ادب کا نفسیاتی منظرنامہ

ادب کا نفسیاتی منظرنامہ
-----------------------------------------
ادب، انسان کے باطن کی ترجمانی کرتا ہے۔ انسان جس طرح اپنے زمانے، ماحول، اور سماج سے متاثر ہوتا ہے، اسی طرح اس کے لاشعور کی کیفیات، اس کی نفسیاتی الجھنیں، خوف، محرومیاں، اور خواب بھی اس کے تخلیقی اظہار میں اپنا رنگ بھرتے ہیں۔ نفسیاتی تنقید، دراصل ادب کے انہی پوشیدہ پہلوؤں کو اجاگر کرنے کا فن ہے۔ یہ محض ادب کے ظاہری تاثر پر انحصار نہیں کرتی بلکہ تخلیق کے پیچھے کارفرما نفسیاتی عوامل، مصنف کے ذہنی عمل، کرداروں کی داخلی کشمکش، اور انسانی نفسیات کی تہوں تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔ نفسیاتی تنقید کی بنیاد اس تصور پر رکھی گئی کہ ادب کا مطالعہ صرف اس کے لفظی یا فنی پہلوؤں سے نہیں بلکہ انسانی ذہن اور اس کی نفسیاتی پیچیدگیوں کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔
نفسیاتی تنقید کے بانی کے طور پر سگمنڈ فرائڈ (Sigmund Freud) کا نام نمایاں ہے، جس نے انسانی ذہن کو شعور، تحت الشعور، اور لاشعور کی تین سطحوں میں تقسیم کیا۔ اس کے نزدیک تخلیقِ ادب، لاشعوری خواہشات اور دبے ہوئے جذبات کا اظہار ہے۔ فرائڈ کے بعد کارل یونگ (Carl Jung) نے اجتماعی لاشعور کا نظریہ پیش کیا، جس کے مطابق ہر انسان اپنے اندر نسلوں کے تجربات اور مشترک خوابوں کا ایک ذخیرہ رکھتا ہے۔ الفریڈ ایڈلر (Alfred Adler) نے انسانی رویوں میں احساسِ کمتری اور برتری کے رجحان کو اہم قرار دیا، جبکہ ایرک فرام (Erich Fromm) نے سماجی و نفسیاتی عوامل کو انسانی کردار کی تشکیل کا محرک بتایا۔
یہ تمام نظریات ادب کے تجزیے میں نئے امکانات پیدا کرتے ہیں۔ اردو ادب میں نفسیاتی تنقید کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی کے وسط میں ہوا۔ اس سے پہلے تنقید زیادہ تر اخلاقی، فنی یا جمالیاتی بنیادوں پر کی جاتی تھی۔ لیکن جب مغربی تنقید کے اثرات برصغیر پہنچے تو یہاں کے مفکرین نے بھی انسانی باطن اور تخلیق کار کے نفسیاتی محرکات کو موضوعِ بحث بنایا۔ ممتاز ناقدین جیسے احتشام حسین، ڈاکٹر وزیر آغا، اور سلیم احمد نے نفسیاتی نقطۂ نظر سے ادب کا مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ خیال کہ شاعر یا ادیب اپنے لاشعور کی آواز سنتا ہے۔
نفسیاتی تنقید دراصل یہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے کہ ایک شاعر یا ادیب کیوں لکھتا ہے، اس کے کردار کیسے وجود میں آتے ہیں، ان کے اعمال کے پیچھے کون سے نفسیاتی محرکات کام کرتے ہیں، اور قاری کے ذہن پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً میر تقی میر کی شاعری میں دکھ، محرومی، اور شکستہ دلی کی کیفیت کو محض عشقیہ تجربہ سمجھنا ناانصافی ہوگی۔ اگر فرائڈی یا یونگی نظریہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو میر کی شاعری ایک ایسے حساس لاشعور کی آواز ہے جو وجودی اضطراب اور جذباتی تنہائی کا شکار ہے۔ اسی طرح غالب کے ہاں خودی کا جو احساس اور فلسفیانہ تجزیہ ملتا ہے، وہ محض فکری نہیں بلکہ ایک نفسیاتی دفاعی نظام بھی ہے جو شاعر کے اندرونی خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
علامہ اقبال کے ہاں "خودی" کا تصور ایڈلری فکر سے قریب معلوم ہوتا ہے، جہاں انسان احساسِ کمتری سے نکل کر اپنی برتری کے اثبات کی طرف بڑھتا ہے۔ اقبال کے فلسفے میں یہ نفسیاتی توانائی قومی سطح پر حیاتِ نو کی تحریک بن جاتی ہے۔ یوں نفسیاتی تنقید نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی رویوں کو سمجھنے کا ذریعہ بنتی ہے۔
