پختونخوا کے حکومت نے تو بہت سے عجیب وغریب کام کئے ہیں
مگر ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بہت پہلے سے اخبارات میں بیانات آتے رہے
ہیں کہ ہم ائمہ کرام کو اعزازیہ دینا چاہتے ہیں اور اس اعلان کے ساتھ ساتھ
ایک اہم اور قابل ستائش اعلان یہ بھی ہے کہ ہم مساجد میں سولر پلانٹ لگائیں
گے۔اب یہاں پر دو اعلانات ہیں،آج کی تحریر میں صرف ان ہی دو ایشو کو لے
کربات کریں گے،پہلااعلان یہ ہے کہ ائمہ کرام کو اعزازیہ دیا جائے گا،قطع
نظر اس سے کہ یہ فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے؟کس غرض سے ہورہی ہے؟کیا مذہبی
جماعتوں کے نظریاتی کارکنوں کو خریداجارہاہے؟اور قطع نظراس سے کہ یہ تنخواہ
کے اعلان سے یوٹرن ہے،میں تو بالکل اس کام کو ایک اہم سیاسی پیش رفت سمجھتا
ہوں کہ ائمہ کرام کو اعزازیہ دیا جائے اور یہ اسی حکومت کا خاص الخاص اعلان
ہے کہ حیدر ہوتی کے مساجداورجنازگاہوں کے لیے خطیر رقوم دینے کے علاوہ
پچھلے حکومتوں نے کبھی ایسے اعلانات نہیں کئے ہیں،میری ذاتی رائے یہ ہے کہ
ائمہ کرام کو اعزازیہ لے لیں مگر اپنی وقار اور عزت کو برقرار
رکھے،علم،داڑھی اور پگڑی کالاج رکھے،کیونکہ یہ بات پہلے سے مشاہدہ میں آرہا
ہے کہ جب افغان مہاجرین کو کارڈز اور راشن دینے کا اعلان کیا گیا تو پھر
راشن سنٹروں پرمہاجرین بھائیوں کو قطاروں میں لڑتے ہوئے پایا کہ میرا پہلا
نمبر ہے،یہ اور وہ،نہ رات کی تاریکی کا خیال اور نہ دن کے لڑکھڑاتے سورج کی
گرمی،بس قطاروں میں کھڑے راشن وصول کرتے تھے،یہاں تک دیکھا کہ غیرت مند
پختون مائیں اور بہنیں بھی دن رات سڑکوں پر ہوا کرتی تھی،انہوں نے سڑکوں پر
اپنا بسیرا رکھا ہوا تھا تو ایسا نہ ہو کہ کل کو ائمہ کرام بھی اسی حکومت
کے در پر جمع ہو نہ رات کی تاریکی کا کوئی فکر تو نہ پورا پورا دن قطاروں
میں کھڑے ہونے کی تھکاوٹ۔حکومت وقت کو بھی چاہئے کہ یہی ائمہ کرام اسی
مملکت خداداد پاکستان کا سرمایہ ہے اور یہی ائمہ کرام اسی مملکت
خدادادپاکستان کے صف اول کے مجاہدین ہیں،ان کو اپنی دروں پر رسوا نہ
کریں،اگر ائمہ کرام کو اعزازیہ دینا ہے اور سیاسی مفاداور نمبر سکورنگ اپنی
جگہ لیکن بہت ہی عزت واحترام کے ساتھ جا کران کواعزاز یہ دے دیا جائے،بلکہ
میری رائے تو یہی ہے کہ ان ائمہ کرام کے ناموں پر بینکوں میں اکاؤنٹ بنائے
جائے اور پھر ان کا اعزازیہ انہیں بینک اکاؤنٹ کے ذریعے دیا کریں یہی بالکل
احسن اور باعزت طریقہ ہے،اس میں نہ تو کسی سرکاری ادارے کے منتظمین کا کوئی
