سر زمین عراق: لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیب حجاز قسط-1

[سفرِ عراق جنوری ۲۰۱۷ء کی زیارات کے چند اوراق]

عمرہ و دیارِ محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کے صبح و شام کی یادیں ابھی تازہ تھیں۔ سفرِ حرمین کے کئی نقوش قرطاس پر ثبت ہو چکے تھے۔ قلم کی جسارت نے دیارِ محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کے حسیں لمحات محفوظ کرنے کا حوصلہ دیا۔ ابھی قلم کا یہ سفر اختتام کی جبیں کو چوم بھی نہ سکا تھا کہ مژدۂ جاں فزا ملا کہ اِمسال حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی علیہ الرحمہ کی گیارہویں شریف کی نسبت سے جنوری ۲۰۱۷ء میں عراق کی تاریخی زمین کاسفر درپیش ہوگا۔

پس منظر: تاریخِ انسانی کے ابتدائی ایام سے عراق کی تاریخ جڑی ہے۔ ۱۸؍ اضلاع پر مشتمل عراق کا رقبہ ۴۳۸۴۴۶؍ کلو میٹر ہے۔ فجرِ تمدن کا گہوارہ ہے یہ زمیں۔ آرٹ، سائنس، جغرافیہ، ہیئت، علم الارضیات، الجبرا، جیومیٹری، طب، فلسفہ، تاریخ جیسے علوم کے مبادیات اسی زمین پر وضع کیے گئے۔ مدینہ طیبہ کے بعد اولین دارالحکومت عراق رہا۔ دانش گاہِ حجاز ــ’’صفہ‘‘ کے بعد اسلام کی دانش گاہوں کا محور رہا ہے عراق۔ جوجزیرۃالعرب کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ شمال میں ترکی، مشرق میں ایران، مغرب میں شام واردن، جنوب میں سعودی عرب، کویت و خلیجِ عرب ہیں۔ عراق کا جنوب نہروں، میدانی علاقوں اور بحیروں پر مشتمل ہے۔ جب کہ شمال میں میدانی علاقہ و برف پوش وادیاں ہیں۔یہ وادی دجلہ و فرات سے سیراب ہے جس کا منبع ترکی کی سطح مرتفع ہے۔ دجلہ ۱۷۱۸؍ کلو میٹر اور فرات ۲۳۰۰؍ کلو میٹر اور شط العرب پر یہ مجتمع ہو جاتے ہیں۔ عراق کی قومی زبان عربی ہے۔ کردی، ترکمانی، سریانی اور انگریزی بھی رائج ہے۔ عراق کی عالمی افادیت کا ایک سبب اس کا تین بر اعظموں ایشیا، یورپ و افریقا کے درمیان واقع ہونا ہے۔ اس کا دارالحکومت و دارالحکمت بغداد ہے۔ بغداد شوکتِ اسلامی کا منارۂ نور ہے۔تمدنِ انسانی کے نقوش وادی عراق میں بکھرے ہیں۔ تاریخ کھنڈرات تلاشتی اور مستقبل کے مینار تعمیر کرتی ہے۔ ہماری تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے عراق؛ جہاں سے علم و حکمت کے کئی چشمے پھوٗٹے؛ جن سے دل و نگاہ سیراب ہوئے۔ اس زمیں نے انبیائے کرام علیہم السلام کے نقوشِ قدم بھی چومے اور فاتحین کے نقوش بھی۔ یہاں صحابۂ کرام کے انفاس کی خوش بو بھی ہے، اور اہلِ بیت اطہار کے منبعِ انوار مراکز بھی۔ عقیدت کی جبیں خاکِ عراق پر خمیدہ ہوتی ہے۔ اس زمیں نے کتنے ہی نشیب و فراز دیکھے۔ کتنی شامِ غم دیکھی اور کتنی ہی صبحِ امید بھی؛ بغداد تاریخ کے ان مختلف ادوار کا شاہد ہے ؂
ہے زیارت گاہِ مسلم گو جہاں آباد بھی
اس کرامت کا مگر حق دار ہے بغداد بھی

تاریخ کا المیہ:بغداد کسی زمانے میں عروس البلاد تھا، زینۃالبلاد تھا۔ لیکن امتدادِ زمانہ نے اس کی ظاہری بہاروں کو دُھندلا دیا ہے۔اسرائیل کے استحکام کی صہیونی پالیسی نے ہر اُبھرتے ہوئے مسلم ملک کی تاراجی کو شہ دی۔ فلسطین کی سرزمیں پر یہودی ریاست اسرائیل کا قیام اسی کا فسانہ ہے؛ جو گزری صدی کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔ اس لمحاتی شکست کا قرض آج بھی فلسطینی مسلمان ادا کر رہے ہیں۔ ان کے لیے اپنی ہی زمیں تنگ کر دی گئی ہے۔ کسی زمانے میں فرماں روائے لیبیا نے آزادیِ فلسطیں کی تحریک شروع کی تھی، جو درمیاں میں ہی نحیف ہو گئی۔ لبنان، شام و مصر سے بھی کوئی آواز فلسطین کے مفاد میں اُبھری؛ اسے کبھی خفیہ سازش سے، کبھی آمریت سے دبا دیا گیا۔ عراق سے بہت کچھ اُمیدیں تھیں۔ اِس لیے کہ عزم و شجاعت کی ایک تاریخ رقم کی عراق نے۔ لیکن سازشوں کی بساط پر عہد کے میر صادق و میر جعفر کے غدر نے عراق کو موت کے دہانے پہنچا دیا۔

