اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات سے مٹی جمع کر کے حضرت آدم
علیہ السلام کو تخلیق فرمایا اوربنی نوع انسان پر عظیم الشان احسان فرما کر
اپنی رحمت کے نتیجے میں آدم علیہ السلام کی پشت سے انسانوں کو آباد کیا۔
اس انداز سے انسانیت کی تخلیق کا فطرتی تقاضا ہے کہ اولادِ آدم میں اپنے
ہم جنس یعنی دوسرے انسانوں کی طرف میلان اور محبت کا عنصر کارفرما ہونا
چاہیے اور یہی مشاہدہ بھی ہے ۔ اسی میلان اور اُنسیت کے باعث انسان دنیا
میں مختلف رشتوں کے بندھن میں بندھا ہوا ہے جس سے انکار حقیقت کو جھٹلانے
کے مترادف ہے۔ بنی نوع انسان کبھی اکیلا تھا نہ ہے اور نہ کبھی رشتوں کے
بندھن یعنی ’’مادر پدر آزاد‘‘ ہو سکتا ہے۔بعض رشتے ذاتی نوعیت کے اور خون
یعنی (DNA) کی بنیاد پر ہوتے ہیں جو انتہائی مضبوط اور اہم ہوتےہیں یہاں تک
کہ بعض اوقات اخروی کامیابی کا انحصار اِنہیں رشتوں کے تحفظ پر موقوف ہوتی
ہے لیکن جو رشتے عقیدے اور فکر کی بنیاد پر ہوتے ہیں یہ اتنے مضبوط اور
پائیدار ہوتے ہیں کہ اِن رشتوں کو برقرار رکھنے یا جوڑنے کی خاطر ذاتی
نوعیت کے رشتوں کو خیر باد کہنے میں ذرا برابر بھی ہچکچاہٹ محسوس کرنا تو
کجا سعادت سمجھی جاتی ہے اور یہ رشتہ دنیا جہان کے تمام مسلمانوں اور آخری
پیغمبر حضرت محمدﷺ کے درمیان امتی اور پیغمبر، مقتدی اور مقتدا ، مامور اور
امام محب اور محبوب کا ہے۔ تاریخ کے اوراق کو جھنجھوڑنے سے اس ضمن میں
سینکڑوں واقعات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔یہی وہ رشتہ ہے جو مسلمانوں کے
ایمان کی اساس ہے ، یہی وہ رشتہ ہے جس کے تحفظ کے لئے اپنی جان کا نذرانہ
پیش کرنے کی ہر مسلمان کی ہمیشہ سے آرزو رہی ہے، یہی وہ رشتہ ہے جو تمام
مسلمانوں کو حد درجہ اختلافات کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کئے دیتی
ہے۔ یہی وہ رشتہ ہے جس کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً اول
تو سیدھی انگلیوں سے گھی نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ ناکامی کی صورت
میں انگلیوں کو ٹیڑھا کیا جاتا ہے۔ یہی وہ رشتہ ہے جس کو منقطع یا کمزور
کرنے کے لئے اغیار تانے بانے بن رہے ہیں لیکن جہاں مسلمانوں میں دیگر امور
کے حوالے سے افراط و تفریط کا رویہ اختیار کیا گیا ہے وہاں اس رشتے کو بھی
محبت میں غلو کی وجہ سے افراط اور عشق نا تمام کی وجہ سے تفریط کی نذر کر
دیا ہے۔
آپﷺ کی سیرت اور تعلیمات نہ تو ہمیں ذکر مصطفی ترک کرنے کا سبق دیتی ہیں
اور نہ بے جاتکلّفات و خرافات کے ذریعے شیطان کی معاونت اور بھائی بننے کی
ترغیب دیتی ہیں ۔ہمارے ہاں ایک طرف شرکیہ نعتوں سے اللہ تعالیٰ کےعذاب کو
دعوت دی جاتی ہے، بناوٹی قوالیوں سے عوام الناس کو خرافات کی طرف متوجہ کیا
جاتا ہے اور بے جا فضول خرچیوں سے چراغاں کر کے محفلوں کو رونق بخشی جاتی
ہے جبکہ دوسری طرف تنقید برائے تنقید کے کلچر کو فروغ دیتے ہوئے ’’وجادلھم
بالتی ھی احسن‘‘ کا گھلا گھونٹ دیا جاتا ہے، صبر، تحمل اور برداشت نام کی
کوئی چیز دیکھنے کا اتفاق ہی نہیں ہوتا نتیجتاً عوام دین سے بے بہرہ ہونے
کے ساتھ ساتھ متنفر بھی ہو جاتے ہیں اور قائدین حضرات عوام الناس کی ہدایت
اور اصلاح کی بجائے گمراہی و بگاڑ کا سبب بن جاتے ہیں۔
ہمارے بیچ یہ غلط فہمیاں ہمارے اور آپﷺ کے رشتے کی ٹھوس بنیاوں کو نہ
سمجھنے کی وجہ سے جنم لے رہی ہیں یہاں تک کہ ایک دوسرے کی تکفیر تک کے قائل
ہو جاتے ہیں اور قرآن کی آیت ’’وقالت الیھود لیست النصریٰ علی شئی و قالت
النصری لیست الیھود علی شئی وھم یتلون الکتاب‘‘ کا مصداق بن جاتے ہیں۔ آپﷺ
کے ساتھ ہمارا رشتہ (۱) ایمان (۲)اطاعت (۳) اتباع (۴) اور محبت کی بنیادوں
پر ہے۔ جبھی ہم ان چار بنیادی ستونوں کو سمجھیں گے آپﷺ سے رشتہ ہمارے لئے
دنیا و آخرت میں باعث نجات ہو گا ورنہ وقت گزرنے پر کفِ افسوس کے سوا کچھ
ہاتھ نہیں آئے گا۔ ہمیں قرآن پاک اور سنت رسولﷺ کو معیار بنا کر اِن غلط
فہمیوں کو راستہ روکنا ہو گا ۔ ہمیں اپنے رویے میں اعتدال ، انداز بیان میں
شائستگی اور اتحاد و اتفاق کا دامن تھامنا ہو گا اور یہی اِس امت کا وطیرہ
ہے، یہی قرآن پاک کی تعلیمات ہیں، یہی ہمارے اکابر و اسلاف کا دیا گیا سبق
ہے جسے ہم بھلا چکے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں آپﷺ کی محبت کے تقاضوں کو
سمجھنے اور اس پر مر مٹنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ |