سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ
مولانا عبدالغفور حیدری کو اسمبلیاں مدت پوری کرتی نظر نہیں آرہیں جبکہ
بلوچستان میں بھی سیاسی حالات خراب دکھائی دے رہے ہیں ،یوں لگتا ہے اگلے دو
تین روز میں وہاں کی حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائیگا ‘نواز شریف بھی کئی راز
دل میں رکھے ہوئے ہیں۔ن لیگ والے چاہتے ہیں کسی طرح بھی سینٹ الیکشن ہو
جائیں تاکہ سینٹ میں ان کی اکثریت ہو جبکہ مخالفین کی خواہش ہے مارچ سے قبل
حکومت کا خاتمہ ہو جائے چاہے کوئی غیر جمہوری طریقہ ہی کیوں نہ اختیار کیا
جائے۔پیارے پاکستان کی سیاست بھی عجیب و غریب ہے کل کیا ہو جائے کچھ نہیں
کہا جا سکتا،یہاں تو وزیراعظم قتل ہوئے،پھانسی پر چڑھے،جلا وطن ،برطرف کئے
گئے،پیراشوٹر حکمران بھی مسلط کئے گئے،بارہ میں سے پانچ صدور فوجی تھے ۔خیر
اب آگے بڑھنا ہوگا،گزرے کل کو بھولنا ہوگااور آنے والا کل روشن بنانا
ہوگا۔جمہوری و غیر جمہوری طاقتیں سات دہائیوں تک ملک کو نقصان پہنچاتی رہیں
اب انہیں ٹھیک کرنے میں سات نہیں تو تین دہائیاں ضرور درکار ہیں،ستر سالہ
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ زرداری حکومت نے مدت پوری کی اور اب نواز شریف
کی حکومت کے بھی پانچ ماہ رہ گئے ہیں مگر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی گئی۔ایسا
نہیں کہ آصف زرداری کے دور حکومت میں یہ سب نہیں ہوتا تھا تب بھی سابق چیف
جسٹس افتخار چودھری جنہوں نے بے نامی سی سیاسی پارٹی بھی بنائی ہوئی ہے روز
سوموٹو ایکشن لیتے تھے جس سے حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوتی تھیں یہاں تک کہ
پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم نہ ماننے پر کرسی
سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گیاتھا ۔یہ تو پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ عدالتوں اور
ایک مخصوص نیوز چینل نے انہیں کام کرنے نہیں دیا جبکہ دوسری طرف حکومت نے
بہت سی غلطیاں بھی کیں۔تب ملکی اداروں میں خلاف قانون تقرریاں بھی ہوئیں
اور مختلف اداروں میں کرپشن زبان زد عام تھی۔عجب کرپشن کی غضب کہانیاں
پاکستانی روز نیوز چینلز پر دیکھتے تھے ۔ سٹیل ملز ،رینٹل پاور کیس، حج
کرپشن کیس ،این آئی سی ایل سکینڈل ،ایفی ڈرین سکینڈل اور ریلوے میں کرپشن
کے کیسز پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سر فہرست رہے ۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل
کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے چار سالہ دور حکومت
میں پچاسی سو ارب روپے کی کرپشن ہوئی تھی ۔ ایسے میں اگر عام آدمی کی رائے
لی جائے کہ عدالتوں کو ملکی تباہی اور لوٹ مار پر نوٹس لینا چاہئے تھا یا
ڈھیل دے دینی چاہئے تھی تو جواب یہی ملے گا کہ نوٹس ہی لینا چاہئے تھا مگر
بدقسمتی سے کچھ کیسز منطقی انجام تک نہ پہنچ سکے۔زرداری کے دور حکومت کے
مقابلے میں موجودہ حکومت نے عوام کی فلاح کیلئے کچھ کام ضرور کئے ہیں اور
کرپشن کے بڑے سکینڈل بھی سامنے نہیں آئے مگراس کے باوجود عوام کے حالات جوں
کے توں ہیں۔مہنگائی،بیروزگاری عروج پر ہے،صحت،تعلیم پر بھی توجہ نہیں دی
