حرمین میں سیلفی پر پابندی… ایک مستحسن فیصلہ

’’سعودی حکومت نے مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں سیلفی پر پابندی لگا دی ہے۔ تمام ممالک کے سفارت خانوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ اپنے علاقے سے آنے والے حجاج و معتمرین سے کہیں کہ حرمین میں کسی جگہ بھی سیلفی لینے کی کوشش نہ کریں۔ ورنہ موبائل ضبط ہونے کے ساتھ ساتھ کڑی سزا بھی دی جائے گی۔ ‘‘ سعودی وزارت خارجہ کا یہ فیصلہ کئی اعتبار سے مستحسن ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ زائرین عبادت پر توجہ دینے کی بجائے لایعنی کاموں میں وقت گزار دیتے ہیں۔ حتی کہ منی اور عرفات جیسی متبرک جگہوں پر بھی ہاتھ میں قرآن مجید و تسبیح کی بجائے سمارٹ فون ہی ہوتا ہے۔حرمین میں سمارٹ فون کا استعمال کئی طرح کے روحانی و جسمانی مسائل کا باعث ہے۔ مثلا:
مسجد میں سیکورٹی خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مساجد کے اندر کی ویڈیوز اور تصاویر اپ لوڈ ہوتی ہیں۔ جس سے دنیا کے کسی بھی گوشے میں بیٹھے دہشت گرد تازہ ترین صورت حال سے باخبر رہتے ہیں۔ اور کوئی بھی بڑا ہنگامہ کھڑا کر سکتے ہیں۔ زائرین کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔ کچھ لوگ بھیڑ اور ہجوم کی پرواہ کیے بغیر سیلفی بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے راستہ رُک جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ، راستہ رکنا کسی بھی بڑے حادثے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ نیز دوسروں کی تکلیف کا باعث بھی بنتا ہے۔ حالاں کہ ایذاء مسلم ہر صورت میں حرام ہے۔ یہ بات باعث شرم ہے کہ جہاں کوئی چیونٹی مارنا جائز نہیں وہاں جیتے جاگتے انسانوں کو ایذاء پہنچائی جائے۔ مسجد میں سیلفی لینے سے مسجد کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اپنے موبائل سے اس طرح تصاویر بنا رہے ہوتے ہیں جیسے مسجد میں نہیں، کسی سیر گاہ میں پھر رہے ہوں۔ جس کعبہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں اور تصاویر کو دھکے دے کر نکالا تھا، اسی جگہ ہم دوبارہ تصاویر کو رواج دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو بھی تکلیف پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات سیلفی لیتے وقت کسی اجنبی نامحرم کی تصویر بھی ساتھ آ جاتی ہے۔ کسی عورت کی تصویر کھینچنا اور اپنے پاس محفوظ رکھنا بھی بہت بڑا جرم ہے۔

سیلفی کا سب سے بڑا نقصان خود نمائی ہے۔ جسے شریعت کی زبان میں ریاکاری کہا جاتا ہے۔ سیلفی لینے والا لامحالہ اپنی تصاویر دوستوں اورجاننے والوں کو دکھاتا ہے۔ یوں زبانِ حال سے اپنے سفرِ حج کا تذکرہ ہوجاتا ہے۔ جس سے ثواب ضائع ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک آدمی نے اپنے ملازم سے کہا ’’ذرا وہ صراحی لانا جو میں دوسرے حج میں اپنے ساتھ لایا تھا۔‘‘ سامنے بیٹھے بزرگ کہنے لگے ’’افسوس! تو نے دونوں حجوں کا ثواب ضائع کر دیا۔ تمہارے حج ریاکاری کی نذر ہو گئے۔‘‘جب اتنے معمولی سے جملے ریاکاری کا ذریعہ بن گئے تو سیلفی تو اس سے کہیں آگے کی چیز ہے۔شاہ ابرارالحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حج میں اپنی طرف سے اخفاء ہونا چاہیے۔ اظہار نہ ہو۔ جس طرح حج سے پہلے اخلاص کی ضرورت ہے، اسی طرح حج کے بعد بھی اخلاص چاہیے۔ یہ نہیں کہ ہمیں اللہ تعالی نے یہ نعمت دی تو اب ہماری جانب سے یہ معاملہ ہو کہ ایسے تذکرے کریں، ایسے معاملات کریں جس سے لوگوں کے علم میں آ جائے کہ ہم حاجی صاحب ہیں۔ جنہیں ہمارے حج کا علم نہیں، انہیں بھی اس کا علم ہو جائے۔ اس طرح کے معاملات اور تذکرے سے احتیاط کرنا چاہیے۔‘‘

اس سے عبادت میں خشوع و خضوع اور اخلاص میں فرق آتا ہے۔ اتنی عظیم عبادت سرانجام دیتے ہوئے اللہ کی بجائے سمارٹ فون کی یاد ستاتی رہتی ہے۔ مسنون اعمال اور دعائیں چھوٹ جاتی ہیں۔ عبادت کی روح مجروح ہوتی ہے۔ لوگ درود و استغفار میں مشغول ہوتے ہیں اور سیلفی لینے والا اپنے موبائل میں مگن ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنی حج کی تصاویر خوب صورت فریمز میں جڑ کر گھروں میں سجاتے ہیں۔ تاکہ کوئی بھی گھر میں آئے تو اسے پتا چل جائے کہ صاحبِ خانہ حاجی صاحب ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’جس گھر میں تصویر اور کتا ہو، اُس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔‘‘(صحیح بخاری) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ عذاب دیے جانے والے لوگ ، تصویریں بنانے والے ہیں۔‘‘ (مشکوۃ)بعض لوگ ان احادیث مبارکہ کا انکار کرتے یا تاویلاتِ بعیدہ کرتے ہیں۔ امام غزالیؒ ایسے متاولین کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’جو شخص کسی حکم کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرتا جب تک کہ اس کا فلسفہ سمجھ میں نہ آ جائے، وہ آپ علیہ السلام پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘

حکومت سعودیہ کو چاہیے کہ حرمین کی مساجد کی حدود میں سیلفی کے ساتھ ساتھ اطلاعی گھنٹی پر بھی پابندی لگا دے۔ کیوں کہ یہ بھی مساجد کی بے ادبی کا باعث بنتی ہے۔ کعبہ مکرمہ کے سامنے یا روضہ مطہرہ کے سائے میں جب کہ خشوع و خضوع سے نماز ادا کی جا رہی ہوتی ہے، موبائل کی گھنٹی خلل ڈال دیتی ہے۔ نیز جیسے مساجد کی حدود میں تصویر لینے پر پابندی عائد کی گئی ہے اسی طرح حرمین شریفین کے بازاروں سے بھی کاروباری و غیر کاروباری تصاویر اتاری جائیں۔ کیوں کہ جس طرح مسجد میں تصویر اتارنا، مسجد کی بے حرمتی ہے اسی طرح ان پاک شہروں میں تصاویر کا ہونا ، ان شہروں کی بے ادبی ہے۔

Abdus Saboor Shakir
About the Author: Abdus Saboor Shakir Read More Articles by Abdus Saboor Shakir: 53 Articles with 89950 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.