خیبرپختونخوا ،محکمہ تعلیم کے مینجمنٹ کیڈرافسران

ایک طرف ملکی حالات دگرگوں کی صورت اختیارکرچکے ہیں تودوسری جانب احتجاج اوردھرنے اپنے زوروں پر ہیں،جیسے اپنے جائز یا ناجائز مطالبات منوانے کے لئے کسی بھی قومی شاہراہ کو بندکرکے دیاجائے یاپھر احتجاج کرکے قوم کے قیمتی وقت کو ضائع کیا جائے،بہرکیف احتجاج یاپھراپنے حق کیلئے پرامن آوازاٹھانا کسی بھی ریاستی باشندے کابنیادی حق ہے،جسے دبانا یا ان کے ساتھ زیادتی کرکے انہیں دیوارسے لگانا ملک وقوم سے غداری کے مترادف مانا جاتاہے،لیکن جیسا ہم ذکر کرچکے کہ بعض احتجاجوں میں چند ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے مطالبات بروقت پورے نہ کئے جائیں تو آنے والے وقتوں میں اس کا خمیازہ ضروربالضرورقوم کوبراہ راست بھگتنا پڑتاہے،یہاں چند باتیں پہلے عرض کردوں کہ قومی اداروں میں ناقص پالیسیاں بھی قومی خزانے اورعوام کے وقت کے ضیاع کے اسباب ہیں،جیسے بعض پالیسیاں کچھ اس انداز سے بنائی جاتی ہیں کہ جن سے قوم کویکجا کرنے کی بجائے ان میں دراڑ پیداکرنے کی ایک ناکام سازش کی بو آرہی ہوتی ہے،کچھ ایسی ہی پالیسیاں ہمارے صوبہ میں دیکھنے کومل رہی ہیں،مثال کے طورپر کسی ایک ادارے کے اہلکاروں نے احتجاج یا ہڑتالوں کا راستہ اپنایا تو ان کی مانگیں پوری کرکے ایک ہی گریڈ یا سکیل میں اپنے فرائض سرانجام دینے والے حکومتی اہلکاروں میں واضح فرق پیداکردیاجاتاہے،جیسے گزشتہ 28دسمبر 2017 سے محکمہ تعلیم کے مینجمنٹ کیڈرافسران قلم چھوڑ ہڑتال پرہیں،ان کی مانگیں جائز کہاں تک ہیں؟ذراملاحظہ کیجیے ،یادرہے کہ محکمہ تعلیم کے مینجمنٹ کیڈرافسران کی تقرری صوبہ بھر کے پرائمری سکول میں چیک اینڈبیلنس کے لئے کی جاتی ہے،ان کی ذمہ داریوں میں سکول کے انتظامیہ امور،اساتذہ کی حاضری،شرح خواندگی کو بڑھانا،گھوسٹ سکولوں کی آبادکاری وغیرہ شامل ہیں،کہ جنہیں مذکورہ کیڈرافسران احسن طریقہ سے انجام دے رہے تھے،لیکن صوبائی حکومت نے بجائے ان کے جائز مطالبات تسلیم کرنے انہیں یکسردیوار کے ساتھ لگا دیا،ساتھ ان کے ہوتے ہوئے صوبہ بھرمیں (IMU)قائم کرکے انہیں ’’ممنون حسین‘‘بنادیا،یہاں یہ ذکر کرتا چلوں کہ مذکورہ کیڈرافسران باقاعدہ پبلک سروس کمیشن کے ایک طریقہ کار کے ذریعے بھرتی کئے گئے ہیں،جبکہ (IMU) کی تقرری صرف این ٹی ایس جیسے ادارے کے ذریعے عمل میں لائی گئی کہ جس کے ڈائریکٹر ،نیب میں اپنی صفائیاں پیش کرتے پھررہے ہیں،اس پرظلم کہ صوبہ بھرمیں میٹرک یا ایف اے پاس کلرکوں کو اپ گریڈ یاپروموٹ کرکے انہیں گریڈ سترہ دے دیاگیا،جبکہ مذکورہ کیڈرافسران محکمہ قانون،فنانس سے بل منظوری کے باوجود بھی اپ گریڈیشن اورپروموشن سے محروم ہیں،ماناکہ ’’آوے کا آواہی بگڑاہے‘‘مگر اتنی’’اندھیر نگری یا چوپٹ راج ‘‘بھی نہیں کہ آنکھ بندکرکے سب کچھ آرام سے برداشت کرلیاجائے،جہاں ترقی یافتہ ممالک میں ایک پرامن احتجاج یا قلم چھوڑہڑتال کسی بھی سیاسی حکومت کی بنیادیں ہلا کررکھ دیتی ہے،وہاں ملک خداداد میں کئی کئی روز اوربعض اوقات تومہینوں چلنے والے احتجاج یاہڑتال کوئی معنی نہیں رکھتے،کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے نزدیک سرکاری ملازم قومی خزانے پر ایک بوجھ سے کم نہیں،ان کا بس چلے تو اس حدتک جائیں کہ قومی اداروں کوبیچ کھاکرقوم کے مستقبل کا بیڑہ غرق کردیں۔