لٹل بوائےکا پیغام انسانیت کے نام‎

اسلام وعلیکم پیارے انسانیت!میں نے 1945 میں لاس الاموس لیبارٹری ميں آنکھ کھولی ،میں 4400 کلو گرام وزنی،10فٹ لمبا اور ایک متناسب مقدار میں یورنیم 235 لیکر حیات ارضی کے چہرے کو داغ دار کرنے کیلئے وجود میں لایا گیا۔میں ایک جدید مگر کالے رنگ کا بمب تھا، مگر میری سیائی انسانیت کے دل پہ لگے بغض و عناد ، نفرت و حسد کی کالک سے بہت پرے تھی۔میرے دو اور ھمسفر تھے جو خلق خدا کی سانسیں چھیننے کیلئے اسی لیبارٹری میں سانس لے رهے تھے۔ایک کا نام تھا ”Thin man“ دوسرے کا نام تھا ”Fat man“ ۔
> 1939 میں جب دنیا جنگ عظیم دوئم میں پوری طرح مگن تھی، خلق خدا کو خزاں رسیدا پتوں کی مانند جڑ سے اکاڑا جا رھا تھا، بدلہ اور غرور کا آسیب زمیں پر پر پھیلائے ہوئے تھا ، تو شاید ہی کوئی میرے وجود سے آگاہ تھا۔ حتی کہ وہ کاری گر جو کام کر رہے تھے وہ بھی حیات کو ممات میں بدلنے کی انجان کوشش کر رہے تھے ۔یہ پروجیکٹ مین ہیٹن پروجیکٹ کے نام سے مشہور تھی ، جس پر تقریباً 130000 کاریگر لیسلی گروس کی قیادت میں پوری طاقت سے کام کر رہے تھے۔
> میں دراصل خود بھی اپنے استعمال سے نا واقف تھا مگر مجھ پر ھونے والے اخراجات جو تقریبا 25بلین امریکی ڈالر تھے، اور سائنس دانوں کی خاموش سر گوشیوں نے مجھ کو سہما دیا، میں کنفیوز تھا آج کے انسانوں کی طرح لیکن میں ایک بمب تھا اور آپ ”انسان“ہیں۔
> لیکن جاپان کی پرل ہاربر پر کی گئی حملے نے مجھ پر یہ آشکار کر دیا کہ میں جنگ کا آخری فیصلہ کن کارڑ ھوں اور یہ سچ تھا۔
> 1945 کے اگست کے شروع میں، میں بوئنگ 29پر لادا گیا جس کا نام اینولا گے تھا اور کلونیل پال اور ڈبلیو ٹیبٹس جونئیر اسکے پائلٹ تھے۔ سفر شروع ھوا تو میں نے عجیب منظر دیکھا ”ترقی یافتہ انسانیت“ انسانیت کو نوچ رہی تھی تو مجھے فرشتوں کا وہ کلام یاد آیا جو انھوں نے ارض و سماء کے مالک سے کی تھی”اتعجل فیھا من یفسد فیھا“ اور یہ بالکل وہی تصویر تھی۔
> جب ھم ہیروشیما پہونھے تو موسم خراب تھی اور پائلٹ کو آپریشن رکھوانا پڑا مگر میں بے چین تھا۔ کہ کیا ھونے جا رہا تھا تو اگلے دن 6 اگست 1945 کو آٹھ بجے کا سورج قیامت کا منظر لیکر اس وقت ٹوٹ پڑا جب مجھے موت کا پروانہ تھما کر جہاز سے گرایا گیا تو میں نے آنکھیں بھینچ لیں۔۔۔مگر۔۔۔ جب کھولی تو آگ،دھواں،کٹی پٹی لاشیں ،جلی عمارتیں،بچوں،بوڑھوں اور عورتوں کی اذیتناک و پرسوز آوازوں سے جیسے نظام ارضی رکھ گئی ھواور جیسے فرشتے پھر آسمان سر پہ اٹھائے سوال کر رھے ھوں۔کہ اے خدا ھم نے کہا تھا نا ”اتعجل فیھا من یفسد فیھا“ ہیروشیما ان چند گھنٹوں میں کھنڈر بن چکا تھا اور میں خود میں مبہوت ھو کے رہ گیا تھا کہ یہ چھوٹی سی مقدار کا زہر جو میرے رگوں میں اشرف المخلوقات نے ڈالے تھے اتنی تباہی نہیں کر سکتا میں شرم و ندامت میں چیخ رہا تھا کہ نہیں میں انسانیت کو ،میں خلیفتہ اللہ کو یوں نہیں مٹا سکتا اور یہ حقیقت تھی۔۔یہ تباہی یورنیم کی نہیں تھی بلکیں انسانیت کے کچھ طاغوتی دماغوں میں پھلنے والے پھوڑوں کی پیپ تھی جس نے انسانیت کے وجود کو گندا کر دیا آخر میں میں آپ سب سے معافی چاہتا ھوں ”اے انسان انسانیت کی قدر کریں خلق خدا اور اپنے وجود سے اتنی نفرت جانور بھی نہیں کرتے آپ تو آخر ”انسان “ ھو۔۔۔

تحریر:صادق صباء
 پتہ: پسنی ضلع گوادر

Sadiq Saba
About the Author: Sadiq Saba Read More Articles by Sadiq Saba: 7 Articles with 5609 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.