ماضی کا تجزیہ نشیب و فراز کا قصہ سناتاہے۔ کسریٰ کی شوکت کا محل انسانی عظمت کے امتیازی دن ۱۲؍ ربیع الاول کو اسی زمینِ مدائن پر زیرِ خاک ہوا۔یقیں کا اُجالا پھیلا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کے ذریعے یہ خطۂ تمکنت اسلام کی عظمتوں کا مصدر بنا۔ دجلہ کے دونوں ساحل پر علم و فن کی درجنوں درس گاہیں قائم تھیں۔ یہاں کی رسد گاہیں، مراکزِ عرفان، کتب خانے، لائبریریاں سر چشمۂ علومِ دینیہ تھیں۔ جن سے فیض یابی نے کئی پس ماندہ فکروں کو انسانی گر سے آشنا کیا۔ تعمیری فکر عطا ہوئی۔ قبلِ مسیح بھی فنون کا یہ دانش کدہ معروف تھا۔ انبیائے کرام علیہم السلام نے جہاں اپنی اپنی قوم کو ہدایت کی طرف بلایا وہیں تاج دارِ انبیا صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد سے بتانِ کسریٰ اسی ارضِ مقدس پر خاک میں مِلے۔اسلام کی صبحِ جمیل بھی عراق نے دیکھی اور یزیدی دہشت گردی کا سانحۂ دل دوز بھی۔ اس کے نصیب میں اُبھرنا تھا اسی لیے یزیدیت کی ظاہری فتح کے بعد حسینیت کی کامل فتح کانغمہ بھی عراق میں گنگنایا گیا۔ بغداد کی زیب و زینت اور علمی مرکزیت کا ذکر ابن خلدون، ابن خلکان و ابن بطوطہ نے کیا ہے۔

کبھی اس گل زار کی بہار کو یہود نواز آستیں کے سانپوں نے لوٹا، کبھی قبائلی جدل نے۔ تاریخ کے اس خونین منظر کا بغداد آج بھی گواہ ہے جب تاتاری حملوں نے انسانی فصل کاٹی اور لہو سے دجلہ کو سرخی دی۔ علم و حکمت کے خزانوں کو دجلہ برد کیااور دہشت گردانہ عزائم کی تکمیل کی؛ لیکن پھر تاریخ پلٹی اور رہزن رہبر بنے ؂
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے

منزل بہ منزل: ۳؍ جنوری ۲۰۱۷ء کی سحر تھی۔ابھی صبح کا سپیدہ نمودار نہیں ہوا تھا کہ ممبئی کی طیران گاہ سے گلف ائیر لائنز کے طیارے نے جانبِ بغداد پرواز کی۔ بحرین کی طیران گاہ پر کچھ ساعتیں گزارکر بغداد کی زمین پر سہ پہر جہاز نے لینڈ کیا۔ بحرین سی چہل پہل یہاں نہیں تھی۔ تاہم بغداد کے تاج ور غوث الاعظم رحمۃاﷲ علیہ کے زائرینِ عرس کے قافلے ساری دُنیا سے یہاں اُتر رہے تھے۔ہم نے لازمی کارروائی سے فراغ حاصل کیا۔ اور ائیر پورٹ سے باہر آگئے۔ سوئے غوثیت بذریعہ بس سفر شروع ہوا۔ ۱۵؍ منٹ کے اس سفر میں کئی مقامات پر تفتیشی مراحل سے گزرنا پڑا۔

شاہراہ سے گزرتے وقت کئی گنبد و مینار نظر آئے۔ اسلامی فنِ تعمیر؛عرب ثقافت کے نقوش جگہ جگہ دکھائی پڑے۔ کھجور کے درخت قطار در قطار، سرد ہواؤں کے جھونکے، کشادہ شاہراہیں، کہیں کہیں سبزہ زار؛ کہیں کہیں ریگ زارِ عرب، بڑا دل کش نظارہ تھا۔فضا خوش گوار تھی؛ دور ہی سے منقش نیلگوں گنبدِ غوثیہ دعوتِ نظارہ دے رہا تھا۔ برابر میں مسجد غوث الاعظم کا دودھیا گنبد روح کے ہر تار کو ہم نوا کر رہا تھا۔ جلالت و روحانیت کا حسین امتزاج مشاہدہ ہو رہا تھا۔باب الشیخ پر ہی تعینات فوجی عملے نے ساماں تلاشی لی۔ تفتیشی مرحلے سے گزر کر خانقاہِ قادریہ میں داخل ہوئے۔ ہر طرف نور نور منظر تھا۔ دربار کی مسجد، صحن، درگاہ، خانقاہ،بیرونی تعمیرات کو برقی قمقموں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ جب کہ میلادِ مصطفی ﷺ کے جھنڈے بھی نصب تھے۔ خانقاہ کے ایک کشادہ حصے میں قیام گاہ کا نظم تھا۔ رفیقانِ سفر کو فوری طور پر ماحضر (نیاز) سے ضیافت کروائی گی۔ جہاں ایامِ عرس میں حنیف گھی والا کی جانب سے نیاز کا انتظام تینوں ٹائم ہوتا ہے۔ انواع و اقسام کی ڈشیں ستھرے ماحول میں عزت کے ساتھ کھلائی جاتی ہیں۔ جب کہ پورے سال بلکہ صدیوں سے جاری لنگر خانہ وسیع و عریض چہار دیواری میں دربار کے رُو بہ رُو قائم ہے۔ موسم چوں کہ سرد تھا اس لیے ہمہ وقت چائے سے زائرین کی تواضع کی جا رہی تھی۔
(بقیہ آئندہ)

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.