عصرِ حاضر میں نفسیاتی تنقید کی معنویت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ جدید انسان مشینی کلچر، ڈیجیٹل تعلقات، اور وجودی خلا کا شکار ہے۔ سوشل میڈیا نے انسان کے اندرونی احساسات کو مصنوعی اظہار میں بدل دیا ہے۔ اب وہ اپنی حقیقی ذات کو چھپانے، تصویری شناخت کے پیچھے پناہ لینے، اور لائکس و کمنٹس میں خودی کی تسکین ڈھونڈنے کا عادی ہو چکا ہے۔ نفسیاتی نقطۂ نظر سے یہ ایک اجتماعی اضطراب ہے۔ ایک ایسا رویہ جو فرد کے اندر تنہائی، حسد، خودنمائی، اور عدمِ تحفظ کے احساسات کو جنم دیتا ہے۔
اگر ہم عصرِ حاضر کے ادبی رویوں کو دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ جدید شاعری اور فکشن میں "میں" کا احساس نمایاں ہو چکا ہے۔ یہ "میں" خودغرضی نہیں بلکہ شناخت کی تلاش ہے، ایک ایسی جستجو جو انسان کے ٹوٹے ہوئے وجود کو جوڑنے کی کوشش کرتی ہے۔
اردو ناول میں نفسیاتی تجزیے کی جھلک خاص طور پر قرۃ العین حیدر، بانو قدسیہ، انتظار حسین، اور مستنصر حسین تارڑ کے ہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے کردار تاریخ کے بطن میں اپنی شناخت تلاش کرتے ہیں۔ بانو قدسیہ کے ناول “راجہ گدھ” میں نفسیاتی تنقید براہِ راست فلسفۂ حلال و حرام، اخلاقی زوال، اور انسانی فطرت کی دوئی سے جڑی ہے۔ اس ناول کے کردار لاشعور کی سطح پر ایک ایسے اخلاقی بحران میں مبتلا ہیں جہاں ممنوع خواہشات، احساسِ جرم، اور ذہنی عدمِ توازن کا گہرا باہمی تعلق ہے۔
اسی طرح مستنصر حسین تارڑ کے ناول خس و خاشاک زمانے اور بہاؤ میں بھی کرداروں کے رویوں میں نفسیاتی گہرائی دیکھی جا سکتی ہے، جہاں ماضی اور حال کی کشمکش، فرد کی شناخت اور خودی کے بحران میں بدل جاتی ہے۔
عصرِ حاضر میں جب معاشرتی انتشار، سیاسی عدمِ استحکام، اور معاشی دباؤ بڑھ رہا ہے، ادب میں بھی ان رویوں کی نفسیاتی صورتیں سامنے آ رہی ہیں۔ ناصر عباس نیر نے اپنی تنقید میں جدید انسان کے "شناختی بحران" کو نمایاں کیا ہے، جو نوآبادیاتی اثرات، سماجی ناہمواری اور شناخت کے زوال سے جڑا ہوا ہے۔
اسی سیاق و تناظر میں نئی نسل کے شعرا اور افسانہ نگار 2000ء سے عصر حاضر میں ڈاکٹر وحید عزیز تک اپنے فن میں اضطراب، تنہائی، اور عدمِ تحفظ کے نفسیاتی رنگ بھر رہے ہیں۔ ان کی تخلیقات میں کردار جذباتی بکھراؤ، معاشرتی بے یقینی، ذہنی تناؤ ، مذہبی بلیک میلنگ اور کہیں امید کی بن چکے ہیں۔
عصری رویوں میں یہ رجحان بھی نمایاں ہے کہ ادب اب صرف رومانوی یا قومی احساسات کا اظہار نہیں بلکہ ذہنی صحت، ڈپریشن، اور وجودی پریشانیوں کا عکاس بھی بن رہا ہے۔ سوشل میڈیا ادب، مثلاً مختصر ویڈیوز، نظموں، اور “ڈیجیٹل جرنلز” میں نوجوان نسل کی نفسیاتی کیفیات زیادہ براہِ راست سامنے آتی ہیں۔ جدید نظموں میں “سوشل انزائٹی”، “خود پسندی”، “ادھوری شناخت”، اور “ڈیجیٹل محبت” جیسے نئے موضوعات نفسیاتی تنقید کے لیے نیا مواد فراہم کرتے ہیں۔
جدید اردو شاعری میں بھی نفسیاتی رجحانات نمایاں ہیں۔ ن م راشد، مجید امجد، ڈاکٹر سعادت سعید ، اور پروین شاکر کی شاعری انسانی تنہائی، داخلی انتشار، اور جذباتی تصادم کی عکاسی کرتی ہے۔ ن م راشد کا “خودی کی تلاش” دراصل ایک وجودی اور نفسیاتی جستجو ہے، جہاں شاعر خود کو معاشرتی جکڑ بندیوں سے آزاد کرنا چاہتا ہے۔ پروین شاکر کی شاعری میں عورت کا شعور نفسیاتی دباؤ، جذباتی محرومی، اور نسائی شناخت کی کشمکش کے پس منظر میں نمو پاتا ہے۔
