اس بار قا ئد اعظم ؒ کی سالگرہ اس لحاظ سے دلگیرہے کہ
دنیا میں ان کی آخری نشا نی دینا وا ڈیا بھی اب دنیا میں نہیں رہیں آخر ی
وقت میں پاکستان کے حالات دینا وا ڈیا کے سامنے تھے وہ اب اپنے بابا کے پاس
عا لم بالا میں ہوں گی لیکن جب حیات تھیں تو ہماری طرز حکومت اور عوامی مسا
ئل ان سے کو ئی چھپے تو نہ رہیں ہوں گے وہ سو چتی تو ہوں گی کیایہ وہی ملک
ہے جس کے لئے ان کے والد نے اس قدر جدو جہد کی تھی؟ اور زندگی میں بیوی
وبیٹی سے دوری کا کرب سہا تھا ایک پا کستانی ہو کر سو چتی ہوں تو سخت
شرمندگی محسوس ہو تی ہے کہ ہم نے قا ئد کے پاکستان کو کس نہج پر پہنچا دیا
ہے کیا یہ وہی پا کستان ہے جس کا خواب علا مہ اقبال ؒ نے اور تعمیر محمد
علی جناح نے کی اس قائدنے اپنی تمام صلا حیت،وقت اورصحت گنوائی دن رات کی
محنت نے صحت سے بلکل غا فل کر دیا تھا ٹی بی جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو
گئے رپورٹ آنے پر اسے ایک خفیہ لا کر میں بند کر دیا کہیں دشمنوں کی نظر نہ
پڑ جا ئے اور آزادی کی کاز کو نقصان نہ پہنچے بے شک لیڈر وہ ہوتا ہے جو
اپنی قوم کی سب سے بڑی اور بنیا دی ضرورت کو سمجھ لے اسے را ستے میں بھٹکنے
نہ دے منزل تک پہنچا نے کے لیے اپنی متا ع زندگی وقف کر دے قائد نے اپنی
قوم کی آرزو کو جان لیا تھا کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم کو آزادی کی
خوا ہش ہے وہ بھلا کب پیچھے ہٹنے والے تھے بے شک ایسے لوگ معا شرے میں قدرت
کی جا نب سے انعام ہوتے ہیں جنھیں صبح آزادی کاامین بنناہو ۔
25 دسمبر1876کو ایک گجراتی گھر انے پر اﷲ کی رحمت اتری جسے اپنی قوم کو
غلامی سے آزاد کروانا تھا ماں با پ نے اس گوہر نا یا ب کا نام محمد علی
رکھا وہ اپنے وا لدین کی دوسری اولاد تھے والدین نے انکو تعلیم کے لئے
بہترین درسگاہ بھیجا صفائی و سلیقہ بچپن سے مزاج میں شامل تھا بہت دل لگاکر
رات دیرگئے پڑھنے پر جب گھر والے ٹو کتے تو فرماتے کہ ’’میں اس لیے زیا دہ
پڑھتا ہوں کہ مجھ کو ایک دن بڑا آدمی بننا ہے کیاآپ پسند نہیں کر تیں کہ
میں بڑا آدمی بنوں؟،،۔دسویں جما عت امتیا زی نمبروں سے پا س کی جس کے بعدا
ٓپ کی شادی مٹھی با ئی سے ہو گئی والد کا روبا رمیں شریک کر نا چا ہتے تھے
لیکن بیٹے کے مزید تعلیمی شوق کی خاطر انگلستا ن بھیجنے پر را ضی ہو گئے
لند ن پہنچ کر لنکن انِ میں داخلہ لیا جس کے صدر دروازے پر عظیم ترین قا نو
ن سازوں کے نا م درج تھے جن میں سر فہر ست محمد ﷺ کا نا م مبا رک تھا۔لندن
میں بڑی محنت سے قلیل مدت میں تعلیم حا صل کی مگر لنکن انِ کی رسم پو را کر
نے کے لیے انھیں مز ید دوسال وہا ں رکنا پڑا آپ انگلستا ن بار میں شامل ہو
نے والوں میں سب سے کم عمر طا لب علم تھے قائد اعظم ؒ1896ء کولندن سے قانو
ن کی اعلیٰ ڈگری لے کر واپس ہندوستان آئے اس دوران ا ٓپ کی شفیق والدہ اور
بیوی کا انتقال ہو چکا تھا عوالد کی طویل علا لت کے با عث علاج پرپیسہ پا
نی کی طرح بہایا دوسری جا نب کا روبا رپر تو جہ نہ دے سکے جس کے با عث کا
روبا ر بھی تبا ہ ہو گیاگویا کر اچی آتے ہی قا ئد اعظم ؒکو گھر یلو پر یشا
نیوں سے دوچا ر ہو نا پڑا مگر آپ ہمت ہا رنا نہ جا نتے تھے تین سا ل انتہا
