لنڈا بازار اور قومی سوچ کا سیکنڈ ہینڈ ماڈل


لنڈا بازار کی تعریف بہت سادہ ہے۔ انگریز کا اترا ہوا کوٹ آ جائے تو وہ لنڈا، انگریز کا پہنا ہوا جوتا آ جائے تو وہ بھی لنڈا، اور اگر انگریز کی استعمال شدہ کوئی بھی چیز ہمارے ہاں پہنچ جائے تو بس مہر لگ جاتی ہے کہ یہ اعلیٰ درجے کا لنڈا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے اس تصور کو صرف کپڑوں تک محدود نہیں رکھا۔ ہم نے اسے سوچ، نظام، اداروں اور حتیٰ کہ اپنے رویّوں تک پھیلا دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج پورا ملک ایک باقاعدہ لنڈا بازار بن چکا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں کپڑوں کے بجائے نظام فروخت ہو رہے ہیں۔

انگریز کا نظامِ تعلیم ہمیں وراثت میں ملا۔ ہم نے اسے دیکھا، پرکھا نہیں، بس پہن لیا۔ یہ نہیں سوچا کہ یہ کوٹ ہمارے ناپ کا ہے بھی یا نہیں۔ نصاب وہی، امتحانی طریقہ وہی، رٹا وہی، غلامی سے نکلنے کے بعد بھی ذہن غلام ہی رہا۔ ہم نے بچوں کو سوچنا نہیں سکھایا، بس پرچے حل کرنا سکھایا۔ یہی لنڈا تعلیم ہے، جس میں ڈگری تو مل جاتی ہے مگر شعور نہیں۔ پھر آتے ہیں نظامِ حکومت کی طرف۔ انگریز چلا گیا مگر اس کا فریم ورک ہم نے سنبھال کر رکھ لیا۔ ڈپٹی کمشنر کا رعب، فائلوں کی طاقت، عوام سے فاصلہ، سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا 1947 سے پہلے تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے حاکم انگریز تھا، اب حاکم مقامی ہے، مگر انداز وہی لنڈا۔ عوام آج بھی رعایا ہیں، صرف رنگ بدل گیا ہے۔

عدالتی نظام پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی لنڈا پورے فیشن میں ہے۔ تاریخیں، تاریخوں پر تاریخیں، فائلوں کا انبار، اور انصاف ایک ایسی چیز بن چکا ہے جو صرف شوکیس میں رکھی جاتی ہے۔ عام آدمی عدالت میں جاتا ہے تو لگتا ہے جیسے وہ کسی ایسے کوٹ کو پہننے کی کوشش کر رہا ہو جو نہ اس کے قد کا ہے، نہ اس کے جسم کا۔ یہ بھی انگریز کا اترا ہوا نظام ہے، جسے ہم نے بغیر سائز دیکھے اپنا لیا۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ہم نے انگریز سے چیزیں لیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے انہیں سمجھے بغیر لیا، بدلے بغیر لیا، اور بہتر بنائے بغیر لیا۔ لنڈا بازار میں کپڑا سستا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ پہلے کسی اور کا ہوتا ہے۔ ہمارے نظام اس لیے ناکام ہیں کہ وہ کسی اور کے لیے بنے تھے، ہمارے لیے نہیں۔

ہم بنیادی طور پر ایک لنڈا پسند قوم ہیں۔ ہمیں نئی سوچ سے ڈر لگتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جو چل رہا ہے، چلنے دو۔ چاہے وہ نظام ہمیں کچل رہا ہو، چاہے وہ ہمارے بچوں کا مستقبل کھا رہا ہو۔ ہمیں بس عادت ہو گئی ہے۔ اور عادت سب سے خطرناک نشہ ہوتی ہے۔ پچھلے پچھتر سال سے ہم صرف یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ تو نظام ہی ایسا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ نظام ایسا کیوں ہے، سوال یہ ہے کہ ہم نے اسے بدلا کیوں نہیں؟ شاید اس لیے کہ لنڈا ہمیں سستا پڑتا ہے۔ محنت نہیں کرنی پڑتی، تحقیق نہیں کرنی پڑتی، بس پرانا کوٹ جھاڑ پونچھ کر پہن لیا اور خود کو مہذب سمجھ لیا۔

ہمارے ہاں اصلاحات بھی لنڈا ہوتی ہیں۔ فائلوں میں، تقریروں میں، سیمیناروں میں۔ الفاظ نئے ہوتے ہیں مگر عمل پرانا۔ ہم انگریز کے بنائے گئے ڈھانچے میں صرف اپنے نام کی تختی لگا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انقلاب آ گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لنڈا بازار میں چیز خریدنے والا جانتا ہے کہ یہ استعمال شدہ ہے۔ مگر قومی سطح پر ہم اب بھی اس وہم میں ہیں کہ یہ سب بالکل نیا ہے، شاندار ہے، قابلِ فخر ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پورے پاکستان میں لنڈا چل رہا ہے۔ سوچ کا لنڈا، نظام کا لنڈا، انصاف کا لنڈا، تعلیم کا لنڈا۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم کبھی درزی کے پاس جائیں گے؟ کیا ہم کبھی اپنے ناپ کا نظام خود بنائیں گے؟ یا پھر ہم ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ یہ کوٹ تو تھوڑا ڈھیلا ہے، مگر گزارا ہو جاتا ہے؟ جب تک ہم لنڈا پسند رہیں گے، تب تک ہم لنڈا گو ہی رہیں گے۔ اور قومیں لنڈا پہن کر ترقی نہیں کرتیں، وہ اپنا لباس خود سیتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں سوئی دھاگے سے زیادہ، سیکنڈ ہینڈ کوٹ پر یقین ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم لنڈا بازار سے نکلیں۔ ورنہ ایک دن تاریخ ہمیں بھی ایک پرانا، بوسیدہ نظام کہہ کر کسی اور کے لنڈا بازار میں ٹانگ دے گی۔
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 885 Articles with 711645 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More