عصرِ حاضر میں نوشی گیلانی، شبنم شکیل، اور حارث خلیق کے ہاں بھی انسان کی نفسیاتی بے سمتی اور "وجودی بکھراؤ" کے مظاہر نمایاں ہیں۔

نفسیاتی تنقید کا ایک اہم پہلو "قاری" کا تجزیہ بھی ہے۔ جدید دور میں تنقید کے ساتھ مل کر یہ رجحان سامنے آیا کہ متن کا مطلب صرف مصنف کی نیت سے نہیں بلکہ قاری کے ذہنی پس منظر، اس کے تجربات، اور نفسیاتی کیفیت سے بھی تشکیل پاتا ہے۔ یعنی ہر قاری اپنی ذہنی ساخت کے مطابق متن کو مختلف معنی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلاسیکی ادب میں بھی نئی نئی تاویلات سامنے آتی رہتی ہیں۔ نفسیاتی تنقید قاری کے اس تجربے کو بھی ادب کا حصہ قرار دیتی ہے۔
آج کے دور میں جب قاری مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ادبی متون سے بیک وقت جڑ رہا ہے، اس کے ذہن میں بھی “تاثر کی کثرت پیدا ہو رہی ہے۔ یہ نفسیاتی کیفیت تنقید کے نئے سوالات پیدا کر رہی ہے کہ اب قاری کا ذہن روایتی نہیں بلکہ بکھرا ہوا ہے۔
اگر عصرِ حاضر کے رویوں کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ جدید انسان نفسیاتی سطح پر "وجودی بحران" کا شکار ہے۔ ٹیکنالوجی نے سہولت دی ہے لیکن احساسِ تعلق کو کمزور کیا ہے۔ ذہنی دباؤ، مصنوعی مسکراہٹیں، اور مسلسل موازنہ کرنے کا رجحان، انسانی شعور کے توازن کو بگاڑ رہا ہے۔ یہی رویے جدید ادب میں بھی منعکس ہیں۔ کردار اب کسی خارجی دشمن سے نہیں لڑتے بلکہ اپنے باطن سے جنگ کرتے ہیں۔ جدید نظم، علامتی فکشن، اور معاصر ڈراما اسی باطنی کشمکش کی تصویری صورت ہیں۔
پاکستانی ڈراما بھی اب نفسیاتی تنقید کے نئے دائرے میں داخل ہو چکا ہے۔ "خودکش محبت"، "ہم سفر"، "پری زاد" اور "کچھ ان کہی" جیسے ڈرامے انسان کی داخلی الجھنوں، احساسِ کمتری، اور سماجی دباؤ کے نفسیاتی پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔
نفسیاتی تنقید ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ادب کا اصل میدان انسان کا باطن ہے۔ آج جب سماج میں جذباتی بے حسی، لالچ، اور خود غرضی کے رویے بڑھ رہے ہیں، تو نفسیاتی مطالعہ ہمیں اس زوال کی جڑوں تک لے جاتا ہے۔ جدید رویے دراصل اجتماعی لاشعور کی بے ترتیبی کا عکس ہیں۔ معاشرہ جس حد تک اخلاقی و جذباتی توازن کھوتا ہے، ادب اسی شدت سے اضطراب اور ناآسودگی کا آئینہ بن جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عصرِ حاضر میں نفسیاتی تنقید محض ایک فکری مشق نہیں بلکہ سماجی تجزیے کا آلہ بن چکی ہے۔
نفسیاتی تنقید ادب کے مطالعے کو انسانی زندگی کے قریب لاتی ہے۔ یہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ ہر تخلیق کے پیچھے ایک انسان ہے، جو محسوس کرتا ہے، دکھ سہتا ہے، اور اپنی نفسیاتی کائنات کو لفظوں میں ڈھالتا ہے۔ عصرِ حاضر کے رویے، خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، اسی نفسیاتی جدوجہد کا تسلسل ہیں۔ ادب، انسان کی نفسیاتی سوانح ہے اور نفسیاتی تنقید اس سوانح کو پڑھنے کا سب سے گہرا طریقہ ہے۔ 
Dr Saif Wallahray
About the Author: Dr Saif Wallahray Read More Articles by Dr Saif Wallahray: 26 Articles with 8062 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.