تحریر: کرن اسلم
شام کا وقت تھا۔ شانی، دانیال کوفٹ بال کھیلنے کے لیے بلانے آیا تھا۔دانیال
نے اپنے دوست شانی سے کہا۔ ’’ پڑھو گے ،لکھو گے بنو گے نواب۔ کھیلو گے،
کودو گے تو ہو گے خراب ۔۔سمجھے تم؟ ‘‘شانی کچھ کہے بغیر واپس چلا گیا۔
حالاں کہ دانیال اُس وقت اسکول کا کام مکمل کر چکا تھا۔ دانیال بہت کم
کھیلنے جاتا تھا۔ ہر وقت پڑھائی کی فکر میں رہتا۔ اُس نے سوچ رکھا تھا کہ
وہ اِنجینئر بنے گا۔ اِس لیے وہ خوب محنت کرنا چاہتا تھا۔ تا کہ بہت اچھّے
نمبر حاصل کر سکے۔
’’ شانی کو واپس کیوں بھیج دیا دانی؟‘‘ سعدیہ آپی نے پوچھا۔ ’’ مجھے اگلا
سبق پڑھنا ہے۔ وہ کھیلنے کے لیے بُلانے آیا تھا۔‘‘ دانیال نے جواب دیا۔ ’’
آپ کو کھیلنے جانا چاہیے تھا دانی۔ اسکول کا کام تو آپ کر چکے ہو ناں!‘‘
آپی نے پیار سے کہا۔ ’’ نہیں! مجھے نہیں کھیلنا۔ کھیل میں وقت ضائع ہوتا ہے۔‘‘
دانیال نے سمجھدار بنتے ہوئے کہا۔ آپی نے مسکرا کر اُسے دیکھا اور پاس بیٹھ
گئیں۔ ’’ میرے پیارے بھائی! کیا آپ کو معلوم ہے؟ کھیل آپ کو صحت مند رکھنے
کے لیے ضروری اور اچھّا ہے۔‘‘ آپی کی اِس بات پر دانیال نے حیران ہو کر
دیکھا۔ جیسے اُسے آپی کی بات پر یقین نہ آیا ہو۔
’’ جا ؤ ! کھیلو جا کر دوستوں کے ساتھ۔ ‘‘ آپی نے دانیال کو ہاتھ پکڑ کر
اُٹھانا چاہا۔ دانیال نے فوراً ہاتھ چھُڑایا۔ ’’ نہیں! میں نہیں جاؤں گا۔
اگر میں کھیل میں لگ گیا تو میرے نمبر کم آئیں گے۔‘‘ وہ بولا تو آپی نے
اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’ پڑھنا اچھی بات ہے لیکن یہ کیا کہ آپ ہر وقت
کتابی کیڑا بنے رہو۔ کھیل تب نقصان دیتا جب آپ ہر وقت اور پڑھائی کو بھول
کر کھیل میں لگے رہو۔ پڑھنے کے بعد ذہن اور جسم کو تروتازہ کرنے کے لیے
کھیلنا بہت ضروری ہے۔کھیلو گے تو طبیعت میں چُستی رہے گی۔ ایک بات بتاؤ۔
اسکول کا کام کرنے کے بعد تھک جاتے ہو ناں؟ اور کام کرتے کرتے سستی بھی
چھانے لگتی ہے؟‘‘ آپی نے پوچھا۔ ’’ جی! لیکن وہ تو کام کی تھکن ہوتی ہے۔‘‘
دانیال نے کہا۔
’’ پیارے بھائی! کھیلنے سے انسان کا جسم توانا بنتا ہے۔ پھر تھکن بھی کم
ہوتی ہے۔ فٹ بال، ہاکی، کرکٹ، دوڑ لگانا اور بیڈ منٹن وغیرہ جیسے کھیلوں
میں جسم کی خوب ورزش ہوتی ہے۔ پٹھّے مضبوط ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے انسان تن
درست رہتا ہے۔سُستی بھی پاس کَم آتی ہے۔پڑھنے کے لیے بھی صحت مند جسم اور
دماغ کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے اچھّی خوراک کے ساتھ کھیل اور ورزش بہت ضروری
ہے۔‘‘ دانیال نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔ ’’جی ٹھیک ہے۔ میں سمجھ گیا۔ شاید
اِسی لیے میں جلد سستی کا شکار ہو جاتا ہوں۔ اب میں ضرور کھیلا کروں گا۔‘‘
دانیال نے مسکرا کر کہا اور کھیلنے چلا گیا۔
|