رنگ و نور .سعدی کے قلم سے
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے.
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴿الفاتحہ﴾
قیامت کا دن بالکل برحق ہے. قیامت کا دن تیزی سے قریب آرہاہے اور قیامت کے
دن اﷲ تعالیٰ کے سواکسی کی حکومت نہیںہو گی.
لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ﴿المؤمن ۶۱﴾
قیامت کی بہت سی نشانیاں ظاہر ہو چکی ہیں. اور بعض بڑی نشانیاں ظاہر ہونا
باقی ہے. ہم میں سے جو مر جاتا ہے اُس کی قیامت تو قائم ہو جاتی ہے. ہم بھی
مر جائیں گے تو ہماری قیامت بھی شروع ہو جائے گی. تھوڑا سا سوچیں کہ آپ کے
جاننے والے کون کون انتقال فرما چکے ہیں. کئی لوگ آپ کے ساتھ پڑھتے ہوں گے.
کئی آپ کے رشتہ دارہوں گے. اور کئی آپ کے دوست احباب. اُن سب کی قیامت شروع
ہو گئی. چھوٹا حساب کتاب تو قبر میں ہو جائے گا. اور قبر سے ہی راحت یا
عذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے . مجھے اور آپ کو شائد قبر کی زیادہ فکر
نہیں. میں کبھی کبھار ایک مسجد میں جاتا تھا وہاں ایک بوڑھے نمازی کو
دیکھتا تھا . اﷲ اکبر، وہ کس طرح سے بلک بلک کر عذاب قبر سے حفاظت کی دعا
مانگتے تھے . میں نے کئی بار کان لگا کر اُن کی دعا کو سُنا. وہ نماز سے
پہلے بھی دعا مانگتے تھے اور نماز کے بعد بھی. اور جب مسجد خالی ہو جاتی تو
پھر خوب زیادہ دعا مانگتے تھے . یااﷲ عذاب قبر سے بچا، یا اﷲ عذاب قبر سے
بچا، یا اﷲ عذاب قبر سے بچا. یااﷲ منکر نکیر کے سوال جواب میں مدد فرما.
یااﷲ بہت اچھی، خوبصورت قبر عطا فرما. یا اﷲ قیامت کے دن اعمال نامہ دائیں
ہاتھ میں عطا فرما. بس یہ اور اس طرح کی اور دعائیں. وہ آہستہ آہستہ آواز
میں دعا مانگتے تھے مگر ساتھ بیٹھنے والا تو سن ہی لیتا . بڑھاپے میں ویسے
بھی سرگوشی بلند ہوجاتی ہے. چونکہ اپنے کان کم سنتے ہیں تو انسان تھوڑا
اونچا بولنے لگتا ہے. فجر کے بعد وہ اشراق تک ذکر اذکار میں ڈوبے رہتے تھے.
اشراق کے نفل ادا کر کے ہاتھ اٹھا لیتے اور پھر یہی دعا. یااﷲ قبر کے عذاب
سے بچا. آنکھوں اور ہاتھوں کے اور دل کے گناہ معاف فرما. اعمال نامہ دائیں
ہاتھ میں عطا فرما.عصر کے بعد تو وہ اکثر گھر نہیں جاتے تھے، مسجد میں
بیٹھے رہتے. ایک لمبی تسبیح اُن کے ہاتھ میں مسلسل چلتی رہتی . مغرب کے بعد
اوّابین کے نوافل ادا کر کے پھر یہی دعا. یا اﷲ جہنم سے بچا، عذاب قبر سے
بچا، اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں عطا فرما. میں نے کئی بار رشک اور محبت کے
ساتھ اُن کی دعا کو مکمل سننے کی کوشش کی. سبحان اﷲ وہ صرف اصل چیزیں
مانگتے اور اصل مسئلہ کا حل چاہتے تھے. جبکہ عام طور سے لوگ عارضی مسائل کی
دعائیں زیادہ مانگتے ہیں. بوڑھے بزرگوں کو تو عارضی مسائل ویسے بھی زیادہ
لاحق ہوتے ہیں. بیٹے کہنا نہیں مانتے، بہویں بدتمیزی کرتی ہیں. اپنی بوڑھیا
بھی قابو میں نہیں آتی. طرح طرح کی بیماریاں، رزق اور روزی کے مسائل. لوگوں
کی ناقدری اور فضول طرح کی حرص اور فکریں. مگر اس اﷲ کے بندے کو اپنے اصلی
گھر کی فکر ہے. یا اﷲ قبر کے عذاب سے بچا. بعض اوقات تو اُن کی دعا سُن کر
آنکھوں میں آنسو آجاتے کہ یا اﷲ اس بزرگ کو کیسی مبارک اور اچھی فکر نصیب
ہو گئی ہے. حدیث شریف کا مفہوم ہے. جسے آخرت کی فکر نصیب ہوجائے اﷲ تعالیٰ
اُسے دنیا کی فکروں سے خلاصی عطا فرما دیتے ہیں. آخرت کی فکر نصیب ہوجانا
دراصل آخرت کی کامیابی کی ایک بڑی نشانی ہے. ہمارے آقا مدنیﷺ نے ہم
مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ موت کو یاد کیا کرو. جو لوگ اصلاح نفس کے لئے
کسی بزرگ سے بیعت ہوتے ہیں. وہ اپنے شیخ سے’’فکر آخرت‘‘ کا تحفہ لیا کریں.
