وہ یونیورسٹی میں میرے ساتھ پڑھایا کرتا تھا ۔نہایت
سنجیدہ اپنے پیشے میں ماہر لیکن لوگ اُس سے کتراتے تھے ۔اور وہ اُسی بات
میں فحر محسوس کرتا تھا ۔کہ طلبہ اس سے دور بھاگتے ہیں اُس کے آتے ہی یہاں
وہاں ہو جاتے ہیں ۔اُس کے خیال میں طلبہ اُس کی عزت کرتے تھے لیکن در حقیقت
اُس کے سخت مزاج کی وجہ سے لوگ اس سے دور بھاگتے تھے جس کا اسے خود علم نا
تھا یہی نہیں اس کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کا بھی یہی حال تھا کہ اُس سے
بات کرتے ہوئے ہزار بار سوچا جاتا پھر لفظوں کو جمع کرکے بات زبان تک
پہنچتی۔لیکن ایک لمحہ کے لئے سوچئے دراصل وہ دن بد ن اکیلاہوتا جارہاہے ہر
گزرتا دن اُس کر تنہا کرر ہا ہے وہ اپنے اندر خود کو مکمل ضرور سمجھتا ہے
لیکن حقیقت یہ کہ وہ اپنی عادتوں کے باعث غیر مقبول ہے نمایاں ہونے کے
باوجود نمایا نہیں ہے صلاحیت ہونے کے باوجود قابلیت خاموش ہے کیونکہ علم
حاصل کرنے والے اُس سے کتراتے ہیں ۔کوئی علم کا پیاسہ اگر قریب آبھی جائے
تو اپنی قابلیت کے وہ ایسے گیت گاتا ہے کہ مدِمقابل احساس کمتری کا شکار ہو
کر اس کے علم سے سراب ہونے کے بجائے تشنہ واپس لوٹتا ہے۔ایک لمحہ کے لئے
سوچئے کیا ایسا شخص اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود کامیاب کہلائے گا ۔ہر
گز نہیں۔۔۔ کیوں کے اُس نے اپنی ذات کو اعلی سمجھتے ہوئے اپنے مزاج کو ایسے
ڈھالا ہے جیسے تبدیل کرنا اُسے خود بھی ناممکن لگتا ہے۔اُس کے خیال میں وہ
جیسا ہے ایسے ہی رہے گا جیسے اُس کے قریب آنا ہے آئے اور جو نہیں آنا چاہتا
وہ اپنا رستہ ناپے۔
ایسے ہی یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ لوگ مسکراتے نہیں ۔مسکرانا اُن کے مزاج
کا حصہ نہیں ہوتا اور کسی سے مسکرا کے ملنا دراصل وہ ایسے خیال کرتے ہیں کہ
ان کے وقار میں کمی آجائے گی ۔یہ طرز عمل انسان کی تنہا کردیتا ہے ۔لوگ آپ
کے پاس آنا چاہتے ہیں آپ سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن آپ کے چہرے کی سختی
انھیں کہیں دور بہت دور لے جاتی ہے اور آخر ایک وقت آتا ہے کوئی آپ سے بات
کرنا کوئی پسند نہیں کرتا۔
نبیﷺکی حدیثِ مبارکہ ہے
تمھارا اپنے بھائی کے منہ پر مسکرانا بھی صدقہ ہے
مسکراہٹ کو اپنے مزاج کا حصہ بنائے ۔یوں آپ کا چہرہ ہمیشہ ہنستا مسکراتا
اور خوشی سے دمکتا رہے گا۔اور لوگ خود ہی آپ کے قریب آنے کی کوشش کریں گے
۔لیکن ہم اپنے مزاج میں ایسی سختی پیدا کردیتے ہیں کہ لوگ ہم سے رفتہ رفتہ
دور ہوتے جاتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ حال ہم میں سے بہت سے لوگوں کا ہم جس مزاج میں ڈھل جاتے ہیں
اُس سے نکلنا ہمیں ناممکن لگتا ہے ۔ہمارے بات کرنے کا انداز، لوگوں سے رکھ
رکھاو ،غصہ ،یا اتنا دیھما لہجہ کے بات میں وزن ہونے کے باوجود کوئی بات
سننے کو تیار ہی نا ہو،کوئی نا کوئی ایسی ضرور ہوتی ہے جو ہمارے مزاج کا
حصہ بن جاتی ہے اور اس میں ہماری ہٹ دھرمی کے ہمیں تو ایسا ہی رہنا ہے ۔یہ
رویہ غلط ہے اگر آپ زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنے اندر کی
خامیوں کو ٹٹول کو باہر نکالیئے اپنا محاسبہ کیجئے کہ کیا میں ٹھیک ہوں
میرے مزاج میں شامل کوئی بات ایسی تو نہیں جس سے میری زندگی میرے مستقبل پر
اثر پڑرہا ہے جس سے میرے آس پاس کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں یا جس عادت کی وجہ
سے میری وعقت ختم ہورہی ۔ایک بات ذہن نشین کر لیجئے اپنا مزاج بدلنا مشکل
ضرور ہے ناممکن نہیں ۔
یاد رکھئے کامیاب وہ ہے جو اپنے اندر نہ صر ف تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتا
ہے بلکہ اپنی اُس تبدیلی سے لوگوں کو آگاہ کرکے اُن میں بھی بدلاو لانے کا
موجب بنے۔اصل مہارت یہی ہے اور اصل بہادری بھی یہ کہ آپ اپنے سامنے خود
اپنی ذات کے اچھے اور برے پہلو کا وقتا فوقتا تجزیہ کرتے رہیں۔اور اپنے
اندر بدلاو کو خوش دلی سے اپنائے۔۔
|