ایک دن ایک ڈاکٹر صاحب کا بیان نظر سے گزرا، پاکستان میں
ایک کروڑ80 لاکھ لوگ نابینا یا نابینا پن کے قریب ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے
یقیناً اصلاح احوال کے نقطہ نظر سے فرمایا ہوگا لیکن موصوف کو یہ پتہ نہیں
کہ وہ کیا فرما رہے ہیں؟ 20 کروڑ کی آبادی میں 1 کروڑ 80 لاکھ کا مطلب ہوا
9 فیصد سے کچھ زیادہ یعنی ہر 11 بندوں میں سے ایک نابینا، تو تقریباً ہر
دوسرے گھر میں ایک فرد نابینا ہونا چاہیے۔ کیا آپ پاکستان کے کسی ایسے
محلہ، گلی، گاؤں کو جانتے ہیں جہاں ہر دوسرے گھر میں ایک فرد نابینا ہو یا
خدا نخواستہ نابینا پن کے قریب ہو؟
ایک اور صاحب کا بیان سننے کو ملا، پاکستان میں ہر 20 سیکنڈ میں ایک خاتون
دوران زچگی فوت ہوجاتی ہے۔ اس حساب سے ایک منٹ میں تین، ایک گھنٹہ میں 180،
دن میں4،320 اور سال میں 15،76،800 یعنی تقریباً 16 لاکھ خواتین صرف دوران
زچگی فوت ہوتی ہیں جبکہ ادارۂ شماریات پاکستان (Pakistan Bureau of
Statistics) کے مطابق پاکستان میں کل سالانہ اموات بشمول مرد، عورت، بچے،
بوڑھے، جوان صرف 12 لاکھ ہیں۔ تو کیا صرف زچگی میں خواتین کی اتنی اموات
ممکن ہیں؟
اعداد وشمار کی سماج میں وہی اہمیت ہے جو ایک درزی کے ہاں کپڑا ناپنے والے
پیمانے کی، یا دکاندار کے ہاں ترازو کی۔ لیکن پاکستان میں اعداد وشمار کو
جتنا غلط استعمال کیا جاتا، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے اور عوام بھی ایسی
بھولی کہ جو کچھ سن لیا، ایمان بالغیب لے آئے۔ ایک دن مجھے ایک پڑھے لکھے
دوست نے میسیج کیا جسے انہوں نے مسجد نبوی سے متعلقہ معلومات کا ٹائٹل دیا
ہوا تھا اور یہ گزارش بھی شامل تھی کہ ان معلومات کو آگے مزید لوگوں تک
بھی بھیجیے۔ ان ’’معلومات‘‘ میں یہ بھی لکھا تھا کہ مسجد نبوی کی بلندی 300
میٹر ہے۔ میں نے موصوف سے دریافت کیا، مسجد نبوی کا زیادہ حصہ ایک منزل پر
مشتمل ہے، تو اس کی بلندی 300 میٹر کیسے ہوسکتی ہے؟ موصوف بجائے ماننے کے
کچھ بگڑ سے گئے اور میرے مذہبی عقائد سے متعلقہ ایک غیر معقول بحث پر اتر
آئے۔ حالانکہ پڑھے لکھے لوگوں کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ اگر اپنی غلطی واضح
ہوجائے تو اسے تسلیم کر لیا جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کبھی اعداد
وشمار کو سنجیدہ نہیں لیا، بس جو سُنا، اسی پر یقین کر لیا، اور اس کا منفی
استعمال ہی کیا۔
یہ تو عوامی قسم کی معلومات ہیں جن کو زیادہ سیریس نہیں لینا چاہیے، لیکن
آج کل سائنسی ریسرچ کے نام پر اتنی بوگس معلومات پھیلائی جارہی ہیں کہ جن
کا نہ سر ہے نہ پیر لیکن اتنے اعتماد اور وثوق کے ساتھ پروپیگنڈا کیا جاتا
ہے کہ سچ محسوس ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ ملک کے وزیر اعظم کا مشیر برائے تعلیم ان
بوگس اعداد وشمار کو سچ سمجھ کر حوالہ دیتا ہے۔ ایسی ہی بوگس ریسرچ میں سے
ایک 'الف اعلان' نامی غیر سرکاری تنظیم کی تعلیمی جائزہ رپورٹ ہے، جس کے
مطابق پاکستان میں فی الوقت 5 سے 16 سال کی عمر کے 22.6 ملین یعنی دو کروڑ
26 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔پاکستان میں 5 سے 16 کی عمر کے کل بچوں کی
تعداد تقریباً 5 سے 6 کروڑ کے درمیان ہے۔ اس حساب سے سکول نہ جانے والے
بچوں کا تناسب 40 فیصد سے زیادہ بننا چاہیے۔میرے ناقص معلومات کے مطابق اب
شاید ہی پاکستان کا کوئی دُور دراز علاقہ ایسا ہو جہاں اتنی بڑی تعداد سکول
