قصور کا شہر پنجاب کے ان شہروں میں شمار ہوتا ہے کہ جہاں
پر زیادتی اور قتل کے واقعات بڑی تعداد میں درج ہوئے ہیں۔ یہ پہلا واقعہ
نہیں کہ جب معصوم بچی کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہو اور بعد
از درندگی قتل کر کے کسی کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا گیا ہو۔
4 جنوری کی شام ایسی ہی قیامت قصور شہر میں ٹوٹ پڑی کہ جب 7 سالہ زینب کو
اس گھر کے سامنے سے اغوا کیا گیا اور بعد از تشدد زدہ لاش جسے درندگی کا
نشانہ بنایا گیا، کچرے کے ڈھیر سے ملی۔ جب اس بچی کے ساتھ یہ ظلم ہو رہا
تھا تب اس کے والدین عمرے کی سعادت کے لیے مکہ مکرمہ میں موجود تھے۔ والدین
کو کیا پتا تھا کہ ان کے پیچھے یہ قیامت گزر جائے گی اور ان کے جگر کا ٹکڑا
کٹ کے الگ ہو جائے گا۔
یہ قصور کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ ایسے لاتعداد واقعات موجود ہیں۔ یہ
خبر 2017 کی ہے تقریباَ 129 کیس درج ہوئے۔ جن میں زیادتی اور قتل کے واقعات
شامل ہیں۔ سب سے زیادہ واقعات خالی قصور میں 2015 میں درج ہوئے۔ انسانیت کا
لبادہ اوڑھے درندوں نے 450 کے قریب واقعات کو جنم دیا اور معصوم بچوں کی
زندگیاں برباد کر ڈالیں۔ اور 2016 میں اسی طرح کے 140 واقعات دیکھنے میں
آئے۔ ان تمام واقعات میں ایک چیز جو قدرِ مشترکہ تھی اور وہ یہ کہ ان
واقعات میں ملوث ایک بھی مجرم نہ تو پکڑا گیا اور نہ ہی سامنے لایا گیا۔
یہاں ایف آئی آر درج ہو بھی جائے اور کیس کورٹ تک بھی چلا جائے تو اس کے
باوجود انصاف ملنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ یا تو نامزد ملزم کی پہنچ بہت
اوپر تک ہوتی ہے یا اکثر قانون کے رکھوالے ہی، قانون کے ساتھ کھلواڑ کر
جاتے ہیں۔ انصاف نہ ملنے سے مجرم کے ارادے اور پختہ ہو جاتے ہیں اور وہ
مزید ایسے واقعات کو جنم دیتا ہے جس سے انسانیت کی روح کانپ اٹھے۔
قصور کی بیٹی زینب بھی انصاف کی منتظر رہے گی اور اس کی روح کو بھی اس وقت
تسکین پہنچے گی جب اسکا قاتل کیفرِ کردار تک پہنچے گا۔ اور نہ جانے کتنی
اور زینب اسی طرح انصاف کی منتظر ہیں۔ کیا قصور میں بسنے والی ہر زینب کا
قصور یہی ہے کہ وہ ایک بچی ہے جسے ناپاک عزائم کے لیے استعمال کیا جائے؟
کیا ایسے بچوں کو جنہیں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا انہیں عزت کے ساتھ
معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا حق حاصل نہیں؟ کب تک ہم مردہ ضمیروں کے ساتھ
جیتے رہیں گے کب ہم اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے؟
حکومت تو بےبس ہو چکی ہے اور ساتھ ساتھ مردہ بھی۔ جہاں وزیر قانون یہ بات
کہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کوئی بڑی بات نہیں لوگوں کو چاہیے کہ جذباتی نہ
ہوں اور اشتعال نہ ہوں، ایسے میں انصاف کہاں سے ملے گاَ؟ میں ایسے وزرا سے
پوچھنا چاہوں گا کہ اگر کل خدا نہ کرے آپ کے گھر میں ایسا واقعہ پیش آئے تو
کیا تب بھی یہی ردِعمل ہوگا جو آج اپنایا جا رہا ہے؟ انصاف نہ دینا اور
ملزم کو نہ پکڑنا اس کے باوجود انہیں پتا ہے کہ ان تمام جرائم کے پیچھے کون
ہے اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ان حکمرانوں کے خود ناپاک عزائم ہیں جو اس سے
وابسطہ ہیں۔
ہماری تو یہی دعا ہے کہ اللہ ان درندوں کو ایسی سزا دے کہ آئندہ کوئی ایسا
کرنے کی جرت نہ رکھے۔ ہزاروں زینب ہیں ایسی جو انصاف کی منتظر ہیں، انہیں
انصاف ملے تاکہ وہ عزت کے ساتھ اس معاشرے میں رہ سکیں۔ کسی کی اولاد اس سے
جدا نہ ہو۔ |