گئی،تھانوں کی بھی حالت نہ بدل سکی،مگر اچھی بات یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت
کا سفر جاری ہے ۔دس سالوں سے ملک میں جمہوریت چلی آ رہی ہے سیاستدان غلطیاں
بھی کر رہے ہیں ،کچھ سیاسی لوگ غیر سیاسی اور غیر جمہوری لوگوں کو دعوت
گناہ دیتے رہتے ہیں جو جمہوریت اور ملک و قوم کیلئے نیک شگون نہیں،جمہوریت
چلتی رہی تو ملکی حالات ضرور بہتری کی طرف جائینگے مگر جب سپیکر قومی
اسمبلی اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کو ہی خفیہ ہاتھ نظر آنے لگیں گے تو عام آدمی
یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیگا کہ سیاستدان ناکام ہوچکے ہیں، سیاستدان ملک
چلانے کے قابل ہی نہیں۔ بلوچستان میں بھی جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس کے
اثرات ملکی سیاست پر بھی پڑیں گے ۔خدانخواستہ بلوچستان میں سیاسی بحران کی
صورت میں وزیراعلی کو گھر جانا پڑ گیا تو دیگر اسمبلیوں میں بھی ایسی
صورتحال پیدا کی جا سکتی ہے اور ملک میں پھر سے مارشل لا کیلئے راہ ہموار
ہونے لگے گی۔سیاستدانوں کو چاہئے کہ آپس میں کسی بات پر اتفاق کریں نہ کریں
مگر جمہوریت کیخلاف جب بھی کوئی اقدام اٹھتا نظر آئے تو متحد ہو جائیں اور
غیر جمہوری طاقتوں کو مورچوں میں جانے پر مجبور کر دیں۔زیادہ نہیں صرف دو
سے تین مرتبہ مارشل لا کا راستہ روک لیا گیا تو پھر ملک میں کبھی مارشل لا
لگ ہی نہیں سکے گا۔ترکی میں بھی سال دو پہلے غیر جمہوری قوتوں نے اقتدار پر
قبضے کی کوشش کی جسے عوام اور سیاستدانوں نے متحد ہو کر ناکام بنادیا اور
کڑا احتساب شروع کر دیا گیا اب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کبھی مارشل لا
بھی لگ سکتا ہے۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں ہی سب کی بھلائی
ہے،پرویزمشرف کے مارشل لا کے بعد ملک میں زرداری کی حکومت آئی ۔پیپلز پارٹی
نے اپنی مدت پوری کی ،عوام نے الیکشن میں حساب کتاب پورا کر لیا اور پیپلز
پارٹی کو ایک صوبے تک محدود کر دیا،نواز شریف نے بھی عوام کی بھلائی کیلئے
کام نہیں کئے ہونگے تو عوام انہیں گھر بھیج دینگے،ایسے ہی اگر کل کو عمران
خان وزیراعظم بنتے ہیں اور وہ بھی عوام کیلئے کچھ کرنے میں ناکام رہتے ہیں
تو عوام کے پاس ووٹ کی طاقت ہوگی جسے استعمال کر کے وہ کسی اور کو منتخب کر
سکیں گے ۔جمہوریت کے تسلسل سے ایک بات واضح ہو جائیگی کہ کونسا سیاستدان
اور کونسی پارٹی ملک و قوم سے مخلص ہے اور کون نہیں۔حکومتیں بنانے اور گھر
بھیجنے کا اختیار صرف اور صرف عوام کے پاس ہی ہونا چاہئیکیونکہ عوام سے
بہترین جج کوئی اور نہیں ہو سکتا۔اب عوام کو بھی ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہو
جانا چاہئے کہ آپ ووٹ دے کر کس کو منتخب کر رہے ہیں۔افواہیں سرگرم ہیں کہ
2018 مارشل لا کا سال ہے ،اﷲ کرے 2018 الیکشن کا سال ہو اور ملک و قوم کی
بہتری کیلئے کام کرنیوالوں کو ہی عوام منتخب کریں،سیاست سے غیر جمہوری
لوگوں کا تعلق ہمیشہ کیلئے ختم ہونا چاہئے،اﷲ کرے ملک سے دہشت گردی کا
خاتمہ ہو،تمام مسائل حل ہوں اور ہم ہنسی خوشی زندگی گزاریں(آمین ) |