سے باہر ہو لیکن یہ بات درست کہ ایک منظم سائنسی ریسرچ کے بالمقابل میری
ذاتی معلومات کی کوئی حیثیت نہیں لیکن پاکستان میں یونیسیف جیسے ادارے کے
تعلیمی اعداد وشمار موجود ہیں جن کے مطابق سکول سے باہر بچوں کی تعداد محض
9.2 ملین ہے جو کہ الف اعلان کی بتلائی گئی تعداد کے نصف سے بھی کم ہے۔
یونیسکو کی 2014 کی جائزہ رپورٹ کے مطابق سکول سے باہر بچوں کی تعداد 5.5
ملین ہے، تو الف اعلان کو یہ نمبر 22.6 ملین کیسے مل سکتا ہے؟ پاکستان کی 4
کروڑ آبادی 10 بڑے شہروں میں آباد ہے جہاں شرح خواندگی 70 فیصد سے زیادہ
ہے اور بچوں کے سکول نہ جانے کی شرح 10 فیصد سے کم ہے۔پاکستان کی کل شہری
آبادی 7.5 کروڑ ہے جن میں تعلیمی تناسب کافی بلند ہے جبکہ بہت سارے علاقے
ایسے ہیں جن کو سرکاری طور پر تو دیہی علاقے کہا جاتا ہے لیکن عملاً وہاں
تمام شہری سہولیات دستیاب ہیں اور تعلیمی تناسب بہت اچھا ہے۔ مثلاً ضلع
راولپنڈی کی کل آبادی 54 لاکھ سے زیادہ ہے جس میں 34 لاکھ دیہی آبادی ہے
لیکن ضلع راولپنڈی کی اوسط شرح خواندگی 70 فیصد سے زیادہ ہے۔ محکمہ تعلیم
کی سالانہ تعلیمی جائزہ روپورٹ(Annual Status of Education Report 2016) کے
لیے کئے گئے سروے کے مطابق ضلع راولپنڈی میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد 1
فیصد سے بھی کم ہے۔ اسلام آباد کی دیہی آبادی تقریباً 10 لاکھ سے زیادہ
ہے اور اسلام آباد کی دیہی آبادی میں سکول سے باہر بچوں کا تناسب نہ ہونے
کے برابر ہے۔ تقریباً یہی صورتحال ہر بڑے شہر کے مضافاتی دیہات کی ہے۔
اب جب ملک کا ایک بہت بڑا حصہ ان علاقوں میں آباد ہے جہاں سکول نہ جانے کا
تصور ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔ چنانچہ اگر الف اعلان کے اعداد وشمار درست ہیں
تو باقی ملک میں سکول سے باہر بچوں کا تناسب 75فیصد سے زیادہ ہونا چاہیے۔
کیا پاکستان کا کوئی قابل ذکر علاقہ ایسا ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں بچے
سکول نہ جاتے ہوں؟ میرا ذاتی تعلق آزادکشمیر کے دور دراز علاقے سے ہے،
جہاں منجمند سردیوں میں سکول جانا کافی مشکل ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود میں
3 فیصد بچوں کو بھی آوارہ پھرتے ہوئے نہیں پاتا۔ آزاد کشمیر کی حکومت کے
اعداد وشمار کے مطابق سکول انرولمنٹ کی شرح94 فیصدہے۔
اس کے برعکس الف اعلان کے اعداد وشمار بتلاتے ہیں کہ آزادکشمیر میں سکول
سے باہر بچوں کا تناسب 50 فیصد ہے۔ تمہارا حق ہے کہ تم سرکاری اعداد وشمار
سے اختلاف رکھو، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جو مرضی لکھتے جاؤ، جو
لکھو، اس سے پہلے اس نمبر کو سمجھ لیا کرو کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا واقعی
آپ کو پاکستان کا کوئی بڑا ضلع ایسا نظرا آتا ہے جہاں 50 فیصد بچے سکول
سے باہر نظر آتے ہوں؟ اگر آپ کو ڈھونڈے سے ایسے 3-4 اضلاع بھی دستیاب
نہیں تو مجموعی طور پاکستان میں جہالت کا تناسب اتنا زیادہ کیسے ہوسکتا ہے؟
آخر میں میری ایک گزارش اور ہے، یہ بجا ہے کہ پاکستان میں بہت کچھ درست
نہیں، لیکن خدارا! جتنا ہے اس سے زیادہ برا اور پتھر کے زمانے کا ملک ثابت
کرنے کی کوشش نہ کرو۔ تمہارے اعدادوشمار اور تمہارے تاثرات وہ آئینہ ہیں
جس کے ذریعے بیرونی دنیا پاکستان کو پہچانتی ہے۔ اگر آپ پاکستان کی اچھی
پہچان بنانے کے قابل نہیں تو پاکستان کو حقیقت سے زیادہ برا ثابت کرنے کوشش
بھی نہ کریں۔ |