آخرت بن گئی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا. آج بڑے بڑے صاحب نسبت بزرگوں کے
پاس لوگ صرف دنیا بنانے کے لئے حاضر ہوتے ہیں. اور اُن سے وہ اصل چیز حاصل
نہیں کرتے جو ہمیشہ ہمیشہ کام آنے والی ہے. ٹھیک ہے صحت کے تعویذ بھی لیں،
رزق میں برکت کے وظیفے بھی پوچھیں. مگریہ بھی سوچیں کہ دنیا کی صحت اور رزق
کتنے دن کا ہے؟ اگرہم اس اﷲ والے سے آخرت کا کوئی تحفہ لے لیں تو وہ زندگی
میں بھی کام آئے گا اور مرنے کے بعد بھی. مگر افسوس کہ آخرت کی فکر بہت کم
لوگوں کو ہے. ہر جگہ بس دنیا ہی کے لئے رش لگا ہوا ہے. اور دنیا ایسی بے
وفا ہے کہ کسی کو اپنے پاس ٹکنے نہیں دیتی. اور نہ خود کسی کے پاس ٹکتی ہے.
فلاں بزرگ بڑے پہنچے ہوئے ہیں، ان کی دعا کی برکت سے میری دکان چل پڑی ہے.
فلاں بزرگ کے تو کیا کہنے بچے کو ملازمت نہیں مل رہی تھی انہوں نے تعویذ
دیا اب میرا بیٹا بینک میں منیجر لگ گیا ہے. فلاں بزرگ تو بڑے اونچے کمال
والے ہیں میری بیٹی کا داخلہ نہیں ہو رہا تھا انہوں نے عمل کیا اب بیٹی
سکالر شپ پر ھنگری میں پڑھنے گئی ہوئی ہے. بس یہی تذکرے ہیں اور یہی چرچے.
ایسے ایسے اﷲ والے جو تھوڑی سی توجہ سے انسان کا دل مدینہ پاک سے جوڑ سکتے
ہیں لوگ اُن کے پاس اپنے کاروبار میں برکت کی دعا کے لئے اصرار کر رہے ہوتے
ہیں. کاش اُن سے قبر کے عذاب سے حفاظت کی دعا ہی کرالی ہوتی. اﷲ کے بندو!
قبر میں تو ضرور جانا ہے. اور وہاں جانے کے بعد واپسی نہیں ہوگی. اور قبر
کا عذاب اتنا سخت ہے کہ جب رسول اﷲﷺ نے اپنے صحابہ کرام (رض) کو اُس کی
تفصیل بیان فرمائی. تو ان میں سے کئی تو روتے روتے بے ہوش ہو جاتے تھے.
دنیا میں تو ارد گرد کافی لوگ موجود ہیں قبر میں تو ہم بالکل اکیلے ہوں گے.
آج اگر ہمیں کسی کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ یہ’’مستجاب الدعوات‘‘ ہے.
