہ معلوم ہوتا ہے اور خدا کی اسکیم کو کوئی بدل نہیں
سکتا۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنے ایمان کو مضبوط کریں، اسی ایمان کے ساتھ
مرنے جینے کی قسمیں کھائیں، اپنی اصلاح پر توجہ دیں، اپنی توبہ کو سچا
بنائیں اور اپنے ضعف کی دہائی دے کر خدا سے فتنوں سے بچنے کی دعا مانگیں
اور یہود کی قوت وطاقت کے مرعوبانہ تذکرے کرنے کی بجائے اﷲ ہی کی قوت وطاقت
کی صدا پوری دنیا میں لگائیں، اس سے یہود کی قوت وطاقت کے ڈھول کا سارا پول
بھی کھل جائے گا۔یہی ہمارا منصب ہے اور یہی ہمارا کام۔
دنیا کے نام نہاد حقیقی حکم ران اور دنیا کی ڈور ہلانے والے یہود کے ضعف
وخوف کا یہ عالم ہے کہ فلسطین پر ان کے قبضہ کو ستر سال سے زیادہ ہوگئے اور
ان کا دعوی ۱۹۴۸ء سے یہ ہے کہ ہمارا دار الحکومت بیت المقدس ہے (بلکہ ان کا
عقیدہ اور آرزو دو ہزار سال سے یہی ہے)، مگر وہ نہ تو خود ایسا کرسکے اور
نہ ہی ستر سال سے دنیا کے کسی ملک کو اپنے اس دعوی میں اتحادی بناسکے ہیں۔
امریکا پہلا ملک ہے جس نے ان کے اس دعوے کو ستر سال بعد قدرے تسلیم کیا ہے
اور اس پر وہ پھولے نہیں سما رہے۔ نیز ان کے خوابوں کی دنیا صرف یروشلم
نہیں، بلکہ اس کی حدود بہت آگے تک جاتی ہیں مگر ایک صدی ہونے کو آئی ہے اور
گولہ وبارود کے انباروں کے باوجود ’’دلی‘‘ ان کی پہنچ سے ابھی بہت دور ہے۔
کیا ان کی انہی ’’کامیابیوں‘‘ پر ہم انہیں ذہانت اور طاقت کا دیوتا باور
کرلیں؟ کیا ان کی انہی کامرانیوں پر ہم اپنی آنکھوں پہ ان سے مرعوبیت کی
پٹی باندھ لیں؟ ممکن ہے کہ آئندہ ایام میں اﷲ کے تقدیری فیصلوں کے تحت ان
کی کار روائیوں کی رفتار کچھ تیز ہوجائے، مگر ان کی یہ تیز رفتاری خود انہی
کے لیے نقصان دہ ہوگی اور ان کے لیے جلد انجام تک پہنچنے کا ذریعہ بنے گی۔
وہ دور بے شک اہلِ یمان کے لیے بھی امتحان کا دور ہوگا، لیکن اصل میں یہ
دور یہود کے لیے عذاب کا تازیانہ بن کر آئے گا۔
یہود کا دعوی ہے کہ وہ مسیحیت کے برعکس عقیدہ توحید پر پورے ثبات کے ساتھ
قائم ہیں، مگر یہ صرف ان کی خوش فہمی ہے، ان کا جرم مسیحیت کے جرم سے بڑھا
ہوا ہے اور ان کا دعوی ’’ایمان باﷲ‘‘ خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
دنیا میں ان کی خواری کا خدائی فیصلہ بھی ان کے اسی کردار کی وجہ سے ہے، ان
کے ’’ایمان باﷲ‘‘ کی اصل حقیقت اور نوعیت پر ہم ایک مستقل مضمون میں
گذارشات پیش کریں گے، ان شاء اﷲ! |