وہ دن ہو ا ہوئے جب پسینہ گلاب تھا اور خلیل خان فاختہ
اُڑایا کرتے تھے۔ ارے۔رے۔۔۔۔۔یہ جوشِ تحریر میں قلم کدھر پھسل گیا۔ ہم تو
کسی اور موضوع پر طبع آزمائی کرنا چاہ رہے تھے۔ خیر تو آج کا ہمارا موضوع
ہے تو وہی پرانا جس پر ہم سے پہلے ہی مشاہیرِ ادب اپنے جولانئ قلم کے زور
دکھلا کراپنا نام روشن کرچکے ہیں ۔ ہم نے سوچا کہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند ہی
سہی ہم بھی کچھ لکھ کر دیکھتے ہیں۔شاید کہ قارئین کی بارِ خاطر پر گراں نہ
ہو اور کچھ بچی کھچی داد ہمارے حصہ میں بھی آجائے۔
تو عرض یہ ہے کہ بیمار تو آدمی پہلے بھی ہوتے تھے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری
و ساری ہے لیکن اب یہ شوق اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ ہر ایک اس کا متحمل نہیں
ہوسکتا۔ ماضی کے طبیب نبض پر ہاتھ رکھتے ہی بلا دریغ فائرنگ۔۔ اوہ معاف
کیجئے تشخیص کردیا کرتے تھے کہ غدودانِ معدہ میں جو خانہ جنگی کی کیفیت ہے
اس کی اصل وجہ فم معدہ پر ورم ہے جس کی وجہ سے دست بدست جنگ کی نوبت آگئی
ہے۔لیکن آج اگر بھولے بھٹکے بھی کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کی غرض سے چلے جائیں
تو ابتدائی معائنہ کی بھاری بھرکم فیس کی ادائیگی کے بعدہی فی الفور
لیبارٹری ٹیسٹ کاوہ گراں قدرنسخہ عنایت ہوتا ہے کہ بیمار دم بخود رہ
جاتاہے۔ علاج شروع ہونے سے پہلے ہی اخراجات کے بوجھ تلے دب کر وہ سوچنے پر
مجبور ہوجاتا ہے کہ۔۔۔کس لئے آئے تھے ہم کیا چلے۔۔
کسی طرح یہ کوہِ گراں سر کرکے دوبارہ آستانۂ ڈاکٹریہ پر دوبارہ شرفِ
باریابی نصیب ہوتا ہے تو دواؤں کی ایک طویل فہرست عطا کی جاتی ہے جس کو
دیکھ کر ہی بیمار کا رہا سہا خون خشک ہوجاتا ہے۔ مہنگی مہنگی دوائیں بندہ
صحت پانے کے لئے خرید تو لے مگر اینٹی بائیوٹک کی بھرمار سے مرض تو شاید
صحیح ہوبھی جائے لیکن مریض کا کریا کرم ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں
رہتی۔گئے تھے گردے میں درد کا علاج کرانے لیکن گھٹنے میں درد شدت پکڑ گیا۔
جب معاملہ قابو سے باہر ہوگیا تو مجبوراََ دوبارہ ڈاکٹر کی شکل دیکھنا پڑی۔
انتہائی بے نیازی کے عالم میں انہوں نے یہ فرما کر اپنا دامن بچا لیا کہ ۔۔
اوہو۔۔فلاں دوائی آپ کو موافق نہیں آئی۔۔یا فلاں دوا کا سائیڈ ایفیکٹ
ہوگیا۔ارے بندۂ خدا اگر پیسے ہی درکار تھے تو صاف کہہ دیتے، یہ چکر پہ چکر
لگا کر ہمیں گھن چکر بنا کر تم کو کیا حاصل ہوا۔جدید تحقیق کے سارے تجربات
کیا ہم پر ہی کرنامقصودتھے۔
اگر غلطی سے مزید اور مکمل علاج کرانے کی دل میں اُمنگ جاگی تو بس نہ
پوچھئے۔۔ڈاکٹروں کی چاندی اور اپنا آنگن سُونا کرنے کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔
بات آپریشن سے کم پر بننا مشکل ہی ہے۔اس سنگِ میل کو عبور کرنے کے لئے آپ
کا بینک بیلینس اگر چھ ہندسوں سے کم ہے تو ابھی سے رک جائیں۔ کیونکہ ۔۔یہ
رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا۔خیر دل کو مضبوط کرکے اور اہلِ خانہ سے رخصت لے
کر اگر آپ آپریشن ٹیبل پر لیٹ ہی گئے ہیں تو احتیاطاََ ڈاکٹروں اور طبی
عملہ سے پہلے ہی کہہ دیجیے کہ اپنا ساراآپریشن کاسامان پہلے ہی گن لو، کہیں
ایسا نہ ہو کہ ان میں سے کچھ اوزار تم آپریشن کے دوران ہمارے اندر ہی بھول
جاؤ اور اس کی پاداش میں ہم دوبارہ اسی ٹیبل کی زینت بننے پر
مجبورہوجائیں۔آپریشن کے دوران تولیے اور دیگر سرجیکل اوزار مریضوں کے جسم
میں بھولنے کے واقعات آئے دن اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں اور ہم مشہور
ہونے کے شوق میں ابھی اتنے اُتاؤلے بھی نہیں ہوئے کہ اپنا آملیٹ بار بار
تمھارے ہاتھوں بنوائیں۔
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں کہیے یا آج کل کی زبان میں ابھی تو پارٹی
شروع ہوئی ہے۔آپریشن کے بعد مریض پہلے ہی تکلیف سے نڈھال ہوتا ہے۔پہلے تو
کتنے ہی دنوں تک بستر سے قدم نیچے رکھنے کی ممانعت ہوتی تھی لیکن اب بقول
ڈاکٹروں کے میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ مریض کو بستر توڑنے کی
اجازت قطعی نہیں دی جاسکتی۔ راقم الحروف کا چشم دید واقعہ ہے کہ ایک قریبی
عزیز کا پھیپھڑوں میں کینسر کا آپریشن ایک مشہور ہسپتال میں ہوا۔شام کے وقت
مریض کو آپریشن تھیٹر سے کمرے میں منتقل کیا گیا۔ مریض کے ایک پھیپھڑے کا
نصف حصہ کینسر کی وجہ سے کاٹ کر نکال دیا گیا تھا۔جب بیہوشی کے اثرات ختم
ہوئے تو مریض کے چہرہ سے تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔ رات بارہ بجے کے قریب
اچانک ڈیوٹی ڈاکٹر بمعہ معاون عملہ کے کمرہ میں آموجود ہوا اور اپنا نادر
شاہی حکم جاری کر دیا کہ مریض کو بستر سے اٹھا کر کمرہ میں چہل قدمی
کروائیں۔ کہاں تو مریض کے لئے کروٹ بدلنا بھی محال تھا اور کہاں اب اسے
بستر سے اٹھ کر دو تیمارداروں کے سہارے ٹہلنے کا فریضہ انجام دینا ہے۔ حکمِ
حاکم مرگِ مفاجات، مرتے کیا نہ کرتے کہ مصداق جیسے تیسے صحت کی خاطر یہ
تکلیف بھی برداشت کرنی پڑی۔
آپریشن کے بعد فالواپ کے نام پر ہسپتالوں کے مزید پھیرے لگاتے ہوئے مریض بے
ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ۔۔یہ تو وہی جگہ ہے گذرے تھے ہم جہاں سے۔۔۔جینے کی
خاطر خود کواتنی بار مارنا ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ان آزمائشوں کے کٹھن
مراحل کو دیکھیں توچچا غالب کی یاد آنے لگتی ہے جنہوں نے بجا ارشاد فرمایا
تھاکہ۔۔مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا۔ |