یعنی اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں. تو یہ بے وقوفی نہ کریں کہ اُس سے بیٹے
کی نوکری، اچھے مکان اور پیسے کی دعائیں کرانے لگ جائیں. دنیا کی ضروری
دعائیں کرانی بھی ہوں تو آخر میں کرائیں. پہلے اپنے اصل مسائل کی فکر
کریں.حضرت دعا کر دیں کہ’’ایمان کامل‘‘ نصیب ہو جائے. حضرت دعا فرما دیں کہ
جہنم اور قبر کے عذاب سے حفاظت ہو جائے اور جنت میں دخول اوّلی نصیب ہو
جائے. حضرت دعا فرما دیں کہ اخلاص نصیب ہو جائے، فکر آخرت نصیب ہو جائے.
آقا مدنیﷺ کی اتباع نصیب ہو جائے. حضرت دعا فرما دیں کہ اﷲ تعالیٰ کے راستے
کی مقبول شہادت نصیب ہو جائے. یہ ہیں ہمارے اصلی مسائل.اِن کی فکر کے بعد
دنیا کی جائز حاجات کی بات کریں. وہ حاجات پوری ہوں یا نہ ہوں گزارہ چل
جاتا ہے. مگر آخرت کی حاجات پوری نہ ہوئیں تو عذاب برداشت کرنا بہت مشکل ہے،
بہت ہی مشکل. اصلاحی بیعت کرنے کے لئے دیکھ بھال کر’’شیخ طریقت‘‘ کی تلاش
کیا کریں. ایسا نہ ہو کہ دھوکا کھا جائیں اور دین کے نام پر دنیا میں پھنس
جائیں. صاحب نسبت شیخ کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ اُس کی صحبت میں فکر آخرت
پیدا ہوتی ہے. اور دین کے لئے قربانی دینے کا جذبہ نصیب ہوتا ہے.
حضرت میرٹھی(رح). قطب الارشاد حضرت گنگوہی(رح) کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’حضرت اقدس گنگوہی(رح) نے اپنے ممتاز خلفا کو جہاں فیضانِ سلوک و تصّوف سے
سیراب کیا وہاں جذبۂ جہاد و سرفروشی سے بھی سرشار کیا. گویا سلوک و تصوف
اور جذبۂ حریت دونوں کا تعلق نسبت باطنی ہی سے تھا‘‘﴿شعر الفراق ص ۹۷﴾
جو شخص جہاد یعنی قتال فی سبیل اﷲ کی مخالفت کرتا ہو. وہ کبھی بھی صاحب
نسبت نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اُس کی صحبت سے کسی کی اصلاح ہو سکتی ہے.
ہمارے اہل حق میں اس وقت جتنے بھی سلاسل چل رہے ہیں اُن میں سے اکثر کا
تعلق حضرت حاجی امداداﷲ مہاجر مکی(رح) اور حضرت مولانا رشید احمد
گنگوہی(رح) سے جُڑتاہے. یہ دونوں حضرات عملی اور نظریاتی مجاہد
تھے.دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی(رح) بھی
جانباز اور صف شکن مجاہد تھے. آپ خود سوچیں کہ ایک شخص جو اسلام کے ایک
محکم فریضے کا منکر ہو وہ کس طرح سے ’’صاحب نسبت‘‘ ہو سکتا ہے. دین تو نام
ہے یقین اور قربانی کا. جو شخص موت سے ڈرتا ہے اور دین کی خاطر نہ جان کی
قربانی دے اور نہ مال کی قربانی پیش کرے وہ کس طرح اﷲ والا ہو سکتا ہے.
کافروں اور ظالموں کی خوشنودی کے لئے کتابیں لکھنے والے. کافروں کے ملکوں
میں جا کر اُن کی حکومتوں سے امن ایوارڈ کی بھیک مانگنے والے. جہاد کی
حُرمت کے فتوے دینے والے. کفر اور اسلام کا فرق مٹانے والے کبھی اس قابل
نہیں ہو سکتے کہ مسلمان اُن کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیں. اس مسئلے کو ایک
مثال سے سمجھیں. حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی(رح) بھی ایک اﷲ والے، صاحب
نسبت اور بلند پایہ بزرگ تھے. جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو حضرت
شاہ صاحب(رح) نے اپنی جان،عزت اور امن کو خطرے میں ڈال کر. ہندوستان کے
دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا. حضرت شاہ صاحب(رح) چاہتے تو خاموشی سے بیٹھے
رہتے. اُس وقت برصغیر میں اُن کے شاگردوں اور مریدوں کا بہت بڑا حلقہ موجود
تھا. مگر اﷲ تعالیٰ کے ساتھ نسبت کا پہلا تقاضہ. دینی غیرت ہے. پس اسی دینی
غیرت کے تحت حضرت شاہ صاحب(رح) نے خود کو مشکلات میں ڈالا. وہ جانتے تھے کہ
دنیا میں قیام عارضی ہے. بزدل بن کر جیو یا بہادر بن کر. موت نے بہرحال آنا
ہے. تو پھر کیوں نہ اسلامی غیرت کا عَلَم بلند کر کے اپنی آخرت کو محفوظ
اور کامیاب بنایا جائے. حضرت شاہ صاحب(رح) کے اس فتوے نے اُمتِ مسلمہ میں
ہزاروں جانباز مجاہد کھڑے فرما دیئے. یقیناً ان سب کے اجر میں حضرت شاہ
صاحب(رح)بھی پوری طرح شریک ہو گئے.
