تحریر: فرح انیس، کراچی
دور دراز دریا کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، ہر طرف ہریالی ہی ہریالی
تھی۔ صاف ستھرے گھر اور ان گھروں میں بسنے والے لوگ آپس میں پیار و محبت سے
رہتے تھے۔ جس سے اس گاؤں کا نام ہنستی دنیا رکھ دیا گیا تھا۔ اگر کسی کو
کوئی مشکل یا پریشانی پیش آتی تو سب مل کر اس مشکل کا حل نکالتے اور یوں
بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہوجاتا۔ اس گاؤں میں ایک خاتون جمیلہ بھی رہتی تھیں۔
جمیلہ کو سب جمیلہ اماں کے نام سے پکارتے تھے۔
جمیلہ اماں بہت سمجھدار خاتون تھیں۔ گاؤں والے اپنے مسائل ان کے پاس لے کر
آتے جسے وہ بڑی سمجھداری سے سلجھا دیا کرتیں۔ اس گاؤں میں نیلم اور ماہم دو
سہلیاں رہتی تھیں۔ دونوں کے گھر برابر تھے اور دونوں ایک ہی اسکول میں ہم
جماعت تھیں۔ ان کی دوستی اور آپس کے خلوص کی مثالیں دی جاتیں۔یوں وہ دونوں
روز اسکول جاتیں اور گھر آتیں بہت اچھے سے سب چل رہا تھا۔
ایک دن گاؤں میں ایک کسان نیا نیا آیا ۔ کسان کا ایک بیٹا عبد اﷲ اور ایک
بیٹی نائلہ تھیں۔ نائلہ کو ماہم اور نیلم کی دوستی بہت پسند آئی مگر ساتھ
ہی ساتھ حسد بھی ہوا۔ نائلہ نے ان دونوں کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا جسے
ان دونوں نے فراخ دلی سے قبول کرلیا۔ اب وہ تینوں مل کے اسکول جاتیں اور
شام میں ایک دوسرے کے گھر جاکر کھیلتیں۔ نائلہ کے آنے سے اب ماہم نیلم کو
بہت مزہ آنے لگا تھا ۔
مگر کچھ ہی روز میں اچانک ماہم اور نیلم ایک دوسرے سے الگ الگ رہنے لگیں۔
ان دونوں کی بے رخی کا انداز نہ صرف اسکول میں سب نے محسوس کیا بلکہ گاؤں
والوں کو بھی وہ محسوس ہوگیا کہ کچھ تو گڑ بڑ ہوگئی ہے۔ ایک جمیلہ اماں گزر
رہی تھیں کہ دیکھا نیلم اور ماہم الگ الگ بیٹھیں ہیں۔ جمیلہ اماں نے دونوں
سے وجہ پوچھی تو دونوں ہی ٹال گئیں ۔ جمیلہ اماں کو معاملہ بہت سنجیدہ لگا۔
الگ روز اتوار تھا۔ جمیلہ اماں نے ان دونوں کو اپنے گھر بلا لیا۔
اتوار کے روز جب وہ دونوں جمیلہ اماں کے گھر پہنچی تو ایک دوسرے کو دیکھ کر
چہرہ پھیر لیا۔ جمیلہ اماں نے غور سے دونوں کے تاثرات دیکھے اور بہت حد تک
معاملے کو سمجھ گئیں۔ نیلم اور ماہم تم دونوں تو نہ صرف دوستی میں بہت اچھی
تھی بلکہ ایک دوسرے کی بہنوں کی طرح تھیں، پھر یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ آخر
معاملہ کیا ہے۔ کیوں ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔ کیا کوئی لڑائی ہوئی ہے۔
جمیلہ اماں نے ایک ہی سانس میں سب سوال پوچھ ڈالے۔ جمیلہ اماں کی بات سن وہ
خاموش ہی رہیں پھر نیلم آہستہ سے بولیں۔ ماہم میرے ساتھ مخلص نہیں ۔تم بھی
میرے ساتھ مخلص نہیں ماہم فورا ہی جواب دیا۔
ابھی تک تو تم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مخلص تھیں اب اچانک تم دونوں کو کیسے
پتا چل گیا کہ تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص نہیں۔ جمیلہ اماں کے سوال
پر ماہم جلدی سے بولی مجھے نائلہ نے بتایا۔ اسے اپنی جلد بازی پر افسوس
ہورہا تھا نائلہ نے اسے منع کیا تھا کہ وہ نیلم کو نہ بتائے۔ نیلم تمہیں
بھی نائلہ نے ایسا ہی کچھ کہا، تو اس نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔ اچھا
اور کیا کیا کہا اس نے تمہیں۔ اماں نائلہ نے بتایا کہ ماہم تمہاری بہت
برائیاں کرتی ہے۔ یہیں سب ماہم نے بھی بتایا کہ نیلم یہ سب تمہارے بارے میں
بولتی ہے۔ دونوں کی باتیں سن کر جمیلہ اماں مسکرادیں۔
سب باتیں سننے کے بعد جمیلہ اماں نے ان دونوں کو پیار سے کہا۔ دیکھو بیٹا!