بہرکیف بات ہوچلی تھی محکمہ تعلیم کے کیڈر افسران کی جوگزشتہ ایک ہفتہ سے قلم چھوڑ ہڑتال پر مجبورہیں،کہ جس براہ راست اثرمحکمہ تعلیم کے دفتری امورپر پڑے گا۔مذکورہ کیڈرافسران کی قلم چھوڑ ہڑتال سے قوم کے معماروں کے چھوٹے موٹے کام دنوں کی بجائے ہفتوں تک چلے جائیں گے،اورپھر مجبوراً صوبائی حکومت کو ان کے جائز مطالبات ماننا پڑیں گے۔توکیوں قبل اس سے ان کے جائز اوردیرینہ مطالبات پورے نہیں کئے جاتے۔یاپھر یوں کہیے کہ ہرانسان کو آئینے میں اپنا آپ دکھائی دیتاہے،کیاہم اتنے نالائق ،ناسمجھ اور نہ جانے کیا کیا ہیں؟کہ قومی اداروں کے لئے موثر اوردیرپا پالیسیاں بنانے سے قاصرہیں۔کیاہمارے ہاں پڑھے لکھے اورسمجھ داروں کی کمی ہے یاپھر یوں کہیے کہ ہم خود قومی اداروں کو پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتے۔خیرچھوڑیے جب انسان خود کسی گرداب میں پھنستا ہے،تب جاکر اسے اپنی اوقات اوراپنی حیثیت معلوم ہوجاتی ہے،یہ کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اس قسم کے کارنامے ہرروز دیکھنے کومل جاتے ہیں۔لیکن ان باتوں سے بھی ہرگز منہ نہیں موڑ اجاسکتا کہ جلدبازی یاپھر اپنی ’’جے جے کار‘‘کرنے کے لئے اپ گریڈیشن یاپروموشن کردی جائے۔اس کے لئے تو باقاعدہ بلیک اینڈوائٹ میں کاغذی کاروائی ہونی چاہیے،باقاعدہ آئن لائن سسٹم کے ذریعے ہر حکومتی اہلکا رکومعلوم ہونا چاہیے کہ اس کی ذمہ داریاں کیاکیا ہیں؟او ر اس کا مستقبل کیا ہے؟کہ جس کو سامنے رکھتے ہوئے ہر نیا آنے والا سرکاری ملازم حکومتی ذمہ داریوں کو قومی فریضہ سمجھ کر انجام دے سکے۔بصورت دیگر حکومتی اہلکار کبھی ایک تو کبھی دوسرے ادارے میں اپنا محفوظ مستقبل تلاش کرتاپھرے گا۔اسے معلوم ہونا چاہیے کہ فلاں ادارے میں تقرری ،اپ گریڈیشن اورپروموشن کن کن مراحل سے ہوکر گزرے گی۔ورنہ تو مذکورہ صورتحال دیکھنے کو ہرروز ملتی رہے گی اوریوں ہڑتالوں ،احتجاج وغیرہ معمول بن جائیں گے۔کہ جس کا براہ راست اثر قومی خزانے اورقوم کے وقت پڑے گا۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ صوبائی حکومت عرصہ سے پڑی محکمہ تعلیم کے کیڈر افسران کی فائل جلدازجلد صوبائی اسمبلی میں لائے،تاکہ مذکورہ افسران سکھ کا سانس لے سکیں اورمعاشرہ میں انہیں ان کا جائز مقام مل سکے،کیونکہ یہ باتیں اذکار رفتہ ہوچکی کہ آپ اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں کسی کی آواز کودبا جاسکے گا۔محکمہ تعلیم کے کیڈر افسران کی آواز پر صوبہ بھر میں کام والی اساتذہ برادری بھی لبیک کہہ چکی ہے۔یوں جیسا ان کی قلم چھوڑ ہڑتال سے دفتری امور ٹھپ ہوکر رہ جائیں گے،وہاں دوسری جانب مستقبل میں سکولوں کی تالہ بندی کابھی خدشہ ہے۔اس لئے ’’چڑیوں کے کھیت چگ جانے‘‘ سے پہلے ہی مثبت اقدامات کی اشدضرورت ہے، ورنہ ’’بلی کو تھیلے سے نکلنے ‘‘ذرا بھی دیر نہیں ہوگی۔

Waqar Ahmed Awan
About the Author: Waqar Ahmed Awan Read More Articles by Waqar Ahmed Awan: 65 Articles with 46415 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.