ہم میں سے جو بھی مرجاتا ہے اُس کی قیامت قائم ہو جاتی ہے. ہم بھی بہت جلد
مرنے والے ہیں. اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو موت کی سختی، عذاب قبر، فتنہ
منکر نکیر اور حشر اورجہنم کے عذاب سے بچائے. اور ہم سب کو جنت الفردوس
نصیب فرمائے. ’’فکر آخرت‘‘ ایک نعمت ہے اور یہ نعمت اُن اﷲ والوں کی صحبت
میں نصیب ہوتی ہے. جو واقعی صاحب نسبت ہوتے ہیں. صاحبِ نسبت بزرگ کیسے ہوتے
ہیں ملاحظہ فرمائیے سوانح قطب الارشاد کی یہ عبارت: ’’حضرت قطب
الارشاد﴿مولانا رشید احمد﴾ گنگوہی(رح) علم و عمل میں حکیم الاُمت شاہ ولی
اﷲ محدّث دہلوی(رح) کے مسلک و منہاج پر تھے، جہاد فی سبیل اﷲ خانوادہ ولی
اللّہی کا طغرائے امتیاز رہا ہے، ہندوستان میں سب سے پہلے سراج الہند حضرت
شاہ عبدالعزیز قدّس سرّہ نے حکومتِ برطانیہ کے خلاف آوازبلند کی، انہوں نے
فتویٰ دیا کہ ’’انگریزی اقتدار کے باعث ہندوستان اب دارالاسلام نہیں بلکہ
دارالحرب ہے‘‘
اسی بنیاد پر امام المجاہدین حضرت سید احمد شہید اور حضرت شاہ اسماعیل شہید
رحمہما اﷲ﴿م ۶۴۲۱﴾ نے تحریکِ جہاد چلائی، اس کے چند ہی سال بعد ۷۵۸۱ئ میں
پورے ہندوستان میں انگریز کے خلاف جگہ جگہ جنگ آزادی شروع ہوئی. حضرت اقدس
گنگوہی قدس سرہ نے اس میں بھرپور حصّہ لیا،چنانچہ اعلیٰ حضرت حاجی امداد اﷲ
مہاجر مکی صاحب(رح) کی کمان میں تھانہ بھون کو’’دارالاسلام‘‘ قرار دے کر
اعلان جہاد کر دیا گیا، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی(رح) سپہ
سالار اور قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی(رح) قاضی مقرر ہوئے،
شاملی کے میدان میں گھمسان کی جنگ ہوئی، اوّل اوّل لشکر اسلام غالب رہا.
انگریزی فوج کو سخت ہزیمت اُٹھانی پڑی، آخر میں جدید اسلحہ سے لیس انگریزی
فوج کامیاب ہوگئی، حضرت ضامن صاحب(رح) نے اسی جنگ میں شہادت سے سرخروئی
حاصل کی، اعلیٰ حضرت حاجی صاحب(رح)، حضرت گنگوہی(رح) اور حضرت نانوتوی(رح)
کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، تینوں روپوش ہو گئے، اعلیٰ حضرت حاجی صاحب(رح)
نے ایک روحانی اشارے کی بنا پر حجاز مقدس کو ہجرت کی، حضرت اقدس گنگوہی(رح)
گرفتار ہوئے‘‘.﴿شعر الفراق ص ۹۱﴾
اللھم صل علٰی سیدنا محمد عدد من صلی من خلقک وعلٰی الہ وصحبہ و بارک سلم
تسلیماکثیراکثیرا |