جہاں بہت ساری محبت اور پیار ہو وہاں باہر سے کچھ لوگ اس کو توڑنے کی کوشش
کرتے ہیں۔ آپس میں مل جل کر رہنا شیطان کو کبھی برداشت نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ
مل جل کر رہنے اور دوستوں کو الگ کر کے خوش ہوتا ہے۔ اس طرح دوسروں کی
باتوں میں آکر اپنے درمیان غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رکھیں
جب تک تم خود اپنے کانوں سے سن اور آنکھوں سے دیکھ نہ لو تب تک کسی کی کہی
ہوئی بات پر ہرگز اعتبار نہ کرو۔ ہوسکتا ہے وہ تم دونوں کو الگ کرنا چاہا
رہا ہو۔ اب نائلہ کو ہی دیکھ لو۔ اس نے جھوٹ بول کر تم دونوں میں غلط فہمی
پیدا کی اور پھر تم ایک دوسرے کی دوست ہوتے ہوئے بھی دشمن بن بیٹھیں اور
یوں نائلہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی۔
ابھی وہ سب وہاں بیٹھے تھے کہ جمیلہ اماں کے بلائے جانے پر نائلہ بھی وہاں
پہنچ گئی ۔ ان سب کو وہاں دیکھ کر وہ ڈر گئی۔ جمیلہ اماں نے اسے نرمی سے
اپنے پاس بیٹھا یا اور کہا۔ نائلہ تم نے جو کچھ کیا یہ سب شیطان کے کام
ہیں۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ نائلہ نے شرمندگی سے سر جھکا دیا۔ اماں بولیں ،
خیر اب ان باتوں کو چھوڑو۔ کبھی کسی پر حسد نہیں کرتے۔ ہمیشہ دوسروں کی
محبت اور ان کے پیار میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔ اگر نیلم اور ماہم ایک دوسرے
کی اچھی دوست ہیں تو تم بھی ایک ایسی دوست بن کر ان میں اپنا مقام بناؤ نا
کہ تم ان دونوں کی دوستی توڑ کر اپنی دوستی بناؤ۔ نائلہ نے فورا دونوں سے
معافی مانگی اور انہوں نے بھی فورا ہی اسے معاف کردیا۔
جمیلہ اماں نے تینوں کو ایک بار پھر سے اچھی اور مثالی دوست بن کر رہنے کا
وعدہ کیا تو انہوں نے فورا ہی وعدہ کیا اور ایک ساتھ ہنستی مسکراتی گھر لوٹ
گئیں۔ کچھ ہی دیر میں جب جمیلہ اماں سودا لینے گھر سے نکلیں تو دیکھا وہ
تین پیڑ کے نیچے مل کر بیٹھیں کھیل رہی تھیں۔ ان تینوں کے چہرے پر اطمینان
، سکون اور ہنسی دیکھ کر جمیلہ اماں کا دل باغ باغ ہوگیا اور وہ بے اختیار
مسکرا دیں۔ |