اﷲ تعالیٰ نے انسان کو وجود بخشا اور والدین کو اس
کے وجود کا ظاہری ذریعہ بنایا۔ والدین بچے کو دنیا میں لاتے ہے اور انہیں
محنت مشقت کر کے پال پوس کر بڑا کرتے ہیں۔خود بھوکے پیاسے رہ کر اولاد کا
پیٹ بھرتے ہیں۔ اپنی دکھ تکلیف بھول کر بچوں کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ جاتے
ہیں۔ اپنے بچوں کی اچھی پرورش کے لئے دن رات تگ ودو کرتے ہیں۔ اپنی خواہشات
کا گلا گھونٹ کر انکی خوشی میں خوش ہوتے ہیں۔اور جب یہی بچہ بڑا ہو کر اپنے
پیروں پر کھڑا ہوتا ہے تو والدین کو بھول کر اپنی دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔
موجودہ عہد میں اولاد اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ انکے پاس ماں باپ کے ساتھ
چند پل بیتانے، انکی دلجوئی کے لئے وقت ہی نہیں ہیں۔ جہاں دیکھو نفسا نفسی
کا دور ہے۔ وقت کے ساتھ دوڑتے دوڑتے ہم اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں۔جس گھر
میں والدین ہوں وہ گھر رحمت خداوندی کا آشیانہ ہوتا ہے۔ ماں باپ کی دعاؤں
سے بلائیں ٹلتی ہیں۔ مسلمان کا ہر لمحہ ماں باپ کے لئے وقف کیا گیا ہے حتی
کہ عمر بھر کی عبادت و ریاضت اور نیکیاں والدین کی رضا سے مشروط ہیں۔ ارشاد
ربانی ہے:’’اور تمھارے پروردگا کا ارشاد ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ
کرو اور ماں باپ کیساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں
بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان
سے ادب کے ساتھ بات کرنا اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور انکے حق
میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش
کیا تو بھی ان پر رحمت فرما"(سورۃبنی اسرائیل)اس لئے اپنے والدین کی عزت
کریں اور انہیں وہ مقام وہ رتبہ دیں جس کے وہ اصل حقدار ہیں۔والدین اولاد
کو اس امید پر پڑھا لکھا کر اس قابل بناتے ہیں کہ جب وہ خود بوڑھے، کمزور
اور ناتواں ہوجائیں تو انکی اولاد بوڑھے کندھوں کا سہارا بنے گی مگر افسوس
کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے معاشرے میں بوڑھے والدین کی اکثریت انتہائی
کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انکے لخت جگر انہیں چھوڑ کر اپنا الگ
آشیانہ بنالیتے ہے اور انہیں تنہا روتا سسکتا چھوڑ دیتے ہیں۔ انتہائی افسوس
کی بات ہے ایک باپ دس بچوں کی کفالت کر سکتا ہے مگر دس بچے مل کر بھی ایک
والد کو نہیں پال سکتے۔ارشاد نبوی ہے کہ:’’وہ شخص ذلیل ہوا، ذلیل ہوا جس نے
والدین کا بڑھاپا پایا اور دونوں(یا ان میں سے ایک جو بھی زندہ ہو) کی خدمت
کر کے جنت میں نہ پہنچ جائے"۔قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے
ساتھ نیکی کرنا اﷲ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے۔ ماں باپ کے نافرمان
کا کوئی عمل اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا چاہے اس عمل کا تعلق
اﷲ سے ہو یا حقوق العباد سے ہو۔ یاد رکھیے آج جیسا سلوک آپ اپنے والدین کے
ساتھ کریں گے آنے والے وقت میں آپکی اولاد بھی آپکے ساتھ وہی سلوک کرے گی
اس لئے ابھی سے سنبھل جائیے اور اپنے والدین کا احترام کریں انکی خدمت کریں
تاکہ انکے دل سے ہمیشہ آپ کے لئے دعائیں نکلے۔ والدین کی خدمت سے ہم دین و
دنیا میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور آپکے ھاتھ
سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ آئے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی فرمانبرداری
کرنے والا بنائے اور ہماری اولاد کو بھی ان حقوق کی ادائیگی کرنے والا
بنائے (آمین)۔ |