مشکل ہوگی اور نہ ہی ائمہ کرام کی عزت مجروح ہوگی۔
پختونخواکی حکومت نے دوسرا اعلان یہ کیا ہے کہ پختونخوا کے تمام مساجد میں
سولر پلانٹ لگا دئے جائیں گے،اس پر تو میری رائے یہ ہے کہ بالکل یہ بھی ایک
قابل ستائش اقدام ہے ،آپ بالکل اسی طرح کر لیں مگراس کے ساتھ ساتھ جناب
وزیر اعلیٰ اور گورنر خیبر پختونخوا سے میری ایک گزارش یہ بھی ہے کہ دیکھیں
یہی مساجد ہمارے دین دوستی کا ایک بہت ہی بڑا ثبوت ہے،اگر آپ اتنا خرچہ
کرنا چاہتے ہیں کہ ہر ہر مسجد میں سولر پلانٹ لگائیں گے،تو اس پر وقت بھی
بہت زیادہ لگے گا اور پیسہ بھی،پھر یہ سولر پلانٹ کبھی کام کریں گے تو کبھی
خراب اورویران پڑے ہوں گے،تو ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ عوام الناس یا حکومت
وقت کے خزانے کا وافر حصہ اس پر خرچ کر دیا جائے،اس میں دورائے نہیں ہے کہ
بہت ہی اچھا کام ہے لیکن اگر اتنے بڑے پیمانے پر خرچے کی بجائے اسمبلی کے
فلور پر یہ ایک بل منظور کیا جائے تمام مساجد کے بجلی بل حکومت وقت ادا
کریں گی اور آج سے مساجد کے بجلی بل ختم،اگر یہ مشکل ہے تو کم از کم یہ کیا
جائے کہ جتنا خرچہ ایک مسجد کے سولر پلانٹ پر آتا ہے تو اسی کے حساب سے
مساجد کے بلوں کو کم کیا جائے،اگر خیبر پختونخوا کی حکومت نے یہ کام کر لیا
تو یہ حکومت اسی کے ذریعے عوام کے دلوں میں بھی گھر بنا دے گی۔میں نے یہ
بجلی بل والی بات اس لیے تحریر کر دی کہ یہی مساجد نہ تو کسی کی اپنی جاگیر
ہوتی ہے اور نہ ہی اپنا گھر،عوام الناس میں سے اکثر غریب لوگ اپنے گھروں کی
بجلی بل ادا نہیں کر سکتے تو چہ جائے کہ مساجد کے بلوں کو بھی اداکریں گے
اور ہاں عوام الناس میں الحمداﷲ اب بھی ایسے باضمیر لوگ موجود ہیں کہ وہ یہ
کام اکثر اپنی ہی دولت سے اکھیلے کرتے ہیں اپنے گھر کے بلوں کی طرح مساجد
کے بل بھی ادا کرتے ہیں،میں آپ کو اپنی بات بتاؤں کہ سردی کے اس موسم میں
ہمارے گھر کا بجلی بل 6000ہزار روپے آیا ہے،اب آپ ذرا سوچئے کہ سردی کا
موسم ہے،پنکھے آف ہیں بلکہ پنکھوں کو کاغذات میں بند کیا گیا اور پھر بھی
میٹر کیسے اتنی ساری یونٹوں کوگردانتا ہے،محکمہ بجلی وپانی پر تو پہلے سے
عوام کے اعتراضات تھے اور اب جب چند دن پہلے اخبارمیں یہ خبر دیکھی کہ پہلی
مرتبہ میٹرریڈنگ والوں سے صحیح میٹر ریڈنگ لینے کا حلف لیاگیا تو اس سے
عوام کے وہ شبہات یقین میں تبدیل ہو گئے کہ محکمہ بجلی وپانی میں ضرور کوئی
نہ کوئی نقص باقی ہے اور اب بھی باقی ہے۔لہٰذا اس کی اصلاح کی جائے۔
|