مجھےیاد ہے، بہت کچھ شاید ذہن کے کسی پردے پر زرا سا عکس
اب بھی جھلک رہا ہے۔ہاں! تم آئے تھے ، موسم کے خوش رنگ گلابوں کے ساتھ تم
نے اپنی چاہت کا عندیہ دیا تھا اور کسی اسیر زادے کی طرح تمہاری آنکھیں
میری پابند نظر آتی تھیں۔ دھنک کے تمہاری آنکھں میں چمک پیدا کیے ہوئے تھے۔
لیکن میں۔۔۔۔ہاں میں نے خوش رنگ فضاٶں کے تخاطب کو نظر انداز کیا، ٹھکرا
دیا تمہاری آنکھوں کی چمک کو، تمہارے انتظار کو اور تمہارے شوق کو بھی۔
شاید مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا تھا۔تم جیسے ہزاروں اس کرہ ارض پر۔۔۔۔مجھے
اب ادراک ہوا وہ تم جیسے تھے، تم نہیں تھے۔ لیکن سے یقین تک کا سفر بہت
دشوار رہا۔مرحلہ وار موسم کی تلخیاں تھیں۔تمہاری یادوں ک میلہ اور میلے میں
تنہائی ۔۔۔۔آہ! کیا ہی زرد موسم تھا۔ خزاں کے پتے گرتے ہوئے ارتعاش پیدا کر
رہے تھے۔ شور بالکل ویسا تھا جیسا تمہاری دل کی بستی اجڑنے پر ماتم۔ افسوس
مجھے وہ آواز تب سنائی نہ دی اور اب۔۔۔اور اب وہ آواز ذہن کے تصوراتی آئینے
پر یادوں کے در وا کیے چنگھاڑتی ہے اور مجھے اب انتظار ہے سرما کی پہلی
بارش کا جب بارش کا ہر قطرہ مجھے اس بات کا احساس دلائے گا کہ میں اور میرے
آنسو اکیلے نہیں۔ بارش کی بوندوں کہیں میرے لیے آہ ہے، کہیں تیرے لیے چاہ
ہے۔
سنو! چائے ا کپ ٹھنڈا ہوا چاہتا ہے۔ میں اور چائے کا آدھا کپ تمہارا منتظر
ہے۔ ان سرد رتوں میں فقط تمہارا منتظر ہے۔
|