صبا نزہت
یہ کہانی ہے افریقہ کے ایک گھنے جنگل کی جو امن و آشتی کا گہوارہ تھا۔ جہاں
سب جانور پیار محبت کے ساتھ مل جل کر رہا کرتے تھے۔ وہاں محاورتاً نہیں
بلکہ حقیقتاً شیر و بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیا کرتے تھے وہ ایک ایسا
مثالی جنگل تھا جہاں ہر وقت منگل کا سماں رہا کرتا تھا۔ لیکن ایسا صرف اس
وقت تک تھا جب تک جنگل کا بادشاہ موگا شیر تھا کیونکہ وہ بہادر اور طاقتور
ہونے کے ساتھ ساتھ نیک دل اور امن پسند بھی تھا یہی وجہ تھی کہ جنگل کے
سارے جانور اس سے بے حد محبت کرتے تھے۔
دوسرے جانوروں کا شکار کرنا تو جانوروں کی فطرت میں شامل ہے اور جانوروں کی
فطرت بدلنا تو ناممکن ہے مگر غیر ضروری طور پر دوسرے جانوروں کو زخمی کرنا،
لڑائی جھگڑا کرنا، کسی دوسرے جانور کا شکار چھین کر کھا جانا یا کسی جانور
کے انڈوں اور بچوں پر حملہ کرنا موگا شیر کی سلطنت میں سنگین جرم سمجھا
جاتا تھا۔ ایسے کام کرنے والے جانوروں کو سخت سزا دی جاتی تھی۔ تمام جانور
نہ صرف اس سے بات چیت اور لین دین بند کردیتے تھے بلکہ جرم کی نوعیت سنگین
ہونے پر اکثر مجرم جانوروں کو جنگل سے بھی نکال دیا جاتا تھا موگا کی سلطنت
میں صرف چھوٹے جانور ہی نہیں بلکہ تمام شیر برادری بھی ان اصولوں کی
پاسداری کیا کرتے تھے۔ دوسرے جنگل کے جانوروں کی بھی ذرا مجال نہ تھی کہ
موگا کے جنگل کی حدود میں اس کے قانون کی خلاف ورزی کر سکے۔
مگر اب صورت حال یکسر بدل چکی تھی۔ کچھ ہی مہینے گزرے تھے جب موگا اپنی
طبعی عمر پوری کر کے مر چکا تھا اور اب موگا کی جگہ اس کا بیٹا شوگا بادشاہ
منتخب ہوا تھا۔
اپنے ہر دل عزیز بادشاہ کی موت کا غم اپنی جگہ تھا مگر تمام جانور خوش تھے
کہ شوگا نے دوسرے شیروں سے لڑ کر اپنی بہادری کا لوہا منوا لیا تھا اور ان
کا بادشاہ منتخب ہوا تھا۔ مگر چند ہی دنوں میں جب انہوں نے شوگا کے طور
طریقے دیکھے تو ان کی سب خوشی زائل ہو گئی۔ وہ ایک ظالم اور خونخوار شیر
تھا۔
شوگا! کل تم نے چار نیل گائے دو ہرن اور ایک زیبرے کا شکار کیا اور آج تم
نے بلاوجہ تین بارہ سنگھوں پر حملہ کیا جن میں سے ایک شدید زخمی حالت میں
بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا مگر افسوس کے وہ بچ نہ سکا اور دریا کے کنارے
پڑی اس کی لاش گدھوں کا نوالہ بن گئی۔ آخر تم ایسا کیوں کر رہے ہو‘‘۔ لورا
شیرنی کی دھاڑ سے سارے پرندے بھی سہم کر اپنے گھونسلوں میں چھپ گئے۔ جو اب
میں شوگا نے ایک کڑک دار قہقہہ لگایا ’’امی حضور کل میں نے لومڑی، لگڑبھگے
اور گیڈر کی دعوت کی تھی نیل گائے اور زیبرا ان کے لیے تھا۔ اپنے لیے تو
میں صرف ہرن پسند کرتا ہوں۔ اور آج ان بارہ سنگھوں کو میں ان کی گستاخی کی
سزا دینا چاہتا تھا۔ شیروں کے سامنے ان کی مجال اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہماری
موجودگی کا لحاظ کیے بغیر بھی گھاٹ پر پانی پیتے رہے تھے۔‘‘
شوگا کی اکڑ اور غرور نے لورا شیرنی کو موگا شیر کی سادگی اور انکساری کی
یاد دلا دی تھی۔ ’’ان بارہ سینگھوں میں گستاخی کی مجال تمہارے رحم دل باپ
کی وجہ سے ہوئی تھی۔ کاش کہ تم بھی اپنے باپ کی طرح ہوتے تو سارے جانور تم
سے ڈرنے کے بجائے تمہاری عزت کرتے اور گن گاتے لورا شیرنی اپنے بیٹے کے
رویے پر بے حد شرمندہ اور غمگین تھی۔ ’’شیر کا اپنی رعایا پر رعب و دبدبہ
ہونے میں ہی شان ہے۔ میں ابا حضور کی طرح نادان نہیں ہوں جو ان کمزور
جانوروں کو سر پر چڑھاتا پھروں میں طاقت کے ذریعے حکومت کرنا جانتا ہوں‘‘۔
شوگا کی دھاڑ آس پاس میں دبکے ہوئے جانوروں نے بھی سن لی تھی۔ نئے بادشاہ
کے عزائم سن کر اب ان کی خیریت اسی میں تھی کہ یا تو وہ یہ جنگل ہی چھوڑ
جائیں یا پھر بادشاہ کی پہنچ سے کوسوں دور ہی رہیں۔ دوسری طرف لورا شیرنی
کو اپنے بیٹے کے خیالات سن کر سخت ضدمہ پہنچا تھا۔
