مسنتد بدنیتی

کچھ لوگوں کی تو قسمت میں ہی رسوائیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ بھاگ دوڑ بڑی کرتے ہیں پر راہیں ملتی ہیں نہ منزل۔ساری عمر بھٹکنا ان کے مقدرمیں لکھ دیا جاتاہے۔کچھ لوگوں کی قسمت تو ایسی نہیں ہوتی مگر شیطان انہیں بھٹکا کر ادھر لے آتاہے۔ایسی فریب کاری دکھاتاہے کہ سچ۔ایماندار اور خلوص کا راستہ ترک کرکے یہ کوئی شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں۔محنت اور دشواریوں سے بھاگتے یہ لوگ شیطان کے ہاتھوں اتنا کھیل جاتے ہیں کہ انہیں اپنا نائب قراردینا شیطان کے لیے بھی قابل فخر ہوجاتاہے۔ایسے لوگوں کی خدا داد تیزیاں جب شیطانی تربیت پاتی ہیں تو سونے پر سوہاگہ والی بات ہوجاتی ہے۔سیاسی میدان میں اس طرح کے بدنیتوں کا آجانا ریاست کے وجود کے لیے بھی خطرہ بنتاہے۔اور قوم کی اجتماعی بے راہ روی کا باعث بھی بنتاہے۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی طرف سے عوامی تحریک کی اے پی سی میں فوری دھرنے او راستعفوں کی تجویز کو پذیرائی نہ مل سکی۔عوامی تحریک کی آل پارٹی کانفرنس میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی طرف سے یہ تجویز دی گئی تھی کہ سات جنوری کو لاہور جام کردیا جائے اور دھرنا دیا جائے۔مذید یہ کہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے پارلیمنٹ کی جماعتیں استعفے دے دیں۔شیخ صاحب کی تجویز نہیں مانی گئی۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اے پی سی میں شریک دوسری جماعتوں کوعوامی مسلم لیگ سے زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔اس اے پی سی اے میں مدعو کی جانے والی قریبا تمام پالیمانی جماعتیں شریک تھی۔اس میں تحریک انصاف بھی شریک تھی۔اور پیپلز پارٹی بھی۔ان دونوں جماعتوں کے ماضی قریب میں علامہ طاہر القادری سے اختلاف رہے ہیں۔رائے ونڈ مارچ کے دوراں عوامی تحریک او رتحریک انصاف کے درمیان بڑی توتکار بھی ہوئی تھی۔عمران خاں صاحب نے رشتہ لینے جانے والی بات بھی انہی دنوں کی تھی۔جس کا علامہ طاہر القادری کی جانب سے سخت برا منا یا گیا۔پی پی سے بھی عوامی تحریک کی قیادت کے تعلقات کچھ زیادہ اچھے نہیں۔پیپلز پارٹی سے متعلق علامہ صاحب اتنے فتوے دے چکے تھے۔کہ اس جماعت کی شرکت کا امکان نہ تھا۔مگر نوازشریف کو کسی نہ کسی طریقے سے چت کرنے کی مجبور ی زرداری صاحب کو اس اے پی سی میں نمائندے بھیجنے کی راہ دکھاگئی۔شیخ رشید کی تجاویز کس طرح پزیرائی پا سکتی تھیں۔اس اے پی سی میں سبھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔شیخ صاحب کی اس آفر کو بھی قابل ذکر نہ سمجھا گیاکہ اگر پارلیمانی جماعتیں استعفے دینے کا فیصلہ کرتی ہیں تو سب سے پہلے وہ اپنا استعفیٰ پیش کریں گے۔

زرداری اور نوازشریف دور میں مقتدر حلقو ں کی ساکھ بڑی متاثر ہوئی ہے۔دونوں ادوار میں ان قوتوں کا متضاد اور منفی رویہ ان کی ساکھ کو چاٹ گیا۔زرداری دور میں کاروبار حکومت کے لیے جو اوٹ پٹانگ مینجمنٹ ہوئی۔اس نے قوم اور ریاست کو مذا ق بنا کررکھ دیا۔بجائے تدبر اور حکمت سے معاملات نبٹانے کے ہیراپھیری اور بارگین سے کام لیا گیا۔جنا لچا اونہا اچاکا فلسفہ چار سو نظر آیا۔سپریم کورٹ نے اگر کسی کو مجرم ثابت ہونے پر سزادی تو عجب معاملہ ہوا۔یا تو اس مجرم کو اس سے زیادہ منفعت بخش کھاتے پر ایڈ جسٹ کروادیا گیا۔دوجے اگر کسی عہدے سے کسی کو عدالت نے کسی غلط کاری پر نکالا تو اس عہدے کے لیے قدرے زیادہ بدنام تلاش کیا گیا۔مقدر حلقوں کی ایسے دور میں خاموشیوں کو مفنی قراردیا جاسکتاہے۔یوں لگاجیسے کسی کو نہ ریاست کے وجود کی فکر ہے۔نہ عوام کے لٹ جانے کادکھ۔یہی قوتیں نوازشریف دورمیں اپنی خاموشیاں توڑ گئیں۔خاموشیاں بھی ٹوٹیں اور ہر طریقے سے حکومت کو محدود اور مسدود کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔نوازشریف دور میں حالات بہتری کی طرف جاتے نظر آرہے تھے۔ریاست کا احترام بڑھا اور عوام کو آسانیاں مہیا ہوئیں۔مگر جانے کیوں کچھ لوگ اس حکومت کو گھر بھجوانا فرض عین سمجھتے رہے۔ دہشت گردی کا جن قابومیں آگیا۔لوڈشیڈنگ ختم کردی گئی۔عالمی سطحی پرپاکستان کو ایک ذمہ دار مملکت تسلیم کرلیا گیا۔ان سب کے باوجود مقتد ر حلقوں کی بے چینیاں عجب ہیں۔زرداری دور میں جب کہ ریاست بے آبرو تھی۔عوام بے حال تب تو یہ حلقے چپ رہے۔اب جبکہ حالات بہتری کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں کچھ لوگ آپے سے باہر ہور ہے ہیں۔

شیخ رشید کودھرنا دینے اور پارلیمانی جماعتوں کے استعفے دیے جانے کی بڑی جلدی ہے۔شیخ رشید صاحب اسیے تمام اطراف کا دفاع کرنے پر بضد ہیں۔جہاں جہاں سے نوازشریف کو چھیڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔شیخ صاحب ایسے تما م حلقوں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔جانے شیخ صاحب کی قسمت میں یہ منفی انداز سیاست لکھ دیا گیا ہے۔یا وہ کسی شیطانی چنگل میں جا پھنسے ہیں؟ ان کی دھرنااور استعفے فوری دینے کی تجاویز مستر دکردیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ابھی پارلیمنانی جماعتوں نوازشریف مخالفت میں آخری حد تک جانے پر آمادہ نہیں۔شیخ صاحب کو اس اختلاف پر افسوس ہے۔جانے وہ کیوں آخری حد تک جانے پر بضد ہیں؟ رانا ثنااللہ نے انہیں مستقلا پنڈی کا شیطان قراردے رکھا ہے۔جانے کیوں شیخ صاحب آخری حد تک جانے کی ضد اپنا کر مستند بد نیت ثابت ہونا چاہ رہے ہیں؟

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141126 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.