ئی تنگ دستی اور عسرت میں گزارے مگر اپنے کام کو انتہا ئی تندہی، محنت
اورجرات سے کرتے رہے
1900ء میں پر یذڈینسی مجسٹریٹ کے انتخابا ت میں بڑ ے بڑے کا میا ب وکیلوں
کے مقابلے میں آپ کا میا ب ہو ئے گر چہ یہ ملا زمت تین ما ہ کے لیے تھی مگر
محکمہ عدلیہ کے سر براہ سر چارلس اولیو نٹ نے آپکو مستقل اس عہدے کو قبول
کرنے کی پیشکش کی لیکن آپ نے انکا ر کر دیا کہ ا ب ما لی حالا ت پہلے سے
بہت بہتر تھے آپ اعلیٰ سوسائٹی میں جا نے پہچانے جا تے تھے آپ کی نشست وبر
خاست اورگفتار اور خوش لبا سی ضرب المثل بن چکی تھی قائد کا فرما ن تھا کہ
’ زندگی ہر شعبے میں کردار کی بلند ی ضروری چیز ہے قائد اعظم ؒوقت کی پا
بندی کا بڑا خیا ل رکھتے تھے جس طرح وہ اپنی رائے کا اظہار نہا یت بے باکی
ا ور جرات سے کرتے تھے اسی طرح دوسروں سے بھی اس کی امید رکھتے تھے جب کو
ئی فیصلہ ہو جا تا تو اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے تھے کئی مخالفتوں کے
باوجود قائد اعظمؒ نے اپنی زندگی میں رتن با ئی کو شامل کر نے کا فیصلہ کیا
19 اپریل 1908ء کو رتن با ئی نے اسلا م قبول کیا اور دونوں کی شادی ہو گئی۔
اگر دیکھا جا ئے تو ایک انسان زندگی سے کیا چا ہتا ہے ایک بہترین کیئر یئر
دولت ،آسودگی اور ایک خوبصورت پڑھی لکھی شر یک حیات قا ئد کی زندگی میں یہ
سب چیزیں شامل ہو
چکی تھیں وہ بھی چا ہتے تو ایک پر سکون زندگی گزار کر اس دنیا سے چلے جا تے
لیکن ان سب سے ہٹ کر بھی انھوں نے ایک خواب دیکھا تھا آزادی کا خواب ! جہاں
آزادی را ئے کا احترام ہو ،اپنی تر جیحات اور عقائد کے مطابق زندگی گزارنے
کی پو ری آزادی ہو وہ تعصب سے پا ک تعمیری انداز فکر رکھنے والے ایک بے باک
لیْدر تھے اس کے لئے وہ دن رات جد وجہد میں مصروف رہے قائد اعظمؒ کی قیا دت
میں مسلما نوں کا کا رواں حصول پا کستا ن کی جا نب رواں دواں ہوا 1940ء میں
قرار داد پا کستا ن کامیاب ہو ئی اور صر ف سا ت سال کے قلیل عرصے میں پا
کستا ن معر ض وجود میں آگیا اسے معجزہ کہ لیں یا اس مرد مجا ہد کی شب روز
کی انتھک محنت کا نتیجہ دنیا کے نقشے پر ایک بڑی اسلامی ریا ست بن کر ابھرا
ہمارے سیا سی قائدین کے لیے انکی سیاسی زندگی کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے
کہ سیا ست میں شر کت آپ نے اپنی مالی حالت بہتر بنا نے کے لئے نہیں کی
حقیقت یہ ہے قائد کی ساری زندگی شاہد ہے کہ انھوں نے کبھی ایک پیسہ بھی
حکومت وقت سے نہیں لیا بلکہ اس کے لئے انھوں نے اپنی صحت اور ذا تی زندگی
بھی قر بان دی گھر پر عدم تو جہی سے رتی جناح گھر سے چلی گئی اکلو تی بیٹی
دینا بھی ان سے دور ہو گئی فاطمہ جناح ڈھارس بند ھا تی رہیں بڑے را ستوں کے
مسا فر اکثر اکیلے رہ جا تے ہیں دشوار ستوں کی مسا فت ہر ایک کے بس میں
کہاں؟ قا ئد ایک بڑے مشن کی جنگ میں مصروف تھے مختصر سے عر صے میں دینا کا
جغرافیہ تبدیل کرنا پر عزم لو گوں کا شیوہ ہے آزادی کا تصور صاف نیلے آسما
ن پرپروازکرتے پنچھی کی اڑان جو مسرت بخشتا ہے اس خوشی سے بڑھ کر دنیا کی
کو ئی چیز قیمتی نہیں لیکن! ان ستر سالوں کے بعداب جو کسک بے چین کر تی ہے
کیا اسے دینا واڈیا بھی محسوس کر کے با پ سے ملی ہوں گی ؟ |