’’نادان تمہارا باپ نہیں تھا بلکہ تم ہو شوگا جو ظلم اور ناانصافی کو اپنی
حکومت کی بنیاد بنا رہے ہو۔ محبت ان سے کہیں زیادہ طاقتور جذبہ ہے کاش کہ
تم سمجھ سکتے۔ لیکن اتنا ضرور یاد رکھنا کہ تمہاری خونخواری تمہیں بالکل
تنہا کر دے گی اور یہ بھی یاد رکھنا کے ظلم بالآخر مٹ کر ہی رہتا ہے۔‘‘
شوگا نے اپنی ماں کی باتوں پر کان نہیں دھرے اور نہ ہی کمزور اور معصوم
جانوروں کا خون بہانا ترک کیا۔ اس کی روشن سے دل برداشتہ ہو کر لورا شیرنی
جنگل ہی چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
تمام جانور بھی ہر وقت اپنی کمین گاہوں میں چھپے رہتے تھے یوں جنگل میں خوب
و ہراس نے اپنا ڈیرا جما لیا تھا۔
شوگا کی خونخواری حد سے بڑھ گئی تو ایک دن تمام جانوروں نے آپس میں میٹنگ
بلائی۔ جس میں تمام جانوروں نے شوگا سے نجات حاصل کرنے کے طریقوں پر غور و
خوص کیا۔ بہت سوچ بچار کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اتحاد میں بڑی طاقت ہے
لہٰذا آئندہ سے کوئی بھی جانور تن تنہا نہ شکار پر جائے گا اور نہ ہی پانی
پینے گھاٹ پر بلکہ سب چار یا پانچ کی ٹولیوں کی شکل میں رہا کریں گے۔ تنہا
کوئی بھی جانور شیر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن اگر وہ ہر وقت
جتھے کی شکل میں رہیں گے تو شیر بلا ضرورت ان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں
کرسکے گا جانوروں کی ترکیب کار گر رہی اور یوں وہ بڑی حد تک شوگا کے حملوں
سے محفوظ رہنے لگے۔
دوسری جانب رحمت الٰہی سے بھی ان مظلوم جانوروں کی حالت چھپی نہ تھی غضب
خداوندی نے ازخود ان کی داد رسی کا انتظام کردیا۔
شکاریوں کا ایک ٹولہ جنگل کے اس حصے میں آپہنچا جہاں سے شوگا کا غار کچھ
زیادہ دور نہ تھا۔ جیب کے انجن کی گھڑ گھڑاہٹ اور اسلحہ کی گھن گرج سن کر
سارے ہی جانور دور بھاگ نکلے مگر شیر سے کشیدہ تعلقات کے باعث کسی نے بھی
اسے شکاریوں کی آمد کی اطلاع نہ دی یوں شیر اپنے ہی غار میں محصور ہو کر رہ
گیا کیونکہ شکاری ایک شیر کو پکڑنے کے لیے ہی گھات لگا کر بیٹھے تھے۔ اسے
اپنے غار میں محصور دوسرا دن تھا جب قریب سے ہی اسے نیل گائے کی خوشبو
سنگھائی دی۔ بھوک نے اسے پہلے ہی بہت بے تاب کر رکھا تھا اس لیے اس نے سوچا
آج ہرن نہ سہی نیل گائے ہی سہی۔ اسی پر گزارہ کر لیتا ہوں۔ جب اس نے سونگھ
کر اچھی طرح انسانوں کی غیر موجودگی کا اطمینان کر لیا تو بہت چوکنے انداز
میں دبے پاؤں نیل گائے کی طرف بڑھنے لگا۔ دوسری طرف نیل گائے بھی شیر کی بو
محسوس کرکے کرکے ہنھنانے لگی مگر بندھی ہوئی ہونے کی وجہ سے بھاگ نہیں سکی۔
جیسے ہی شیر نے اس پر جست لگائی وہ شکاریوں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس
گیا۔ اس نے خوب دھاڑ لگائی اور بہت زور آزمائی کی مگر سب بے سود ہی رہا نہ
ہی کسی جانور نے جال کاٹ کر اسے باہر آنے میں مدد دی۔ جلد ہی شکاریوں نے
اسے ایک مضبوط پنجرے میں منتقل کر دیا اور بڑی سی گاڑی میں ڈال کر شہر لے
گئے۔
یوں جانوروں کی شوگا سے نجات ملی۔ ظالم بادشاہ سے نجات پاتے ہی تمام
جانوروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی بالآخر کئی دنوں تک جشن منانے کے بعد
انہوں نے آپس کے صلاح مشورے سے لورا شیرنی کو اپنی ملکہ بنا لیا۔ لورا
بوڑھی ضرور ہو گئی تھی مگر اس جیسا عقلمند شیر جنگل میں اور کوئی نہ تھا۔
دوسری طرف شوگا کو اپنے ظلم اور تکبر کی سزا مل چکی تھی۔ چڑیا گھر کے ایک
پنجرے میں قید ہونے کے بعد جلد ہی اس کی ساری اکڑ خون اور غرور بہہ نکلا
تھا۔ تازہ جنگلی ہرنوں کا شکار کرنے والا جب روکھی سوکھی بکریوں کا گوشت
کھاتا تو اسے کبھی موگا شیر یاد آتا تو کبھی لورا شیرنی۔ اپنے آزادی کے
دنوں کو یاد کرتے وہ اس قید میں اپنی زندگی کے باقی دن بڑی کسمپرسی میں
گزار رہا تھا۔ سچ کہا ہے کسی نے اﷲ کے یہاں دیر ہے پر اندھیر نہیں۔
|