چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پورے پاکستان
کے میڈیکل کالجز فیسوں کے کیس سپریم کورٹ ٹرانسفر کرنے کا حکم دیتے ہوئے
آبزرویشن دی ہے کہ آج کے بعد میڈیکل کالجز کی فیس وصولی کا طریقہ کار سپریم
کورٹ طے کرے گی ۔ تمام میڈیکل کالجز سے سات روز میں کالجز کے سٹرکچر ، لیب
، بینک اکاؤنٹس اور دیگر سہولیات سے متعلق تحریری رپورٹ جمع کروانے کی
ہدایت کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ مقررہ مدت میں تفصیلات فراہم نہ کرنے والے
کالجز پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے انتظامیہ
کو مزید نئے میڈیکل کالجز کی منظوری دینے سے بھی روک دیا۔ چیف جسٹس نے مزید
ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم سے پیسوں سے مشرو ط کرنے کی اجازت نہیں دیں
گے۔ جو کالجز معیار پر پورا نہیں اتریں گے انہیں بند کرا دوں گا۔ غیر
معیاری کالجز کو ایسے جرمانے کروں گا کہ ان کے مالکان کو گھر بیچنے پڑ
جائیں گے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس مسئلہ پر نوٹس لے کر پاکستان عوام کے
دل جیتے لیئے ہیں وطن عزیز میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی پیسے کمانے کی ہوس
اور خلاف ضابطہ اقدامات کی وجہ سے میڈیکل تعلیم کا آغاز اتنا گر چکا ہے کہ
اب دیگر ممالک میں پاکستان ڈاکٹرز کو اپنے ملکوں میں نوکریاں دینے پر
پابندیاں عائد کرنی شروع کر دی ہیں جبکہ امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن نے
پاکستانی میڈیکل کالجز کی تعلیم کو انتہائی غیر معیاری قرار دیا ہے۔قیام
پاکستان سے لے کر 2008ملک بھر میں صرف 26میڈیکل کالجز تھے اور اس وقت تک
میڈیکل کا معیار تعلیم بھی قدر بہتر تھا داخلے میرٹ پر ہوتے تھے ۔ ذہین اور
قابل طالبعلوں کو آگے آنے کاموقع ملتا مگر 2009 سے ایسا دور شروع ہوا جس
میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے بڑوں نے حکومتی ملی بھگت سے 97
مزید پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی منظوری دے دی ان کالجز کی منظوری کے عوض
کروڑوں روپے رشوت دی گئی اس موقع پر قواعدوضوابط کو مکمل پس پشت ڈال دیا
گیا بغیر کوالیفائیڈ اساتذہ ، لیبارٹریز ، عمارتوں اور ٹیچنگ ہسپتالوں کے
کالجز قائم کر دیئے گئے جس کے بعد ملک بھر میں میڈیکل کالجز کی تعداد 26 سے
123 تک جا پہنچی ملک میں میڈیکل کی تعلیم ایک کاروبار بن گئی ۔ رشوت اور
سفارش کے بل بوتے پر گھروں ، بنگلوں بقول چیف جسٹس آف پاکستان گیراجوں میں
بھی میڈیکل کالجز قائم کیئے گئے میڈیکل نظام تعلیم تباہ کر کے رکھ دیا گیا۔
کالج مالکان نے میڈیکل تعلیم کا معیار صرف پیسے کو بنا دیا ۔ دولت مند
گھرانوں کے نالائق طالب علموں کو داخلے دے کر اس مقدس شعبے کا بیڑہ غرق
کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ پرائیویٹ کالجز مافیا نے ایک طرف
قواعدوضوابط کی دھجیاں بکھیر دیں تو دوسری طرف ان کالجز کو مانیٹر کرنے
والے ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل پر حکومتی اثرو رسوخ کم کر کے
اپنے ممبران کی تعداد بڑھا کر عملا قبضہ حاصل کر لیا گیا اور پی ایم ڈی سی
اس مافیا کی لونڈی بن کر رہ گئی۔ ان عناصر نے اپنے مفادات کے لیے نت نئے
قوانین منظور کرائے کالجز میں تارکین وطن کی نشستیں پیدا کی گئیں اور انہیں
کمائی کا ذریعہ بنایا گیا ۔ کالجز کے مالکان پرنسپل اور بور ڈ آف گورنر کو
خصوصی سیٹس الاٹ کی گئیں ڈونیشن کے نام داخلہ سیٹس 20سے 50لاکھ میں فروخت
ہونے لگیں ۔ 2008 سے پہلے میڈیکل کالجز کے سالانہ رزلٹ 90فیصد سے اوپر نہیں
تھے جبکہ پرائیویٹ کالجز نے پیسے لو رزلٹ دو کی پالیسی پر 100فیصد رزلٹ
دینے شروع کر دیئے۔ ان کالجز کی بھاری فیسوں کی وجہ سے غریب اور مڈل کلاس
گھرانوں سے تعلق رکھنے والے قابل ذہین طالبعلموں کے لیے میڈیکل تعلیم کا
حصول ایک خواب بن کر رہ گیا ۔ کیونکہ ان کے غریب والدین سالانہ لاکھوں روپے
فیسیں ادا کرنے کے قابل نہیں اور اپنے بچوں کی میڈیکل تعلیم کے خواب کو
عملی جامہ پہنانے کے لیے 40 سے 50 لاکھ روپے کی بھاری رقم ان پرائیویٹ
میڈیکل کالجز کو ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ان میڈیکل
کالجز پر ہاتھ ڈال کر پوری قوم کی دعائیں لی ہیں ۔ میری چیف جسٹس آف
پاکستان سے درخواست ہے کہ ان کالجز کا قبلہ درست کرنے کے لیے سخت
قواعدوضوابط لاگو کیئے جائیں پی ایم ڈی سی میں سرکاری نمائندگی 70فیصد اور
پرائیویٹ کالجز کی 30فیصد کی جائے ان کالجز کی لیبارٹریز ، عمارتوں ،
تدریسی سٹاف، ٹیچنگ ہسپتالوں کوبین الاقوامی معیار پر جانچا جائے اور معیار
پر نہ اترنے والے کالجز کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے ۔ میرٹ پر آنے والے اور
بہترین پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کے لیے فری نشستوں کا کوٹہ
مختص کیا جائے ۔ تاکہ اس ملک میں میڈیکل تعلیم غریب اور قابل بچوں کی دسترس
میں ہو۔ جو آگے بڑھ کر ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔ |