ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جو ملکی دولت کو دونوں ہاتھوں
سے لوٹ رہے ہیں زمین کے ظاہر میں اتنی ناانصافی کے غریب بہت زیادہ غریب تر
ہوتاجارہاہے ۔جب کہ زمین کاباطن سب کے لئے ایک ہی ہے یعنی ہر ایک نے اسکے
اندر ہی جاناہے۔ ا سی ٹینشن کی وجہ سے بلڈپریشر ، شوگر، ہارٹ کا مرض عام
ہوتا جارہاہے ۔ ا ور ملکی دولت کی کرپشن کرنے والے دن دگنی رات چگنی ترقی
کررہے ہیں جنتامرضی لوٹ مار کر لے مرتے وقت تن کاکپڑا بھی قینچی سے کاٹ کر
کفن پہنانے کے لیے اتار دیاجاتاہے۔دنیا کا مال دنیا میں ہی چھوڑ کر جانا
ہوگا ۔ کاش ایک اور حضرت عمرؓ جیسا لیڈر ہمیں مل جائے۔
حضرت عمرؓ کا زمانہ تھا۔ اﷲ تعا لی نے مسلمانوں کی مدد کی تھی ۔ وہ کافروں
سے جنگ جیتے تھے۔جنگ میں انکے ہاتھ بہت سا مال آیاتھا۔
حضر ت عمرؓ جمعہ کے دن نماز پڑھانے آئے تو نماز سے پہلے تقریر کے لئے کھڑے
ہوئے ۔ انہوں نے کہا سنو! اور بات مانو!
نمازیوں سے ایک آدمی اٹھااور بولا:نہیں نہ ہم سنیں گے نہ بات مانیں گے پہلے
یہ بتاؤ کہ آپؓ کا کرتا کیسے بن گیا؟ کافروں سے لڑنے والے ہر آدمی کو ایک
ایک چادر ملی تھی۔میرا قد توآپ سے بھی چھوٹا ہے۔ ایک چادر سے تو میرا کرتا
نہیں بنا ۔آپ ؓ کا قد مجھ سے لمبا ہے ۔کیاآپ نے ایک سے زیادہ چادریں لے لی
ہیں؟ جب تک آپ میری بات کا جواب نہیں دیں گے،نہ آپ کی بات سنیں گے نہ مانیں
گے۔
حضرت عمرؓ نے تقریر روک دی اور کہا : تمھارے سوال کا جواب میرا بیٹا دے گا۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ کے بیٹے اپنی جگہ سے اٹھے، کہنے لگے :ایک چادر ابا جان
کو ملی تھی ،ایک مجھے ملی تھی ۔ایک چادر میں کرتانہیں بن رہاتھا ۔ میں نے
اپنی چادر اباجان کو دے دی دونوں چادروں سے اباجان کا کرتابن گیا۔ جب سوال
کرنے والے نمازی کو معلوم ہوگیاکہ حضرت عمرؓ نے دوسروں کی طرح خود بھی ایک
ہی چادر لی ہے تو کہنے لگا: ہاں اب آپ کو کہنے کا حق ہے۔ اب ہم آپکی بات
سنیں گے بھی اور مانیں گے بھی۔ایسی ہی باتوں سے رعایا کے دل میں حضررت عمرؓ
کی عز ت تھی اور لوگ ان کا حکم مانتے تھے۔
میگا کرپشن کرنے والوں اپنامحاسبہ دنیامیں ہی کرلو آخرت کی منزل بہت سخت ہے
۔
حضرت عمررضی اﷲ اتعالی عنہر یاستی امور پر بات کررہے تھے۔ گفتگو کا رخ
جونہی ذاتیات کی طرف مڑا امیرا لمونینؓ نے چراخ بھجادیا حاضرین نے حیرت سے
وجہ پوچھی تو فرمایاــ "اس چراغ میں بیت المال کا تیل جلتا ہے"اسکی روشنی
میں نجی گفتگو خیانت ہوگی۔یہ وہی حضرت عمر رضی اﷲ اتعالی عنہ ہیں جوامیرا
لمونین بننے سے پہلے اتنا اعلی اور بیش قیمت عطر استمال کرتے تھے جہاں سے
گزرتے وہ رستے اتنے معطر ہو جاتے کہ گھنٹوں کے بعد بھی لوگ خوشبو سے پہنچان
جاتے کہ کون گذرا ہے ۔ جبکہ خلافت سنبھالنے کے چند ماہ بعد کوئی دوست ملنے
آیا توامیرا لمونینؓ کو پہنچاننہ پایاکہ بار خلافت نے نفاست کے پیکر کا
حلیہ ہی بدل دیا تھا۔
آج ہم اگر اپنا محاسبہ کریں کیسے کیسے بھیڑے عوام کو بھنبھوڑ رہے ہیں ہر
محکمہ کے لوٹ مار کرنے کا اپنا ہی سٹائل ہے۔اور تو اور انکی ڈھٹائی دیکھیں
ہر چور، ڈاکو، لٹیرا ،نقب زن خود کو سادھ ثابت کرنے پرتلاہوا ہے
حضور ﷺفرماتے ہیں ـ"جو شخص تم میں سے کسِی برائی کو (ہوتے) ہوئے دیکھے ،تو
اسے اپنے ہاتھ سے بدل(روک) دے۔اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں ہے تو زبان
سے(اس برائی کو واضع کرے) اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو دِل سے(اسے برا جانے)
اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہیـ"(مسلم)
برائے سو ئی گیس قانونی شق: 462D میٹر سے چھیڑ چھاڑ کی صورت میں ماہ قید
ایک لاکھ جرمانہ 462Eکمر شل میٹر چھیڑ چھاڑ کی صورت میں 10سال قید 50لاکھ
جرمانہ
462F نقصاں ن پہنچانے کی صو ر ت میں 14سال قید 10لاکھ جرمانہ
برائے بجلی قانو نی شق: 462 H لائن سے چوری کرنا 3سال قید 1کروڑ جرمانہ 462
Iلائنوں سے کنڈا ڈالنا 3سال قید 30 لاکھ جرمانہ 462 Mمیٹر کو نقصان پہچانا
7 سال قید 30لاکھ جرمانہ
برائے پانی بل قا نونی شق:
اتنی قانونی د فعات صرف عوام کے لئے ہیں ۔ جبکہ بغیر رشوت کے کا م کسی
محکمہ میں ہوتاہی نہیں اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہمحکمہ کے تعاون کے
بغیر کسی بھی قسم کی چوری ہوہی نہیں سکتی۔تمام یوٹیلٹی بلز پراگر محکمہ کا
ورکر ز شامل چوری ہوتو اسکی تمام سہولیات چھین لی جائیں اور اسکو محکمہ سے
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فارغ کر دیاجائے اور پنشن وغیرہ بھی نہ دی جائے یہ بھی
ہر یوٹیلٹی بلز پر تحریر ہونا چاہیے کرپشن اور رشوت کا یہ حال ہے کہ ایک
خاکروب سرکاری تنخواہ لینے کے باوجود گھر کوڑا منتھلی لئے بغیر نہیں
اٹھاتا۔
پاکستان کا ہر محکمہ رشوت سفارش میں ایک دوسرے سے چار ہاتھ اگے ہے۔میں اس
مردا اور بے ضمیرقوم کو کیسے جگایا جائے ۔اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو
دین اسلام پر اﷲ کے احکامات پر عمل پیرا ہو جاؤ۔
ورنہ برما ، فلسطین ، کشمیر ، کا حال تمارے سامنے ہے۔ہر برائی کے خلاف نکلو
ورنہ نکالے جاؤ گے۔ |